دنیا


سویڈش جھنڈے کو فرش بنا دیا…مگر کسی کے جذبات مجروح نہیں ہوتے

اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ سویڈن یا دیگر مغربی ریاستوں میں یہاں کی بورژوازی کو خود پراعتماد ہے۔قومیت ایک بورژوا جذبہ ہے۔پر اعتماد بورژوازی کو جعلی اقدامات کے ذریعے حب الوطنی نہیں جگانی پڑتی۔ میں نے مغربی یورپ کے کچھ ملک گھومے ہیں۔لندن میں رہا ہوں۔ یہاں عام طور پردیواروں پر یہ نہیں لکھا ہوتا کہ اپنے ملک سے پیار کرو۔نہ ہی ٹرکوں کے پیچھے اپنے ملک کی فوج کو سلام پیش کئے جاتے ہیں۔ باقی ملکوں کا تو پتہ نہیں، سویڈن میں اگر فلم دیکھنے جاو تو فلم سے پہلے ’پاک سر زمین‘ نہیں بجایا جاتا۔یہ سب علامتی باتیں قومی بورژوازی کے نظریاتی غلبے کا اظہار ہیں۔

بھارتی کمیونسٹوں کی زیر قیادت فرقہ واریت کے خلاف جنگ

تحریر میں موجود غلطیوں اور تجاہل پسند ی کی ایک مثال کے طور پر مضمون کے لیے بنیاد فراہم کرنے والے دو بیانات میں سے ایک کیرالہ کے وزیر اعلیٰ اور سی پی آئی ایم پولیٹ بیورو کے رکن پنارائی وجین کا ہے۔ شادمان کا کہنا ہے کہ وجین نے ’دی ہندو‘ کے صحافی سوبھانا نائر کے سامنے یہ بات کہی کہ کیرالہ کے کچھ حصوں میں سونے کی سمگلنگ ’ملک دشمن‘ مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ مضمون کے نچلے حصے میں اخبار نے سونے کی سمگلنگ سے متعلق مواد کو شامل کرنے پرمعذرت کی۔ یہ بیان وزیراعلیٰ نے نہیں بلکہ تعلقات عامہ کی کمپنی Kaizzenکی طرف سے تحریری طور پر بنایا گیا تھا۔ دودن بعد وجین نے بھی اس بات کا اعادہ کیا کہ انہوں نے یہ بیان نہیں دیا، نہ ہی ایسے کسی بیان کی منظوری دی۔ شادمان نے اس سب کے برعکس یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بیان وجین کا ہے اور انہوں نے اس کی بنیاد پر پورا مضمون بنا دیا۔

سیز فائر حماس کی فتح ہے نہ ٹرمپ کے دباؤ کا نتیجہ

یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ ٹرمپ نے دھمکی لگائی تھی: اگر مطلوبہ تاریخ تک جنگ بندی نہ ہوئی تو وہ”جہنم“بنا دیں گے(گویا غزہ کے شہری 471 دنوں سے جن حالات میں رہ رہے تھے،وہ جہنم سے کم تھے)۔بلا شبہ، ٹرمپ کی ٹیم نے ہر ممکن دباو ڈالا جس کے نتیجے میں جنگی وقفہ (truce) ہوا (اتوار کو جو ہوا، اُسے جنگی وقفہ کہنا ہی زیادہ مناسب ہو گا)۔ افسانہ اس سارے بیانئے میں یہ گھڑا جا رہا ہے کہ ٹرمپ نے نیتن یاہو کی بازو مروڑی اور اِس کے نتیجے میں،بعض حلقے،ٹرمپ کو ایک ایسا قہر مان بنا کر پیش کر رہے ہیں جو اہلِ فلسطین کو انصاف پر مبنی امن دلائے گا۔

چینی سامراج ابھی زیر تعمیر ہے: چوتھی انٹرنیشنل

چین کی پچھلے 30 سالوں میں ”بڑی زقند” (great leap)کی نوعیت سرمایہ دارانہ تھی۔ ابھرتا ہوا چینی سامراج ایک عظیم سماجی انقلاب کا وارث ہے جہاں 1980 کی دہائی سے سرمایہ داری کی بحالی ہو رہی ہے۔یہ بحالی دنیا کے نیو لبرل ڈیزائن کے لیے ضروری تھی (یہ بحالی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ شراکت داری میں کی گئی)۔یہ ابھرتا ہوا چینی سامراجی نظام اپنے مخصوص خصائص رکھتا ہے جیسا کہ تمام سامراجی نظاموں میں ہوتا ہے۔ اس کی بنیاد ایک ریاستی سرمایہ داری(سٹیٹ کیپٹل ازم) ہے جو کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (سی سی پی) اور پیپلز لبریشن آرمی کے اداروں میں مرکوز ہے اور یہی ادارے اس کی ریاستی سرمایہ داری کی منصوبہ بندی (پلاننگ)کرتے ہیں۔

