مارکسی تعلیم


شہرت چاہئے نہ اتھارٹی: مارکس کا ایک خط

میں (بہ الفاظِ ہینے) ’ناراض نہیں‘،نہ ہی اینگلز غصے میں ہے۔ ہم دونوں شہرت بارے رتی برابر پروا نہیں کرتے۔اس کا مثلاََایک ثبوت یہ ہے کہ شخصیت پرستی سے بیزاری کی وجہ سے میں نے کبھی اجازت نہیں دی کہ انٹرنیشنل سے وابستگی کے دوران، مختلف ملکوں سے مجھے موصول ہونے والے تعریفی خطوں کی کبھی بھی تشہیر نہیں کی،نہ کبھی ایسے خطوں کا جواب دیا۔ ہاں اگر کبھی ایسا کیا بھی تو اس کا مقصد سرزنش کرنا تھا۔

ہمارے نظریئے کو مارکسزم کیوں کہتے ہیں؟

اس موقع پر مجھے ایک ذاتی وضاحت کا موقع دیجئے۔ حالیہ کچھ عرصے میں [مارکسی] نظرئے میں میری خدمات کا بار بار حوالہ دیا گیا ہے۔ اس لئے ضروری ہے اس نقطے کی وضاحت کر دی جائے۔

میں اس بات سے انکار نہیں کرتا کہ مارکس کے ساتھ چالیس سالہ رفاقت کے دوران بھی اور اس سے قبل بھی، میں نے اس نظرئے کی بنیاد رکھنے میں،بالخصوص اس کی تفصیلات کے حوالے سے،اپنے طور پر کچھ حصہ ڈالا۔

لیکن اس کے بنیادی اصول طے کرنے میں،بالخصوص معیشیت اور تاریخ کے زمرے میں،سب سے اہم یہ بات کہ اس نظرئے کے اساسی کلئے متعین کرنے میں مارکس کا بنیادی کردار تھا۔

مارکسزم اور مذہب

مارکسزم اور مذہب پر بنیادی بحث تین حوالوں سے کی جا سکتی ہے۔ اؤل، مارکسزم نے مذہب پر کیا تھیوری دی یا یہ کہ مذہب کو کیسے تھیورائز کیا گیا۔ دوم، بطور مارکسی پارٹی مختلف خطوں اور وقتوں میں مارکسی تنظیموں کا مذہب کی جانب کیا رویہ رہا۔ اسی پہلو کا تیسراحصہ یہ ہے کہ بعض ممالک جہاں مارکس وادی کہلانے والی پارٹیاں اقتدار میں آ گئیں، وہاں ان تنظیموں نے کیا طریقہ کار اپنایا (بہ الفاظ دیگر ’حزب اختلاف‘ اور بطور حزب اقتدار مارکسی تنظیموں کا رویہ مذہب کی بابت کیسا رہا)۔

مارکسزم اور مذہب (آخری حصہ)

اس مضمون کے آخری حصے میں اس بات پر بحث کریں گے کہ پاکستان میں بائیں بازو کا موقف کیا ہونا چاہئے؟
۱۔ اس سوال کا جواب عملی طور پر بایاں بازو دے چکا ہے: مذہب فرد کا نجی معاملہ ہے، نہ مذہب کا سیاسی استعمال کرو، نہ مذہب پر تنقید کرو۔
بائیں بازو کے مخالفین اکثر یہ ’تجزیہ‘ پیش کرتے ہیں کہ پاکستان میں بائیں بازو کی ’ناکامی‘ کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ مذہب دشمن تھے۔ اس سے زیادہ شرمناک تجزیہ ممکن نہیں۔ اؤل تو یہ کہ بائیں بازو کو ناکام قرار دینے والے بھول جاتے ہیں کہ جب ملک میں پہلی بار عام انتخابات ہوئے تو رائے دہندگان نے ایسی جماعتوں (عوامی لیگ، پی پی پی، اے این پی) کو ووٹ دیا جو خود کو سوشلسٹ بنا کر پیش کر رہی تھیں (وہ سوشلسٹ تھیں یا نہیں، علیحدہ بحث ہے)۔ حالت یہ تھی کہ مسلم لیگ (دولتانہ) نے بھی اپنے انتخابی منشور میں سوشلزم کا وعدہ کر رکھا تھا۔ جب تک طلبہ یونین کے انتخابات ہوتے رہے، کراچی سے پشاور اور کوئٹہ سے راولپنڈی تک، سوشلسٹ طلبہ تنظیمیں ہر سال انتخابات جیتتی رہیں۔ ٹریڈ یونین یا وکیلوں صحافیوں اور ڈاکٹروں کی ملگ گیر تنظیموں یا ایسی دیگر پروفیشنل تنظیموں کے انتخابات اور ریفرنڈم بھی بایاں بازو بھاری اکثریت سے مسلسل بنیادوں پر جیت رہا تھا۔

