دنیا


مقبول بٹ کے یوم شہادت کو سبوتاژ کرنے کے لئے جماعت اسلامی نے 5 فروری کو یوم یکجہتی شروع کروایا

پاکستان اور بھارت کے کروڑوں عوام زبردست معاشی مسائل کا شکار ہیں۔ تمام وسائل ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی بنیاد پر کھڑے کئے گے دفاعی حصار بنانے اور ہتھیاروں کی تیاری خریداری کی دوڑ پر صرف ہو رہے ہیں۔ نفرت کی اس جنگ میں کبھی کشمیری استعمال ہوتے ہیں، کبھی بنگالی، کبھی سکھ، کبھی بلوچ۔

ٹرالی ٹائمز دا اکو نعرہ: لڑانگے، جتانگے

بھارتی کسانوں کی موجودہ تحریک نے جن انقلابی کاموں کی بنیاد رکھی ان میں ایک ’ٹرالی ٹائمز‘بھی ہے۔ پنجابی زبان میں نکلنے والا یہ اخبار کیا ہے، اس بارے ذیل میں پڑھئے۔ گورمکھی میں شائع ہونے والے اس اخبار کے بعض مضامین کو شاہ مکھی رسم الخط میں قارئین جدوجہد کے لئے سلسلہ وار پیش کیا جا رہا ہے۔ آج اس سلسلے کا پہلا مضمون بعنوان ’لڑانگے، جتانگے‘ پیش کیا جا رہا ہے۔ ان مضامین کو شاہ مکھی میں ورندر سنگھ، سارہ کاظمی، وقاص بٹ، علی شیر اور شمس رحمان نے ڈھالا ہے۔

امریکی جمہوریت پر ٹرمپ کا شب خون اور سرمایہ دارانہ نظام کا کھوکھلا پن!

یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ امریکہ میں ابھی صدر ٹرمپ کا سیاسی عہدہ ختم ہوا ہے، ان کی سیاسی قوت نہیں۔ ملک کے غیر منصفانہ اقتصادی اور سماجی نظام کی موجودگی میں ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی یا کسی اور ٹرمپ کی آمد کے امکانات ختم نہیں کئے جا سکتے۔

عرب بہار کے دس سال

عوامی تحریک، بالخصوص نوجوانوں کی تحریک، جہاں آج کھڑی ہے وہاں سے ترقی پسندانہ اور انقلابی خواہشات کی تکمیل ابھی بہت دور کی منزل ہے۔ دریں اثنا رجعتی عرب نظام اس انقلابی ابھار سے نپٹنے کا بندوبست کر رہا ہے۔ جابر حکمران ایک دوسرے سے اتحاد کر رہے ہیں تا کہ اس انقلابی ابھار کا مقابلہ کیا جا سکے۔ انقلابی نجات کا راستہ لمبا اور مشکل ہے مگر یہ شعور کہ اگر اس راستے پر نہ چلے تو انجام ذلت و بربادی کے سوا کچھ نہیں، لوگوں کو مجبور کر رہا ہے کہ یہ راستہ اختیار کریں۔

داخلی سامراجیت موجودہ ہندوستان کی نئی حقیقت ہے: راج موہن گاندھی

ہم سیاسی ا ور مذہبی حلقوں کی جانب سے کئے جانے والے استحصالی حربوں کی ہر محاذ پر مخالفت کے ذریعے ہی نئے سامراج کو اپنی طاقت کا احساس دلا سکتے ہیں۔ مزاحمت ایک ایسی شمع کی طرح ہے جس سے دوسری شمعیں بھی جلتی ہیں۔ ہمیں لوگوں کے دلوں اور ذہنوں میں ایک ایسی شمع روشن کرنے کی ضرورت ہے جوسماج کی اس نئی سامراجیت کو ختم کرنے میں مدد کرے۔

دفاعی بجٹ کرونا سے بھی بڑی وبا ہے

میں نے بے شمار جنگوں کی رپورٹنگ کی ہے۔ بموں کا شکار ہونے والے بچوں، بوڑھوں اور خواتین کے جلے ہوئے لاشے دکھے ہیں۔ ان کے برباد گاؤں دیکھے ہیں۔ درختوں سے اٹکے انسانی اعضا کے ہولناک مناظر دیکھے ہیں۔ کیا کچھ نہیں دیکھا۔ یہی وجہ ہے کہ جنگی جنون پھیلانے والوں سے مجھے خاص نفرت ہے۔