ضرورت تھی حقیقی زرعی اصلاحات کے اعلان کی۔ بے زمین کسانوں اور ہاریوں کے لئے زمین، جاگیرداروں کی زمین ضبط کر کے مزارعوں اور بے زمین کسانوں میں تقسیم۔ پائیدار قدرتی نظام کاشتکاری کے اصولوں کو ریاستی سطح پر اختیار کرتے ہوئے نئی زرعی ترقی کے لئے بنیادیں ہموار کرنا۔ ہم اس کسان پیکیج کے زیادہ تر حصے کو رد کرتے ہیں اور روایتی کاشتکاری سے علیحدہ ہونے کے اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
پاکستان
عمران خان کی تاریخی مقبولیت یا رائی کا پہاڑ؟
الیکشن کمیشن نے وہ ’ممنوعہ ریڈ لائن‘ کراس کی اور عمران خان کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے اس کو بدعنوان بھی قرار دیا اور ڈی سیٹ بھی کر دیا۔ سوشل میڈیا پر طوفان برپا کرنے کے برعکس زمین پر ایسا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ گو پنجاب اور صوبہ پختونخواہ کی حکومتی مشینری کی مکمل حمایت انہیں حاصل تھی مگر کہیں بھی ایسا مجمع اکھٹا نہ ہو سکتا جو ریڈ لائن عبور کرنے والوں کے لئے کوئی مشکل پیدا کر سکے۔ ایک دو گھنٹوں میں ہی عمران خان کو بھی خود کو اس ’ٹرانس‘ سے نکالنا پڑا جس میں اس نے خود کو مبتلا کیا ہوا تھا۔
جموں کشمیر: بلدیاتی انتخابات کے راستے میں رکاوٹیں کیوں؟
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ایک مرتبہ پھر مشکوک ہو گیا ہے۔ تاہم صورتحال آہستہ آہستہ دونوں فریقین کو بند گلی میں دھکیلتی جا رہی ہے۔ گزشتہ ایک سال سے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کیلئے سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد تیاریوں اور رکاوٹوں کا سلسلہ جاری ہے۔
یہ مارچ ہے نہ لانگ ہے
عمران خان کا سارا ریڈیکل ازم بھی اگلے چند دنوں میں جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گا۔ فوج کھل کر ان کی مخالفت میں سامنے آ گئی ہے۔ اگر فوج منقسم تھی اور اس کے بعض دھڑے عمران کی پشت پناہی کر رہے تھے تو یہ زیادہ دیر نہیں چلے گا۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس اس بات کا اظہار تھی کہ فوج نے اپنی صفیں از سر نو درست کی ہیں۔ بلاشبہ یہ پریس کانفرنس فوج کے نروس ہونے کی بھی علامت تھی لیکن یہ اس بات کا برملا اظہار تھا کہ اب یہ لڑائی براۂ راست تحریک انصاف اور فوج میں ہے۔
یہ لانگ مارچ جلد یا بدیر ناکامی کا سامنا کرے گا
ڈائر یکٹر جنرل آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس میں غیر معمولی شرکت سے ایک بات بالکل واضح ہو گئی کہ عمران خان کی صورت میں تیسری طا قت کو ملکی سطح پر مصنوعی طور تیار کرنے کی حکمت عملی مکمل طور پر ناکام رہی۔ یہ پریس کانفرنس اس تجربہ سے ناکامی کا اظہار کرنے کے لیے تھی اور خاص طور پر لانگ مارچ سے ایک روز پہلے اس پریس کانفرنس کے ذریعے اپنے تمام قریبی رابطوں اور سیاست دانوں پر وا ضح کرنا تھا کہ عمران خان کے ساتھ نہ چلیں اور ا نکا ساتھ نہ دیں۔ لانگ مارچ کا سیاسی انداز میں جواب پریس کانفرنس کر کے دیا گیا، دیگر ریاستی حربے اس کے بعد استعمال کئے جائیں گے۔ یہ وارننگ بھی تھی کہ ابھی سیاسی بات کر رہے ہیں پھر دوسرے طریقے سے بھی نپٹیں گے۔
عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں بلاول بھٹو کے یوتھیاپے
سچ تو یہ ہے کہ موجودہ سیٹ اپ اُس ہائبرڈ نظام کا تسلسل ہے جسے عمران خان سے منسوب کیا جاتا تھا۔ اگر کوئی فرق ہے تو شائد یہ ہو سکتا ہے کہ عمران خان اپنے ذاتی مفادات کے لئے کچھ چوں چرا کرتے تھے، شہباز شریف اور بلاول بھٹو کے منہ سے تو اُف اللہ بھی نہیں نکل رہا۔
