5 اگست ہندتوا کے سیاسی منصوبے میں ایک اہم سنگِ میل بن گیا ہے۔
دنیا
پانچ فروری سے پانچ اگست تک کا سفر
تین دن پہلے پاکستان بھر میں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور بھارت کے 5 اگست 2019ء کے اقدام کے خلاف ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ پاکستان کی جانب سے یہ قدم اس عزم کے ساتھ اٹھایاگیا کہ ہم کشمیریوں کی اخلاقی و سفارتی حمایت جاری رکھیں گے۔ عوامی سطح پر اس اقدام کو زیادہ پذیرائی نہیں ملی بلکہ اس کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے جبکہ اپوزیشن بھی حکومت کو’خاموشی اختیار‘ کرنے پر آڑے ہاتھوں لے رہی ہے۔
ہندتوا بربریت کا واحد متبادل سوشلزم ہے: ریڈیکل سوشلسٹ آف انڈیا
5 اگست کا دن انڈیا کی تاریخ میں اک ایسے دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا کہ جب شاونسٹ اور جارحانہ قوم پرستی نے اپنی انتہائی فسطائی شکل میں پہلی انڈین جمہوریہ کا گلا گھونٹ دیا۔
ترکی امیج بہتر کرنے کی کوشش میں مگر بیان حقائق کو نہیں بدل سکتے
ترکی کردوں کے خلاف جبر کو مغرب کے سامنے کیسے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ بنا کر پیش کر رہا ہے۔
بابری مسجد کی جگہ ’آیا صوفیہ‘ مندر: 5 اگست کو بھارتی اردگان افتتاح کرے گا
پادری کو شیطان کی ضرورت ہے اور شیطان کو پادری کی۔
یہاں تو سبزیاں بھی انڈیا دشمنی کا شکار ہو جاتی ہیں
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ یہ سر توڑ کوشش کی ہے کہ بھارت کو پاکستان کا ازلی دشمن بنا کر پیش کیا جائے۔
آیا صوفیہ=عدالتی بابری مسجد
عین یہ لوگ جو آیا صوفیہ میوزیم کو مسجد بنانے پر تالیاں پیٹ رہے ہیں، چند دن سے اسلام آباد میں مندر بنانے کے خلاف فیس بک اور ٹوئٹر پر انتہائی نفرت انگیز پراپیگنڈہ کرنے کے علاوہ دھمکیاں دے رہے ہیں کہ کوئی مائی کا لال اسلام آباد میں مندر بنا کر دکھائے۔ ایک مجاہد نے تو ایک نغمہ بھی ریلیز کر دیا ہے جس کے بول یہاں نقل کرنا صحافتی اسولوں کی خلاف ورزی ہو گا۔
دنیا کے امیر ترین شخص سے امریکی سوشلسٹ کا ’انقلابی بدلہ‘
دنیا میں کہیں بھی ترقی پسندوں کو کامیابی ملے، وہ دنیا بھر میں ترقی پسندی کی کامیابی ہوتی ہے۔
اسلام آباد کا مندر ہو یا بابری مسجد: مذہبی فتنے کھڑے کر کے سیاست میں جگہ بنائی جاتی ہے
مذہبی جنونیت اور بنیادپرستی، اس کی سیاسی و سماجی بنیادوں اور ریاست کے ساتھ اس کے تعلقات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ان قوتوں کو ریاست کی محض پراکسی کہہ کر رد کر دینا انتہائی خطر ناک ہوگا۔ دوم، اصولوں پر سمجھوتے بازی کی بجائے (جیسا کہ پی پی پی یا اے این پی مسلسل کرتے آ رہے ہیں) سیکولر ازم کے اصولی موقف پر قائم رہتے ہوئے، ان مذہبی ڈھونگیوں کو بے نقاب کرتے ہوئے، سیاست کا محور طبقے اور انسانی حقوق کوبنانے کی جدوجہد جاری رہنی چاہئے۔
احمقوں کی سامراج مخالفت
مذہبی جنونیوں نے مسلمان ملکوں میں مردوں اور عورتوں کو مذہب کے نام پر گونگا، بہرا اور لولا لنگڑا بنا کر مسلم دنیا کو سامراجی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لئے جنت بنا دیا ہے۔ مذہبی جنونی سعودی عرب کے ہوں یا ایران کے، دونوں نے سامراج کے گماشتے کا کردار ادا کیا ہے۔ اس لئے اگر کبھی بظاہر یہ’سامراج مخالفت‘ کرتے نظر بھی آتے ہیں تو ان کی سامراج دشمنی در حقیقت احمقوں کی سامراج مخالفت ہے۔