فاروق سلہریا
(معزز قارئین! گذشتہ ہفتے ’روزنامہ جدوجہد‘ میں مندرجہ ذیل مضمون کو 4 حصوں میں پیش کیا گیا۔ ذیل میں اس مضمون کا مکمل متن پیش کیا جا رہا ہے)
مارکسزم اور مذہب پر بنیادی بحث تین حوالوں سے کی جا سکتی ہے۔ اؤل، مارکسزم نے مذہب پر کیا تھیوری دی یا یہ کہ مذہب کو کیسے تھیورائز کیا گیا۔ دوم، بطور مارکسی پارٹی مختلف خطوں اور وقتوں میں مارکسی تنظیموں کا مذہب کی جانب کیا رویہ رہا۔ اسی پہلو کا تیسراحصہ یہ ہے کہ بعض ممالک جہاں مارکس وادی کہلانے والی پارٹیاں اقتدار میں آ گئیں، وہاں ان تنظیموں نے کیا طریقہ کار اپنایا (بہ الفاظ دیگر ’حزب اختلاف‘ اور بطور حزب اقتدار مارکسی تنظیموں کا رویہ مذہب کی بابت کیسا رہا)۔
مارکسزم اور مذہب کے سیاق و سباق میں مارکسی تھیوری کے حوالے سے کوئی بھی بحث عام طور پر مارکس اور اینگلز سے شروع کی جاتی ہے۔ مذہب بارے ان کی تحریروں کو مدون کر کے شائع بھی کیا جا چکا ہے۔ دلچسپی رکھنے والے قارئین اور بائیں بازو کے کارکن ان تحاریر کو براۂ راست پڑھ سکتے ہیں۔
مارکس اور مذہب
مذہب کو تھیورائز یعنی سائنسی انداز میں مذہب بارے تھیوری تشکیل دینے کا عمل انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں ہوا۔ مذہب کا تقابل یا اپنے ہی مذہب بارے تحقیق کرنا تو ایک پرانا عمل تھا، لیکن مذہب کی تعریف کیا ہے؟ انسانی تہذیب میں اس کا آغاز کیسے ہوا؟ مذہب ایک دوسرے سے مختلف کیوں ہیں؟ مذہب معاشرے میں کیا کردار ادا کرتے (چلے آئے) ہیں؟ کتنے ہی سوال ہیں جو تھیوری کے حوالے سے سر اٹھانے لگتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مذہب کیا ہے؟ سکالرز سو سالہ کوشش کے باوجود کوئی متفق تعریف مقرر نہیں کر سکے۔ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ جو سماجی مظہر (Social Phenamena) بالکل عام فہم اور روزمرہ زندگی کا حصہ ہوں، ان کی تعریف متعین کرنا بہت دشوار ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر میڈیا اور سوشل میڈیا کا لفظ ہم لگ بھگ روز کرتے ہیں، مگر میڈیا یا سوشل میڈیا کی تعریف مقرر کرنی پڑے تو بڑے بڑے میڈیا سکالر سر کھجانے لگتے ہیں۔ یہی حال مذہب کا ہے۔ ہم یہ تو با آسانی بتا سکتے ہیں کہ فلاں عیسائی، یہودی، ہندو، مسلمان یا پارسی ہے، مگر فلاں شخص یا گروہ مذہبی ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ مشکل ہو جاتا ہے۔ فرض کریں ایک شخص اپنے مذہب کے احکامات پر عمل نہیں کرتا، مگر بنیادی عقائد پر یقین رکھتا ہے۔ کیا ایسا شخص متعلقہ مذہب کا پیروکار کہلا سکتا ہے؟ یا ایک فرقہ جسے مین سٹریم مذہب اپنا حصہ نہیں مانتے (جیسا کہ پاکستان میں احمدی یا ایران میں بہائی)…کیا ایسے فرقے کو مذہب مانا جا سکتا ہے؟ عام طور پر بدھ مت کو مذہب مانا جاتا ہے لیکن اگر کسی ماورائی قوت پر یقین رکھنے کا نام مذہب ہے تو بد ھ مت کو مذہب نہیں مانا جا سکتا۔ اس بحث میں جبر بھی ایک اہم عنصر ہے۔ موت کے خوف سے بعض لوگ اپنے مذہب پر سر عام عمل نہیں کر سکتے۔ وہ سوچ اور عقیدہ کوئی اور رکھتے ہیں مگر جبر کے خوف سے، گردن بچانے کے لئے، نافذ کردہ مذہب کو اپنی شناخت بتاتے ہیں۔ تاریخ میں اس کی ایک مثال سپین میں ملتی ہے کہ وہاں سے عربوں اور یہودیوں کے اخراج کے بعد، جو مسلمان اور یہودی لوگ بچ رہے وہ خود کو عیسائی ظاہر کرتے تھے۔ پاکستان جیسے ملکوں میں عصر حاضر میں بہت سے ملحد لوگ اپنی شناخت چھپاتے ہیں۔ کیا ایسے لوگوں کو مذہبی کہا جا سکتا ہے جو جبر کے زور پر مذہبی ہیں؟ بعض لوگ خود کو تشکیکی کہتے ہیں، یعنی ان کو یقین نہیں ہوتا کہ وہ مذہبی ہیں یا نہیں۔ ان لوگوں کو کس خانے میں رکھا جائے؟ اسی طرح مذہب اور کلٹ (Cult) میں فرق موجود ہے۔ 80ء کی دہائی سے مڈل کلاس لوگوں میں ’Spiritualism‘ کا بہت فیشن ہے۔ خاص کر سلیبریٹی حضرات بتاتے پھرتے ہیں کہ وہ مذہبی نہیں، سپرچوئل ہیں۔ کیا سپرچوئل ازم اور مذہب ایک ہی چیز ہیں؟ قصہ مختصر، مذہب کی تعریف مقرر کرنا آسان کام نہیں۔ بعض سکالرز نے تو یہاں تک تجویز دی ہے کہ مذہب کی تعریف مقرر کرنے سے پرہیز ہی برتا جائے تو بہتر ہے۔
بہرحال، راقم کے خیال میں، ایک جامع تعریف تو نہیں مگر ایک ورکنگ تعریف یہ ہو سکتی ہے (جو کم از کم موجودہ مضمون کے حد تک مقصد پورا کر سکتی ہے): ”مذہب سے مراد ہے کسی انسٹیٹیوشنل عقیدے میں ایمان رکھنے والی کمیونٹی۔ عقیدے کا بنیادی جزو مافوق الفطرت قوت پر یقین رکھنا، جبکہ کمیونٹی کی تشکیل میں مذہبی رسومات کا بنیادی کردار ہونا“ (اگر کوئی ایک شخص کسی ایک عقیدے پر عمل پیرا ہو تو وہ مذہب نہیں ہو گا، کمیونٹی اہم جزو ہے)۔
جہاں تک مذہب کے سائنسی مطالعے کا تعلق ہے تو عام طور پر مذہب پر دو حوالے سے تھیوری تشکیل دی گئی ہے۔ ایک یہ کہ مذہب کیا ہے، اس کے اندر کیاہے؟(اسے ’Substantive‘ اپروچ کہا جاتا ہے)۔ دوم، جسے انگریزی میں فنکشنل اپروچ کہا جاتا ہے، یعنی یہ کہ مذہب کا ایک معاشرے میں (عمرانی، سیاسی، نفسیاتی، طبقاتی، معاشی) کردار کیا ہے؟ مارکس اور زیادہ تر کلاسیکل مارکسی علامہ حضرات نے مذہب کے بارے میں فنکشنل اپروچ ہی اپنائی (بر سبیل تذکرہ: ہمارے دوست، معروف صحافی شامل شمس نے جون ایلیا کے حوالے سے ایک بار یہ تربیت کی تھی کہ حضرات میں مرد و خواتین دونوں شامل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم مقدس خواتین کے نام کے ساتھ حضرت لگاتے ہیں…سو خواتین و حضرات کہنے کی ضرورت نہیں)۔
جب مارکس اور مذہب کی بات آتی ہے، تو دنیا بھر میں اس کا مشہور قول ’مذہب ایک افیون ہے‘ ذہن میں آتا ہے یا دہرایا جاتا ہے۔ مارکسزم کو مذہب دشمن قرار دینے کے لئے پاکستان میں جماعت اسلامی نے اس جملے کو بالخصوص مقبول عام بنایا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مارکس مذہب کو افیون قرار دینے والا اوریجنل شخص نہ تھا۔ کانٹ اور ہینرخ ہائن یہ اصطلاح مارکس سے کہیں پہلے استعمال کر چکے تھے۔ گویا یورپ میں یہ اصطلاح اس وقت عام استعمال کی جا رہی تھی۔ دوم، ان دنوں افیون عام استعمال کی چیز تھی (مارکس داڑھ کے درد سے بچنے کئے خود افیون استعمال کرتا تھا)۔ سوم، اور سب سے اہم بات، مارکس کا مندرجہ بالا قول سیاق و سباق سے ہٹ کر، کسی سوچ کو توڑ مروڑ کر بیان کرنے والی شدید ترین علمی بد دیانتی کی سب سے شرمناک عالمی مثال ہے۔ جماعت اسلامی اس عالمی عمل کی پاکستانی کڑی تھی۔ آئیے دیکھئے مارکس نے کیا کہا تھا (راقم کے خیال میں مارکس کی یہ تحریر ادبی لحاظ سے بھی ایک شہ پارہ ہے: مارکس ایٹ ہز لٹریری بیسٹ):
”مذہبی دکھ (تکلیف) درحقیقت بیک وقت حقیقی دکھوں کا ایک اظہار ہوتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان حقیقی تکالیف کے خلاف ایک احتجاج ہوتا ہے۔ مذہب محکوم کی آہ، رحم سے عاری دنیا میں اسی طرح ایک نجات کی شکل ہوتا ہے، جسے بے روح حالات کی روح قرار دیا جا سکتا ہے۔ مذہب لوگوں کی افیون ہے۔ مذہب کے ذریعے حاصل ہونے والی خوشی کو اس طرح لیا جائے کہ یہ حقیقی خوشی کا تقاضا ہے۔یہ مطالبہ کہ موجودہ حالات میں توہم (Illusion) کو ترک کر دیا جائے، در حقیقت اس بات کا مطالبہ ہے کہ ایسے حالات ہی بدل دئیے جائیں جن میں زندہ رہنے کے لئے توہمات کی ضرورت ہوتی ہے۔ گویا مذہب پر تنقید درحقیقت آنسووں کی اُس وادی پر تنقید ہے جس کا ھالہ مذہب ہے۔“
(راقم کو یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ مندرجہ بالا ترجمہ بہت اچھا نہیں۔ مستقبل میں امید ہے اسے کوئی ساتھی زیادہ بہتر بنا دے گا)۔
مارکس نے مذہب کی کوئی باقاعدہ تھیوری پیش نہیں کی۔ مذہب بارے مارکس کی نصف درجن کے قریب تحریریں ہیں، جو مارکس نے عہد جوانی میں لکھیں (1844-49ء)۔ گو بعد ازاں، وہ مذہبی تلمیحات کو اپنے تجزئے اور تحریروں میں استعمال کرتا رہا۔ مثال کے طور پر ایک جگہ اس نے قدر زائد اور مذہب کا موازنہ بیگانگی کے حوالے سے کیا ہے۔ بیگانگی سے مراد ہے، کوئی ایسی چیز جسے انسان نے خود بنایا ہے مگر پھر اس کے خوف میں مبتلا ہو جائے اور (یا) اُس کی پوجا کرنے لگے۔ مارکس کا کہنا تھا کہ کوئی شخص جس قدر دعائیں مانگتا ہے اسی قدر اس کی بیگانگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طرح مزدور جس قدر زائد پیدا کرتا ہے، اسی قدر سرمایہ داری کی طاقت بڑھتی جاتی ہے (اور مزدور کو لگنے لگتا ہے کہ سرمائے کو شکست نہیں دی جا سکتی اور نظام سرمایہ ہی درست ہے)۔
مارکس نے اس بات پر زیادہ سر نہیں کھپایا کہ مذہب ابتدائی دور میں کیسے شروع ہوا۔ مذہب کی تھیوری کو سب سے پہلے ایڈورڈ بی ٹائلر نے پیش کیا۔ معلوم نہیں مارکس نے اسے پڑھا یا نہیں، مگر اینگلز نے ضرور پڑھا تھا۔ بعد ازاں، درخائم سے لے کر فرائڈ تک، بہت سے اہم نظریہ دانوں نے اس سوال پر بحث کی کہ مذہب کی ابتدا کیسے ہوئی۔ مارکس نے بھی، مختصراً، اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی جو ہر گز قائل کر دینے والا نہیں ہے (یہ بحث با آسانی گوگل کی جا سکتی ہے)۔ اپنے عہد جوانی میں ایک بار اس نے جب مذہب کے فنکشنل کردار پر اپنی سوچ تشکیل دے لی تو پھر ’Substantive‘ بحث میں نہیں الجھا۔ اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ مارکس نے عہد جوانی میں دئیے گئے اپنے نقطہ نظر کو بعد میں ریوائز (Revise) کیا ہے۔