یہ جنگوں اور جغرافیائی سیاسی افراتفری کا دور ہے: چوتھی انٹرنیشنل

اکیسویں صدی کی دائیں بازو کی قوتوں نے انتخابی فتوحات کے ذریعے اپنی تعداد میں اضافہ کیا ہے اور استحکام حاصل کیاہے۔انتخابی کامیابیوں کے بعد انھوں نے سماجی آزادیوں اور سماجی حقوق کو محدود کرنے کے اقدامات اٹھائے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ”نظام مخالف” کے طور پر پیش کرتے ہیں (منافقانہ انداز میں وہ موجودہ سیاسی نظاموں کو بدتر حالت، بدعنوانی اور غیر یقینی صورت حال کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں)، حالانکہ وہ بالکل بھی نظام مخالف نہیں ہیں۔ اپنی انتہائی نیو لبرل پالیسیوں کے نفاذ یا بعض اوقات زینوفوبک قوم پرستی کا ایجنڈا آگے بڑھانے کے لئے، وہ رجعت پسند اور روایتی بیانئے کو فروغ دیتے ہیں۔عمومی طور پر ان قوتوں کی بنیاد پرست مذہبی حلقوں میں بھی حمایت موجود ہوتی ہے۔

غزہ میں جنگ بندی: تفصیلات، خطرات اور امکانات

فوری طور پر غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی واپسی اور آبادکاری کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں۔
اسرائیلی حکومت کے تمام اہم افراد پر جنگی جرائم کے الزام میں مقدمے چلائے جائیں اور انہیں سزائیں دی جائیں۔ اس ظالم حکومت کی سرپرستی کرنے پر جو بائیڈن پر بھی جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جائے۔
اسرائیل اور اس کی پشت پناہی کرنے والے تمام سامراجی امریکی اور یورپی اتحادیوں کو پابند کیا جائے کہ وہ تباہ حال غزہ کی بحالی اور تعمیر نو کے تمام اخراجات امداد کی صورت میں ادا کریں۔

جمی کارٹر نے کیسے ریگن کا راستہ ہموار کیا…

یہ جمی کارٹر کی ساکھ کے لیے اچھا ہی تھا کہ اس نے اتنی طویل عمر پائی۔ جن لوگوں نے کارٹر کی 1977ء تا 1981ء حکومت کو نہیں دیکھا وہ اسے انسانی حقوق، عالمی صحت عامہ اور غریبوں کی خدمت گزاری کے وکیل اور علمبردار کے طور پر جانتے ہیں۔ اسرائیل کے فلسطینیوں کے ساتھ سلوک کو ’’نسلی تفریق‘‘ (Apartheid) قرار دینے پر اس نے ایک سچ کہنے والے شخص کی حیثیت سے بھی شہرت حاصل کی۔

جموں کشمیر: حق حکمرانی، حق ملکیت کے مطالبات اور عبوری آئین

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں حق حکمرانی اور حق ملکیت کا مطالبہ مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ ساتھ ہی اس خطے میں نافذ العمل عبوری آئین’ایکٹ1974ء‘ کی منسوخی کا مطالبہ بھی کہیں نہ کہیں کیا جا رہا ہے۔ اس مضمون میں ہم جاننے کی کوشش کریں گے کہ حق حکمرانی اور حق ملکیت کی اصطلاحات کن معنوں میں استعمال کی جاتی ہیں، یہ دونوں حق کس طرح مل سکتے ہیں اور ایکٹ74ء میں ایسا کیا ہے،جس کی وجہ سے منسوخی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

لال قلعے پر جھنڈا لہرانے کا خواب بھارت کیساتھ معاشی شراکت داری میں تبدیل

افغانستان کی طالبان حکومت نے دہلی کے لال قلعے کو فتح کرنے کا پاکستانی منصوبہ ترک کر کے بھارت کو خطے کا ایک اہم ملک اور معاشی شراکت دار قرار دیا ہے۔ طالبان کی وزارت خارجہ کا یہ بیان بھارتی سیکرٹری خارجہ اور طالبان کے قائمقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کے مابین دبئی میں ہونے والی ایک ملاقات کے بعد سامنے آیا۔

الجولانی جہادی بھی، نیو لبرل بھی: ایچ ٹی ایس مزدور دشمن، عورت مخالف گروہ

پابندیاں ہٹانے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے کیونکہ ہیئت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) آج کے شام میں کلیدی عسکری اور سیاسی کردارہے، لیکن وہ اب بھی امریکہ، اقوام متحدہ، ترکی،یورپی ریاستوں سمیت بہت سی طاقتوں کی جانب سے دہشت گرد تنظیموں کی درجہ بندی میں شامل ہے۔علاقائی اور بین الاقوامی حکومتوں کی طرف سے ایچ ٹی ایس کے نقطہ نظر میں تبدیلی کے باوجود ممکنہ طور پر ضمانتوں کا مطالبہ کیا جائے گا۔