رائے عامہ کے یہ رجحانات ظاہر کرتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ کے بیشتر باشندے اپنے سیاسی اور اقتصادی نظام میں دیرپا تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں۔
دنیا
ٹرمپ کے کلون
ٹرمپ کے کلونوں کی سیاست کے خلاف متحدہ محاذ بنانے کی ضرورت ہے اور مزدوروں اور کسانوں کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ صرف مزدوروں اور کسانوں کی تحریک ہی لوگوں کے مخالف ہر قسم کی سازشوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کر سکتی ہے۔
جموں و کشمیر کے لوگوں کے حقوق پر بی جے پی کی حکومت کا شب خون جاری
سی پی آئی (ایم) ملک کے شہریوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ جموں وکشمیر اور لداخ کے عوام سے ان کے لئے آئینی اور جمہوری حقوق سے انکار کے خلاف اظہار یکجہتی کریں اور مودی سرکار کے جھوٹے پروپیگنڈے کو مسترد کریں۔
خدا حافظ صدر ٹرمپ؟ پیش گوئیاں یا خوش فہمیاں!
صدر ٹرمپ نے ملک کو نسلی بنیادوں پر بھی تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ افریقی امریکیوں پر پولیس کے تشدد اور ہلاکتوں پر ان کا رویہ ہمیشہ ناقبل فہم رہا۔ انہوں نے ان زیادتیوں پر ہونے والے احتجاج کو نہ صرف سختی سے دبانے کی کوشش کی بلکہ سفید فام لوگوں سے لاتعلقی سے انکار بھی کیا۔
آخری مباحثے نے امریکہ میں صدارتی انتخابات کی لاج رکھ لی!
اب جب کہ امریکہ میں انتخابی مہم اپنے آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ہے اور ووٹروں کی بڑی تعداد قبل از وقت اپنا حق رائے دہی استعمال کرچکی ہے سیاسی پنڈتوں کی رائے میں اس مباحثے سے انتخابات کے نتائج پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔
لاطینی امریکی باشندوں کی نقل مکانی خطے میں امریکی مداخلت کا نتیجہ ہے!
’ہاروسٹ آف ایمپائر‘ جیسی مشہور کتاب اور اس پر بنی دستاویزی فلم لوگوں کوتاریخی حقیقتوں اور کمزور ملکوں میں سامراجی سازشوں سے آگاہ کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
’کابل کے قصاب‘ کو اسلام آباد میں ویلکم
افغانستان میں تذویراتی گہرائی تلاش کرنے کی بجائے، تذویراتی دوستی تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
فائر برگیڈ آتش زنوں کے حوالے: روس، چین، سعودیہ یو این کی انسانی حقوق کونسل کے امیدوار
گارڈین نے نہ صرف روس، چین، سعودی عرب اور کیوبا کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے بلکہ لگے ہاتھوں وینزویلا کو بھی رگید دیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ان تمام ممالک میں انسانی حقوق کی صورت حال کم یا زیادہ پیمانے پر خراب ہے لیکن سعودی عرب اور کیوبا کو ایک ہی پیمانے پر تولنا سامراجی بیانئے کی روایتی منافقت ہے۔
عرب ملکوں میں ایشیائی محنت کش یا اکیسویں صدی کے نئے غلام؟
جس کسمپرسی کے عالم میں وہاں کام کرتے ہیں کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی مجبوریوں کے تحت بڑی کمپینیوں کے عملاً غلام ہیں۔
عرب دنیا کی خوش فہمی
بچوں کے دماغوں کو دنیا ئے علوم کے لئے تیار کیا جانا چاہیے نہ کہ صرف اپنی ذات تک محدود رہنے کے لئے۔