مارکس کی مذہب بارے تحریریں تین حیثیتوں میں لکھی گئیں۔ اؤل، روشن فکری کی تحریک کے نتیجے میں لگ بھگ ہر اہم فلسفی مذہب کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ درحقیقت روشن فکری کی تحریک نے مذہب کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کے مابین ایک زبردست بحث کو جنم دے دیا تھا۔ مارکس بھی اس کا حصہ بنا۔ دوم، کارل مارکس ہیگل (جسے مارکس ایک مولوی سمجھتا تھا، لینن بھی ہیگل کے مذہبی پن سے چڑتا تھا) کے ساتھ بحث میں الجھا تھا۔ گو وہ ہیگل کے جدلیاتی طریقہ کار سے متاثر تھا لیکن وہ ہیگل کے طریقہ کار کو ٹرانسفارم کر کے مارکسی طریقہ کار کی تشکیل دینے میں مصروف تھا۔ تیسرا محنت کش طبقے کے معلم کے طور پر وہ مذہب بارے، تنظیمی نقطہ نگاہ سے مارکسی نقطہ نظر اور طریقہ کارتشکیل دینے میں مصروف تھا۔
پہلی دو حیثیتوں میں مارکس نے مذہب کے کردارکو دانشوارانہ انداز میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی۔ دانش وارانہ اور مارکس وادی فلسفی طریقہ کار کے مطابق مارکس نے مذہب کو بالائی ڈھانچے کا حصہ (سوپر سٹرکچر) قرار دیا۔ مارکس کا کہنا ہے ”مذہب کے خلاف جدوجہد…ان دنیاوی حالات کے خلاف جدوجہد ہے جن کا روحانی اظہار مذہب ہے“۔ گویا ”آسمانوں پر تنقید در اصل زمینی حالات پر تنقید بن جاتی ہے، مذہب پر تنقید قانون پر تنقید بن جاتی ہے،اور تھیالوجی پر تنقید سیاست پر تنقید بن جاتی ہے۔“
یاد رہے مارکس کے کچھ ہم عصر انقلابی مذہب پر پابندی لگانے کے حق میں تھے۔ مارکس اس کے شدید خلاف تھا (گو خود وہ ایک ملحد تھا)۔ مندرجہ بالا بیانات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ مارکس مذہب کے کردار کو سمجھتا ہے: یہ آنسووں کی وادی پر قائم ایک روحانی ھالہ ہے مگر وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ یہ بے روح سماج کی روح ہے…یعنی مذہب سماج میں ایک نفسیاتی و سماجی اور طبقاتی کردار ادا کرتا ہے…ایک خیالی خوشی یا ریلیف فراہم کرتا ہے جو در اصل حقیقی خوشی کے انسانی اظہار کی غمازی ہے (مارکس پر یہ تہمت لگائی جا سکتی ہے اور لگائی جاتی ہے کہ مارکس مذہب کے سیاسی کردار،جسے بنیاد پرستی کہا جاتا ہے، بارے لا علم تھا۔ ایسا تھا یا نہیں، یہ ایک الگ بحث ہے)۔