جموں کشمیر: بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں، خدشات اور امکانات
سیاسی جماعتیں البتہ اس صورتحال میں تقسیم نظر آتی ہیں۔ مرکزی دھارے کی سیاسی قیادتیں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد رکوانے کیلئے سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ تاہم قوم پرست اور ترقی پسند جماعتیں ایک مرتبہ پھر انتخابات کے حوالے سے شش و پنج کا شکار ہیں۔
جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے تمام دھڑوں کی جانب سے ایک مرتبہ پھر انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلے کیا ہے، تاہم کچھ دھڑوں کے مرکزی عہدیداران اور کارکنان انتخابات میں حصہ لینے کیلئے کمربستہ ضرور ہیں۔ دوسری طرف ترقی پسند کہلانے والی قوم پرست جماعتوں کی جانب سے انتخابات میں حصہ لینے کیلئے اپنے امیدوار آزاد حیثیت میں میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔
منافقت، موقع پرستی کا انجام نا اہلی
عمران خان کو 2018ء میں دھاندلی کے ذریعے لایا گیا۔ یہ نوے کی دہائی نہیں تھی۔ تحریک انصاف پر مبنی ہائبرڈ رجیم نے ہائبرڈ رجیم کی اپنی چیخیں نکلوا دیں۔ یہ منصوبہ رول بیک کرنے کا فیصلہ ہوا۔ نواز شریف اور بھٹوخاندان تو موروثی سیاست کرتے ہیں۔ ایک کے ہاتھ سے کرسی جاتی ہے تو وہ اپنی اولاد کے لئے راہ ہموار کرنے کے لئے چپ چاپ گھر چلا جاتا ہے۔
عمران خان موروثی سیاست کی بجائے شخصیت پرستی کا نمونہ تھا۔ عمر بھی ستر سال۔ اولاد نے سیاست میں آنا نہیں۔ انتظار کے لئے زیادہ سال بچے نہیں۔ بوکھلاہٹ میں ہر ممکن طریقے سے اقتدار بچانے کی کوشش ہوئی۔ اس کا یہ فائدہ تو ضرور ہوا کہ کھوئی ہوئی مقبولیت کافی حد تک بحال ہو گئی مگر فوج ایسی بد ظن ہوئی کہ اب عمران خان کو اگلی باری بھی شائد کبھی نہ ملے۔
عمران خان کی فوج مخالفت سے سویلین سپریمیسی کی جدوجہد آگے نہیں بڑھے گی
پی ٹی آئی ٹریڈ یونین، طلبہ یونین، آزاد میڈیا اور برادشت پر یقین نہیں رکھتی۔ مرکز میں اس کا تین سالہ دور حکومت ہو یا پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اس کا ریکارڈ دیکھ لیا جائے…صاف پتہ چل جائے گا کہ یہ گروہ جمہوریت دشمن ہے۔ طلبہ، اساتذہ، صحافی، مزدور…جو ان کے ہاتھ چڑھا، اس پر انہوں نے لاٹھیاں برسائیں اور تشدد کیا۔ نہ طلبہ یونین پر پابندیاں ختم کیں، نہ بلدیاتی ادارے بننے دئیے، نہ ٹریڈ یونین کو کوئی سہولت فراہم کی۔ گراس روٹس جمہوریت کے بغیر لبرل طرز کی جمہوریت بھی پروان نہیں چڑھ سکتی۔ اس محاذ پر تحریک انصاف کی کارکردگی ثابت کرتی ہے کہ ان کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں۔
ضمنی انتخابات میں عمران خان کی کامیابی کی وجہ: قوم یوتھ کا وینا ملک ڈس آرڈر
یاد رہے ماہرین نفسیات نے ابھی تک سٹاک ہولم سنڈروم کو ایک بیماری نہیں مانا۔ اس لئے اس کا کوئی علاج بھی تجویز نہیں کیا گیا۔ وینا ملک ڈس آرڈر البتہ ایک خطرناک بیماری ہے۔
ہاں مگر یہ کوئی نفسیاتی بیماری نہیں ہے۔ یہ سماجی و سیاسی و نظریاتی بیماری ہے۔ اس کی تشخیص ماہرین نفسیات نہیں، ترقی پسند سیاسی کارکن کر سکتے ہیں۔ خوش قسمتی سے اس کا علاج بھی ممکن ہے۔ اس بیماری کا علاج ہے سوشلزم۔
اس علاج کے نتیجے میں ان مراعات کا خاتمہ کرنا درکارہوتا ہے جن کے نتیجے میں قوم یوتھ وجود میں آتی ہے۔