اگر امریکی حکومت اسرائیل کی حمایت کرنا چھوڑ دے تو یہ جنگ آج ہی رک سکتی ہے۔ دشمنیاں اسی لمحے تحلیل ہو سکتی ہیں۔ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا اور فلسطینی قیدیوں کو آزاد کیا جا سکتا ہے۔ حماس اور دیگر فلسطینی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ وہ مذاکرات جو بالآخر جنگ کے بعد ہوں گے، اب بھی ہو سکتے ہیں،جو لاکھوں لوگوں کی تکلیف کو روک سکتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ زیادہ تر لوگ اسے ایک سادہ، دیوانے کی بڑ، ہنسی مذاق کے قابل تجویز خیال کریں گے۔
دنیا
امریکی تاریخ میں اس جیسی کوئی مثال نہیں ہے
امریکی جنرل مارک ملی، جو 2019 سے 2023 تک جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئر مین رہے، نے اپنی مدت ملازمت کے اختتام کے قریب، واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے باب ووڈورڈ سے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کی سلامتی اور سالمیت کے لیے ایک بنیادی خطرہ ہیں۔جنرل نے ووڈورڈ کو بھی بتایا کہ”کوئی بھی شخص اس ملک کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ سے زیادہ خطرناک نہیں رہا۔ اب مجھے یہ احساس ہوا ہے کہ وہ مکمل طور پر فاشسٹ ہیں۔ وہ اس ملک کے لیے سب سے خوفناک شخص ہے۔“
فورتھ انٹرنیشنل: ’فلسطین میں جارحیت پورے مشرق وسطیٰ پر سامراجی حملہ ہے‘
دنیا میں کسی بھی دوسری جگہ کی نسبت،فلسطین میں استحصال زدہ اور مظلوموں کی کامیاب جدوجہد ایک منصفانہ دنیا کا زیادہ کامیاب راستہ بن سکتی ہے۔ ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ صرف ایک آزاد، جمہوری، سیکولر اور مساوات پر مبنی فلسطین،خطے کی آبادیوں کو ایک منصفانہ اور پرامن حل فراہم کر سکتا ہے، جہاں ہر کوئی رہ سکتا ہو، چاہے اس کا کوئی بھی مذہب ہو،اور جب تک وہ اس غیر نوآبادیاتی ڈھانچے کو قبول کرے۔
ایسا فلسطین تب ہی ممکن ہے جب طاقت کا توازن اس طرح سے بدلے گا کہ فلسطین کا حل ٹکڑوں میں بٹی ریاست تک محدود نہ ہو۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب سامراجیوں، خاص طور پر امریکہ کو روکنے کے لیے عالمی سطح پر لوگ متحرک ہوں،خاص طور پر اس خطے میں ایک عوامی تحریک جنم لے۔
اسرائیل نے اپنی دھاک بٹھانے کے لئے لبنان، ایران تک جنگ پھیلائی
اشقر کا خیال ہے کہ ایرانی محاذ پر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔آج مشرق وسطیٰ کا سیاسی منظر نامہ ایسا ہے جہاں تمام رنگوں کی اسلام پسند تحریکوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ ان تحریکوں کی پسپائی کے ساتھ ایک سیاسی خلا ہے جسے سیاسی طاقت کی ایک نئی شکل سے پُر کرنے کی ضرورت ہے جو کہ 2019 کے سوڈانی انقلاب کی ’بہت متاثر کن نوجوان سویلین قیادت‘ جیسی ہو سکتی ہے جس نے سابق صدر عمرالبشیر کی حکومت کو بے دخل کر دیا تھا۔
جموں کشمیر: ہندوتوا کی 5 سالہ انجینئرنگ کو شکست لیکن مرکز کی آمریت برقرار
جموں کشمیر میں انتخابات کے نتائج نے جہاں بی جے پی کے ہندوتوا ایجنڈے کو تو شکست سے دوچار کر دیا ہے۔ تاہم جمہوری، معاشی اور سیاسی آزادیوں کے حصول کی منزل ابھی طویل اور مسلسل جدوجہد کی متقاضی ہے۔ خصوصی حیثیت اور ریاستی تشخص کی بحالی اگر ہوتی ہے تو ایک ترقی پسند عمل ضرور ہوگا لیکن وہ جمہوری، معاشی اور سیاسی آزادیوں کی ضامن کسی صورت نہیں ہو سکتی۔ بی جے پی کی پالیسیوں کے نتیجے میں جموں اور وادی کے مابین علاقائی تقسیم اب مذہبی تقسیم کی صورت میں مزید گہری اور پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔
مشرق وسطیٰ میں نیا کہرام: صورتحال اور امکانات
یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کے اس لبرل آرڈر کا مکروہ چہرہ ہے جسے سوویت یونین کے انہدام کے بعد انسانیت کو ترقی، استحکام اور خوشحالی کے بامِ عروج تک پہنچانا تھا۔ دنیا آج ماضی کے کسی دور سے کہیں زیادہ عدم استحکام، انتشار اور خونریزی سے دوچار ہے۔ یہ استحصال، جبر اور انسان دشمنی پر مبنی‘ ایک تاریخی طور پر متروک سماجی نظام کے ناگزیر مضمرات ہیں۔ جو ہر گزرتے دن کے ساتھ نسل انسان کو بربریت کی طرف دھکیلتا جاتا ہے۔
کامریڈ صدر؟ سری لنکا میں مارکس واد کی دعویدار جماعت کیوں جیتی؟
نئے صدر کو ووٹ دینے اور نہ دینے والے تمام لوگوں کو توقع ہے کہ ان کی حکومت اس سیاسی کلچر کو تبدیل کر دے گی، جس میں سیاستدان انتخابات کے درمیانی عرصہ میں عوام پر حکمرانی کرتے ہیں۔ خواہ وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں،مراعات سے فیض یاب ہوتے رہتے ہیں۔ اپنے دفتروں کے ذریعے سیاسی جماعتوں، مقامی اور غیر ملکی کاروباری سودے بازی اور رشوت سے منافع کماتے ہیں، حکومتی اور بین الاقوامی ٹینڈرز اور معاہدوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں، اوراپنی بداعمالیوں اور جرائم پر سزاؤں، مقدمات اور استغاثہ سے استثنیٰ حاصل کرتے ہیں۔
’سری لنکا میں مارکسسٹ صدارتی الیکشن نہیں جیتا، ایک سنہالہ شاؤنسٹ جیتا ہے‘
کویتا کرشنن (کویتا کرشنن کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ لیننسٹ) کے پولٹ بیورو کی رکن رہی ہیں۔ ان کا شمار جنوبی ایشیا کی اہم مارکسی دانشوروں میں ہوتا ہے۔ یوکرین جنگ کے سوال پر انہوں نے اپنی پارٹی سے استعفیٰ دے دیاتھا۔وہ چاہتی تھیں کہ یوکرین پر روسی جارحیت کی […]
آئی ایس آئی نے جعلی مسعود اظہر پکڑ کر مشرف کو دھوکا دیا
جہادی دنیا اور آئی ایس آئی کے لئے مسعود اظہر کی اہمیت گہرے تجزئے کا تقاضہ کرتی ہے۔ مسعود اظہر میں لوگوں کو قائل کرنے کی زبر دست صلاحیت تھی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 25 سال کی عمر میں انہوں نے مختلف الخیال علما ء کی زبردست حمایت حاصل کی۔ جہاں تک تعلق ہے آئی ایس آئی کا تو آئی ایس آئی کے نقطہ نظر سے مسعود اظہر کی اہمیت یہ تھی کہ وہ وسیع تر جہادی نیٹ ورک میں اہم مقام رکھتے تھے جو کشمیر میں مسلح کاروائیاں جاری رکھنے کے لئے اہم تھا۔دنیا بھر سے جنوب ایشیائی لوگوں کو بھرتی کر کے افغانستان اور کشمیر لانا، مسعود اظہر کی ایک ایسی صلاحیت تھی جس کی اہمیت بالکل عیاں ہے۔ پاکستانی انٹیلی جنس کے لئے اہم تھا کہ اس شخص کو بھارتی قید سے نکالا جائے اور اس کی سر پرستی کی جائے۔
کلکتہ ریپ کیس: سرمایہ دارانہ معاشرے کا مکروہ چہرہ بے نقاب
بھارت کے شہر کلکتہ میں رونما ہونے والے گینگ ریپ کے اندوہناک واقعے نے ایک بار پھر پورے معاشرے کو ہلا کے رکھ دیا ہے اور جنسی امتیاز اور تشدد کے سوال کو سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ پاکستان اور بھارت جیسے بحران زدہ معاشروں میں ریپ اور قتل کے واقعات اخبارات کے اندرونی صفحات کی وہ یک سطری خبریں ہیں جو اب معمول کا حصہ بن چکی ہیں۔ لیکن کلکتہ میں ہونے والا یہ ریپ اور قتل اپنی نوعیت کا انتہائی وحشت اور درندگی پر مبنی واقعہ ہے۔