مارکسزم اور مذہب (تیسری قسط)

’جہاں تک مذہب کا تعلق ہے روسی کیمونسٹ پارٹی کا تو پارٹی اس (سرکاری) حکم نامے سے مطمئن ہو کر نہیں بیٹھ جائے گی کہ مذہب کو ریاست اور مذہب کو تعلیم سے علیحدہ کر دیا گیا ہے…پارٹی مذہب کی تبلیغ اور استحصالی طبقوں کے درمیان تعلق کا مکمل خاتمہ چاہتی ہے اور پارٹی عوام کو مذہبی تعصبات سے مکمل نجات دلانا چاہتی ہے۔ اس مقصد کے لئے پارٹی بڑے پیمانے پر سائنسی، تعلیمی اور رد مذہب پراپیگنڈے کا اہتمام کرے گی‘۔

مارکسزم اور مذہب (دوسری قسط)

پلیخانوف کا کہنا تھا کہ ہماری پارٹی کے دروازے ایسے شخص پر بند نہیں ہونا چاہئیں جو مذہبی سوچ رکھتا ہو مگر ہمیں اُس سوچ کا خاتمہ کرنا ہو گا اور اُسے اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ پارٹی کے پلیٹ فارم سے مزدوروں میں اپنے تعصبات پھیلائے۔

مارکسزم اور مذہب (پہلی قسط)

مارکسزم اور مذہب پر بنیادی بحث تین حوالوں سے کی جا سکتی ہے۔ اؤل، مارکسزم نے مذہب پر کیا تھیوری دی یا یہ کہ مذہب کو کیسے تھیورائز کیا گیا۔ دوم، بطور مارکسی پارٹی مختلف خطوں اور وقتوں میں مارکسی تنظیموں کا مذہب کی جانب کیا رویہ رہا۔ اسی پہلو کا تیسراحصہ یہ ہے کہ بعض ممالک جہاں مارکس وادی کہلانے والی پارٹیاں اقتدار میں آ گئیں، وہاں ان تنظیموں نے کیا طریقہ کار اپنایا(بہ الفاظ دیگر ’حزب اختلاف‘ اور بطور حزب اقتدار مارکسی تنظیموں کا رویہ مذہب کی بابت کیسا رہا)۔

اسٹیبان وولکوف اور لیون ٹراٹسکی کی جدوجہد جاری رکھیں گے: فورتھ انٹرنیشنل

ہم ڈان اسٹیبان کو الوداع کرتے ہوئے نہ صرف میکسیکو میں لیون ٹراٹسکی ہاؤس میوزیم کے کام کے تسلسل کی حمایت کرنے کا عہد کرتے ہیں، بلکہ ان کی زندگی بھر کے مشن کو آگے بڑھائیں گے۔ ہم اپنے انقلابی استاد کی سیاسی میراث کو محفوظ بنانے اور اسے فروغ دینے کا بھی عہد بھی کرتے ہیں۔

زندگی، ریاست اور راستے

ایک طبقاتی سماج میں محنت کش طبقے، عام لوگوں اور نچلی سطح کے کارندوں کی زندگی کے تحفظ پر نظری اور عملی تضادات ہوتے ہیں۔ کتابی قوانین، دستوری قوائد اور زمینی حقائق الگ الگ نظر آتے ہیں، جن کی تشریح و تفہیم روزمرہ زندگی کے مظاہر کرتے ہیں۔

انسان کا مستقبل

فطرت اور ریاست کے درمیان معیشت حائل ہوتی ہے۔ تکنیکی سائنس نے انسان کو آگ، پانی، مٹی، ہوا جیسے قدیم عناصر کے جبر سے تو نجات دلائی ہے لیکن اسے خود انسان کے جبر کے تابع کر دیا ہے۔ انسان فطرت کا غلام تو نہیں رہا لیکن مشین کا غلام بن گیا۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کے طلب اور رسد (منڈی) کا غلام ہو گیا۔ موجودہ عالمی بحران المناک انداز میں واضح کرتا ہے کہ انسان، جو سمندر کی تہوں میں غوطہ زن ہے، جو فضا کی بالا ترین پرتوں میں اڑ رہا ہے، جو غیرمرعی شعاعوں کے ذریعے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں بات کر رہا ہے…فطرت پہ بڑے تکبر اور بے باکی سے حکمرانی کرنے والا یہی انسان ابھی تک اپنی ہی معیشت کی اندھی قوتوں کا غلام ہے۔ ہمارے عہد کا تاریخی فریضہ یہی ہے کہ منڈی کے بے قابو کھیل کو معقول منصوبہ بندی کے ساتھ تبدیل کیا جائے۔