دنیا


جموں کشمیر: بھارتی حکومت کا 10 سال بعد اسمبلی انتخابات کا اعلان، بڑی جماعتیں بائیکاٹ کیلئے تیار

بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں بھارتی حکومت نے 10سال بعد تین مرحلوں میں اسمبلی انتخابات منعقد کروانے کا اعلان کر دیا ہے۔ بھارت نواز کشمیری جماعتوں نے ریاستی درجہ بحال کئے بغیر انتخابات کے انعقاد کی صورت بائیکاٹ کاعندیہ دیا ہے۔ انتخابات کے اعلان کے بعد حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں نے جموں کشمیر کاریاست کا درجہ بحال کرنے کا مطالبہ دہرایا۔ تاہم بھارتی جماعتوں نے اس عمل کو سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد اور خوش آئند اقدام قرار دیا ہے۔

بنگلہ دیش: تحریک کا مستقبل؟

آج کرہ ارض کے کم و بیش ہر ایک ملک اور خطے کا محنت کش‘ معاشی اور سماجی حوالے سے عدم تحفظ کا شکار ہے۔ ہر طرف انتشار اور بے یقینی کی کیفیت ہے۔ اس نظام میں مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ حال محض سانسوں کو بحال رکھنے کا سامان ہے اور یہ ”عیاشی“ بھی کسی بیماری کے لاحق ہونے سے پہلے تک میسر ہوتی ہے۔ اس کے بعد تذلیل اور بے بسی کا طویل اور اذیت ناک سفر شروع ہوتا ہے جو موت کے ساتھ ہی انجام کو پہنچتا ہے۔ مشرق وسطیٰ جل رہا ہے۔ لاطینی امریکہ اور افریقہ میں عوامی بغاوتیں سر اٹھا رہی ہیں۔ امریکہ اپنے معاشی زوال کے سفر آغاز کر چکا ہے۔ یورپ میں محنت کشوں کو دستیاب سہولیات پر کٹوتیوں کا سامنا ہے۔ ہڑتالیں اور احتجاج ہیں۔

کچھ بنگلہ دیش کی حالیہ طلبہ تحریک کے بارے میں

تحریکیں چلیں گی۔ ناکام ہوں گی۔ حالات پہلے سے زیادہ برے ہو سکتے ہیں۔ لوگ سیکھیں گے۔ ناکامی کی صورت میں بھی انقلابی قوتوں کو مقداری و معیاری حوالے سے تعمیر کے مواقع مل سکتے ہیں۔ جزوی یا کلی کامیابیاں بھی ملیں گی۔ تاریخ ایسے ہی آگے بڑھے گی۔ آخری تجزئیے میں انسان ہی تاریخ بناتے ہیں۔ وہ اگر ناکامی کے خوف سے بغاوتیں نہیں کریں گے تو ناکامی سے کہیں پہلے بربریت اور ذلت میں غرق ہو جائیں گے۔ جو کوئی تاریخ کے اس عمل کو سمجھنے سے قاصر ہے یا سمجھنا ہی نہیں چاہتا اس کی مناسب جگہ تاریخ کا کوڑے دان ہی ہے۔

حسینہ واجد سیکولرازم کے نام پر جابرانہ اقدامات کر رہی تھیں

وہ اپنی آمرانہ حکومت کا جواز اپنی معاشی ترقی کو بتاتی تھیں۔ پاکستان میں بھی اکثر لبرل حضرات حسینہ واجد کی ترقی کو مثال بنا کر پیش کرتے رہے۔ لبرل لوگ بنگلہ دیش کے اندرونی حالات کا جائزہ لئے بغیر،حسینہ واجد کو خراج تحسین پیش کرتے رہے۔ خاص طور پر مذہبی جنونی قوتوں کے خلاف آمرانہ اقدامات 1971 کی جنگ کے مجرموں کو پھانسی کی سزاؤں کو مذہبی جنونیت سے چھٹکارے کا حل بتایا جاتا رہا۔ مذہبی جنونیت کا پھیلاؤ ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ اسے فوجی آپریشنوں، پھانسیوں اور آمرانہ اقدامات سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا حل سیاسی ہے اور سیاسی میدان میں مذہبی جنونیت کے نظریات کا جواب دینے سے ہی ان کو شکست دی جا سکتی ہے۔

سوشلسٹ کرنل کی قیادت میں بنگلہ دیش کا ’سپاہی انقلاب‘ جو 2 ہفتے بعد ناکام ہو گیا

’ہمارا انقلاب محض ایک قیادت کو دوسری قیادت سے تبدیل کرنا نہیں ہے۔ یہ انقلاب ایک مقصد کیلئے ہے، یعنی مظلوم طبقات کے مفاد کیلئے۔ اس کیلئے مسلح افواج کے پورے ڈھانچے کو تبدیل کرنا ہوگا۔ کئی دنوں تک ہم امیر طبقے کی فوج تھے۔ امیروں نے ہمیں استعمال کیا ہے۔ ان کے اپنے مفادات کی 15 اگست کے واقعات ایک مثال ہیں۔ تاہم اس بار ہم نے نہ تو امیروں کیلئے بغاوت کی ہے اور نہ ہی ان کی طرف سے کی ہے۔ اس بار ہم نے ملک کے عوا م کے شانہ بشانہ بغاوت کی ہے۔ آج سے قوم کی مسلح افواج اپنے آپ کو ملک کے مظلوم طبقات کے محافظ کے طور پر استوار کریں گی۔‘

