نئے صدر کو ووٹ دینے اور نہ دینے والے تمام لوگوں کو توقع ہے کہ ان کی حکومت اس سیاسی کلچر کو تبدیل کر دے گی، جس میں سیاستدان انتخابات کے درمیانی عرصہ میں عوام پر حکمرانی کرتے ہیں۔ خواہ وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں،مراعات سے فیض یاب ہوتے رہتے ہیں۔ اپنے دفتروں کے ذریعے سیاسی جماعتوں، مقامی اور غیر ملکی کاروباری سودے بازی اور رشوت سے منافع کماتے ہیں، حکومتی اور بین الاقوامی ٹینڈرز اور معاہدوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں، اوراپنی بداعمالیوں اور جرائم پر سزاؤں، مقدمات اور استغاثہ سے استثنیٰ حاصل کرتے ہیں۔
دنیا
’سری لنکا میں مارکسسٹ صدارتی الیکشن نہیں جیتا، ایک سنہالہ شاؤنسٹ جیتا ہے‘
کویتا کرشنن (کویتا کرشنن کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ لیننسٹ) کے پولٹ بیورو کی رکن رہی ہیں۔ ان کا شمار جنوبی ایشیا کی اہم مارکسی دانشوروں میں ہوتا ہے۔ یوکرین جنگ کے سوال پر انہوں نے اپنی پارٹی سے استعفیٰ دے دیاتھا۔وہ چاہتی تھیں کہ یوکرین پر روسی جارحیت کی […]
آئی ایس آئی نے جعلی مسعود اظہر پکڑ کر مشرف کو دھوکا دیا
جہادی دنیا اور آئی ایس آئی کے لئے مسعود اظہر کی اہمیت گہرے تجزئے کا تقاضہ کرتی ہے۔ مسعود اظہر میں لوگوں کو قائل کرنے کی زبر دست صلاحیت تھی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 25 سال کی عمر میں انہوں نے مختلف الخیال علما ء کی زبردست حمایت حاصل کی۔ جہاں تک تعلق ہے آئی ایس آئی کا تو آئی ایس آئی کے نقطہ نظر سے مسعود اظہر کی اہمیت یہ تھی کہ وہ وسیع تر جہادی نیٹ ورک میں اہم مقام رکھتے تھے جو کشمیر میں مسلح کاروائیاں جاری رکھنے کے لئے اہم تھا۔دنیا بھر سے جنوب ایشیائی لوگوں کو بھرتی کر کے افغانستان اور کشمیر لانا، مسعود اظہر کی ایک ایسی صلاحیت تھی جس کی اہمیت بالکل عیاں ہے۔ پاکستانی انٹیلی جنس کے لئے اہم تھا کہ اس شخص کو بھارتی قید سے نکالا جائے اور اس کی سر پرستی کی جائے۔
کلکتہ ریپ کیس: سرمایہ دارانہ معاشرے کا مکروہ چہرہ بے نقاب
بھارت کے شہر کلکتہ میں رونما ہونے والے گینگ ریپ کے اندوہناک واقعے نے ایک بار پھر پورے معاشرے کو ہلا کے رکھ دیا ہے اور جنسی امتیاز اور تشدد کے سوال کو سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ پاکستان اور بھارت جیسے بحران زدہ معاشروں میں ریپ اور قتل کے واقعات اخبارات کے اندرونی صفحات کی وہ یک سطری خبریں ہیں جو اب معمول کا حصہ بن چکی ہیں۔ لیکن کلکتہ میں ہونے والا یہ ریپ اور قتل اپنی نوعیت کا انتہائی وحشت اور درندگی پر مبنی واقعہ ہے۔
جموں کشمیر: بھارتی حکومت کا 10 سال بعد اسمبلی انتخابات کا اعلان، بڑی جماعتیں بائیکاٹ کیلئے تیار
بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں بھارتی حکومت نے 10سال بعد تین مرحلوں میں اسمبلی انتخابات منعقد کروانے کا اعلان کر دیا ہے۔ بھارت نواز کشمیری جماعتوں نے ریاستی درجہ بحال کئے بغیر انتخابات کے انعقاد کی صورت بائیکاٹ کاعندیہ دیا ہے۔ انتخابات کے اعلان کے بعد حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں نے جموں کشمیر کاریاست کا درجہ بحال کرنے کا مطالبہ دہرایا۔ تاہم بھارتی جماعتوں نے اس عمل کو سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد اور خوش آئند اقدام قرار دیا ہے۔
بنگلہ دیش: تحریک کا مستقبل؟