بنگلہ دیش: جابرانہ نظام کو چیلنج کرتے طلبہ

بنگلہ دیش میں طلبہ کی تحریک بنگلہ دیشی سیاست اور معاشرے میں گہرے تضادات کی طرف توجہ دلانے میں کامیاب رہی ہے۔ یہاں تک کہ اگر حکومت طلبہ پر وحشیانہ جبر کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، پھر بھی اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ مستقبل میں بغاوتیں نہیں ہوں گی۔ مستقبل میں بغاوتوں میں معاشرے کے دیگر طبقات بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ ایک بار پھر بنگلہ دیش کے طلبہ ملک کو مستقبل کا راستہ دکھا رہے ہیں۔

بنگلہ دیش میں طلبہ کی احتجاجی تحریک

بنگلہ دیش میں طلبہ کی حالیہ احتجاجی تحریک نے ملک کے سیاسی اور سماجی منظر نامے پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ احتجاج سرکاری نوکریوں میں کوٹہ نظام کے خلاف جون کے اوائل میں شروع ہوئے۔ یہ کوٹہ سسٹم سرکاری ملازمتوں میں مخصوص طبقات کو مراعات فراہم کرتا ہے۔ اس مسئلے کا جائزہ لینے کے لیے تحریک کے پیچھے کارفرما بنیادی عوامل کا احاطہ ضروری ہے۔

بھارتی انتخابات میں ہندوتوا گھائل

بھارت کے حالیہ عام انتخابات میں بظاہر ’فتح‘ کے بعد نریندر مودی ایک بار پھر بھارت کا وزیرا عظم بننے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ تقریباً 65 فیصد ٹرن آﺅٹ کے ساتھ 19 اپریل سے یکم جون تک جاری رہنے والے دنیا کے سب سے بڑے عام انتخابات میں مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اپنے (400 نشستوں کے) تمام تر اہداف اور پروپیگنڈے کے برعکس پارلیمنٹ کی 543 کُل نشستوں میں سے محض 240 ہی حاصل کر سکی ہے۔ بی جے پی کے انتخابی الائنس این ڈی اے کی حاصل کردہ نشستوں کو شامل کیا جائے تو لوک سبھا میں مودی کو کُل 293 نشستیں حاصل ہو سکی ہیں جو حکومت بنانے کے لیے درکار 272 سیٹیوں کے ہدف کو پورا کرتی ہیں۔ تاہم اب مودی کو مخلوط حکومت کے ذریعے حکمرانی کرنا ہو گی۔

حکومتی تشدد کے خلاف بنگلہ دیشی طلبہ کی جاندار مزاحمت!

یہ شدید عدم مساوات اور استحصال بنگلہ دیش تک ہی محدود نہیں بلکہ دنیا بھر سرمیاداری کا پیدا کردا ہے اور خاص طور پر نیو لبرل پالیسیوں کے تحت بحران اپنی انتہا کو چھو رہا ہے۔ ڈھاکہ کی سڑکوں سے لے کر کشمیر کے پہاڑوں تک، چین کے کارخانوں سے لے کر جنوبی افریقہ کی کانوں تک دن رات محنت کرنےکے با وجود اربوں محنت کش اور مزدور اپنی زندگی برقرا نہیں رکھ پا رہے ۔ ایک کونے پر دولت کے مسلسل جمع ہوتے ہوئے ذخائر کی وجہ سےاشرفیہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے جبکہ دوسرے کونے پر عوام کو غربت اور بدحالی کی پستیوں کی سمت دھکیلا جا رہا ہے۔

برطانوی انتخابات میں لیبر پارٹی کی جیت: اِک اور دریا کا سامنا تھا مجھ کو…

توقعات کے مطابق برطانیہ کے عام انتخابات میں دائیں بازو کی کنزویٹو (ٹوری) پارٹی اپنی تاریخ کی بدترین شکست سے دوچار ہوئی ہے۔ پارلیمان میں 244 نشستوں کی کمی کیساتھ اسے صرف 121 نشستیں مل پائی ہیں۔ جبکہ مجموعی ووٹ میں اس کا حصہ تقریباً 43 فیصد سے 23 فیصد تک گر گیا ہے۔ اس کے مقابلے میں لیبر پارٹی نے 209 کے اضافے کے کیساتھ 411 نشستیں اور (معمولی اضافے کیساتھ) 33 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔ ’’سنٹرسٹ‘‘ لبرل ڈیموکریٹس 72 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے ہیں (63 کا اضافہ)۔ اگرچہ مجموعی ووٹ میں ان حصہ محض 12 فیصد رہا۔ بہرحال 174 نشستوں کی بڑی اکثریت کیساتھ لیبر پارٹی بغیر کسی اتحادی کے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی ہے اور پارٹی رہنما کیئر سٹارمر بر طانیہ کا نیا وزیر اعظم منتخب ہو چکا ہے۔ ملکی تاریخ میں وہ لیبر پارٹی، جو 2010ء کے بعد پہلی بار اقتدار میں آئی ہے، سے تعلق رکھنے والا ساتواں وزیر اعظم ہو گا۔