آج کرہ ارض کے کم و بیش ہر ایک ملک اور خطے کا محنت کش‘ معاشی اور سماجی حوالے سے عدم تحفظ کا شکار ہے۔ ہر طرف انتشار اور بے یقینی کی کیفیت ہے۔ اس نظام میں مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ حال محض سانسوں کو بحال رکھنے کا سامان ہے اور یہ ”عیاشی“ بھی کسی بیماری کے لاحق ہونے سے پہلے تک میسر ہوتی ہے۔ اس کے بعد تذلیل اور بے بسی کا طویل اور اذیت ناک سفر شروع ہوتا ہے جو موت کے ساتھ ہی انجام کو پہنچتا ہے۔ مشرق وسطیٰ جل رہا ہے۔ لاطینی امریکہ اور افریقہ میں عوامی بغاوتیں سر اٹھا رہی ہیں۔ امریکہ اپنے معاشی زوال کے سفر آغاز کر چکا ہے۔ یورپ میں محنت کشوں کو دستیاب سہولیات پر کٹوتیوں کا سامنا ہے۔ ہڑتالیں اور احتجاج ہیں۔
کچھ بنگلہ دیش کی حالیہ طلبہ تحریک کے بارے میں
تحریکیں چلیں گی۔ ناکام ہوں گی۔ حالات پہلے سے زیادہ برے ہو سکتے ہیں۔ لوگ سیکھیں گے۔ ناکامی کی صورت میں بھی انقلابی قوتوں کو مقداری و معیاری حوالے سے تعمیر کے مواقع مل سکتے ہیں۔ جزوی یا کلی کامیابیاں بھی ملیں گی۔ تاریخ ایسے ہی آگے بڑھے گی۔ آخری تجزئیے میں انسان ہی تاریخ بناتے ہیں۔ وہ اگر ناکامی کے خوف سے بغاوتیں نہیں کریں گے تو ناکامی سے کہیں پہلے بربریت اور ذلت میں غرق ہو جائیں گے۔ جو کوئی تاریخ کے اس عمل کو سمجھنے سے قاصر ہے یا سمجھنا ہی نہیں چاہتا اس کی مناسب جگہ تاریخ کا کوڑے دان ہی ہے۔
حسینہ واجد سیکولرازم کے نام پر جابرانہ اقدامات کر رہی تھیں
وہ اپنی آمرانہ حکومت کا جواز اپنی معاشی ترقی کو بتاتی تھیں۔ پاکستان میں بھی اکثر لبرل حضرات حسینہ واجد کی ترقی کو مثال بنا کر پیش کرتے رہے۔ لبرل لوگ بنگلہ دیش کے اندرونی حالات کا جائزہ لئے بغیر،حسینہ واجد کو خراج تحسین پیش کرتے رہے۔ خاص طور پر مذہبی جنونی قوتوں کے خلاف آمرانہ اقدامات 1971 کی جنگ کے مجرموں کو پھانسی کی سزاؤں کو مذہبی جنونیت سے چھٹکارے کا حل بتایا جاتا رہا۔ مذہبی جنونیت کا پھیلاؤ ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ اسے فوجی آپریشنوں، پھانسیوں اور آمرانہ اقدامات سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا حل سیاسی ہے اور سیاسی میدان میں مذہبی جنونیت کے نظریات کا جواب دینے سے ہی ان کو شکست دی جا سکتی ہے۔
سوشلسٹ کرنل کی قیادت میں بنگلہ دیش کا ’سپاہی انقلاب‘ جو 2 ہفتے بعد ناکام ہو گیا
’ہمارا انقلاب محض ایک قیادت کو دوسری قیادت سے تبدیل کرنا نہیں ہے۔ یہ انقلاب ایک مقصد کیلئے ہے، یعنی مظلوم طبقات کے مفاد کیلئے۔ اس کیلئے مسلح افواج کے پورے ڈھانچے کو تبدیل کرنا ہوگا۔ کئی دنوں تک ہم امیر طبقے کی فوج تھے۔ امیروں نے ہمیں استعمال کیا ہے۔ ان کے اپنے مفادات کی 15 اگست کے واقعات ایک مثال ہیں۔ تاہم اس بار ہم نے نہ تو امیروں کیلئے بغاوت کی ہے اور نہ ہی ان کی طرف سے کی ہے۔ اس بار ہم نے ملک کے عوا م کے شانہ بشانہ بغاوت کی ہے۔ آج سے قوم کی مسلح افواج اپنے آپ کو ملک کے مظلوم طبقات کے محافظ کے طور پر استوار کریں گی۔‘
بنگلہ دیش: جابرانہ نظام کو چیلنج کرتے طلبہ
بنگلہ دیش میں طلبہ کی تحریک بنگلہ دیشی سیاست اور معاشرے میں گہرے تضادات کی طرف توجہ دلانے میں کامیاب رہی ہے۔ یہاں تک کہ اگر حکومت طلبہ پر وحشیانہ جبر کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، پھر بھی اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ مستقبل میں بغاوتیں نہیں ہوں گی۔ مستقبل میں بغاوتوں میں معاشرے کے دیگر طبقات بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ ایک بار پھر بنگلہ دیش کے طلبہ ملک کو مستقبل کا راستہ دکھا رہے ہیں۔