اس دانشوارانہ انڈر سٹینڈنگ کے بعد، تیسری حیثیت میں مارکس نے مذہب کی جانب مارکسی تنظیموں کے سیاسی طریقہ کار کی وضاحت کی۔ اس سلسلے میں جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے گوتھا پروگرام پر اس کی تنقید انتہائی اہم ہے۔ عہد حاضر میں ڈاکنز جیسے لبرل ملحد حضرات جب مذہب پر حملے کرتے ہیں اور سیکولرزم کی بات کرتے ہیں تو ان کا جواب دینے کے لئے مارکس کی گوتھا پروگرام پر تنقید اہم ہے۔ مارکس لبرل طرز کے سیکولرزم کا حامی نہیں (گوتھا پروگرام لبرل طرز کے سیکولرزم کی بات کرتا ہے)۔ مارکس ان دنیاوی حالات کو بدل دینا چاہتا ہے جس میں انسان کو مذہب کی بطور ایک توہم ضرورت رہتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ، اندریں حالات وہ مذہب پر پابندی کے بھی خلاف ہے۔
یہ تھا وہ نظریاتی مارکسی فریم ورک جس نے مارکس کے بعد آنے والے اہم ترین مارکسی اساتذہ کے تنظیمی و نظریاتی طریقہ کار کا تعین کیا۔ ان میں لینن اہم ترین تھا۔ بعد ازاں، سٹالنزم اور ماؤ ازم نے اس طریقہ کار کا مذاق بنا کر رکھ دیا۔
مارکس وادی تنظیم اور مذہب
مضمون کے مندرجہ بالا حصے میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی کہ مارکس نے مذہب کو کس طرح تھیورائز کیا۔ بلانکی اور ڈوہرنگ جیسے معروف لوگ مذہب پر پابندی کی بات کر رہے تھے لیکن مارکس کے خیال میں مذہب پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ مارکس چاہتا ہے کہ آنسوں کی اس وادی کا خاتمہ کر دیا جائے جس کا ھالہ مذہب ہے۔
اس سوچ کو مارکسی تنظیمیں کس طرح عملی جامہ پہنائیں ؟ اس حوالے سے مارکس کی اہم ترین تحریر جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کا گوتھا پروگرام (جسے 1875ء میں پیش کیا گیا) پر مارکس کی تنقید تھی۔ یہ بات انتہائی اہم ہے کہ جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (مارکس وادی ان دنوں خود کو سوشل ڈیموکریٹ کہلاتے تھے) مزدوروں کی سب سے کامیاب جماعت بن کر ابھر رہی تھی۔ اگلے تقریباً 40 سال تک یہ سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔ پہلی عالمی جنگ سے پہلے تک، روسی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (جو 1905ء میں بالشویک اور مینشویک دھڑوں میں بٹ گئی) کے رہنما بھی یورپ کی باقی جماعتوں کی طرح جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف رشک سے دیکھتے تھے۔
گوتھا پروگرام میں لبرل سیکولرزم کی طرز پر ہر شخص کو مذہب پر عمل کرنے کی آزادی کا وعدہ کیا گیا۔ مارکس کا خیال تھا یہ ایک بورژوا نظریہ ہے۔ مارکس کا کہنا تھا کہ ایک مزدور جماعت کے لئے یہ کہنا کافی نہیں کہ ہر فرد کو مذہب پر عمل درآمدکی اجازت ہو گی اور پولیس کو یہ اجازت نہ ہو گی کہ لوگوں کی نگرانی کرتی پھرے (جیسا کہ پاکستان میں اب بھی ہے)۔ مارکس کا کہنا تھا گوتھا پروگرام بورژوا طرز کی مذہبی ضمیر کی آزادی کی بات کرتاہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ضمیر کو مذہب کی ساحری سے نجات دلائی جائے۔ بہ الفاظ دیگر بورژوا طرز کا سیکولرزم درحقیقت سٹیس کو(Status Quo) کی بات کرتا ہے، اسے آنسوؤں کی وادی سے کوئی مسئلہ نہیں۔ اس کے برعکس مارکس آنسووں کی وادی کا خاتمہ ہی نہیں چاہتا، وہ انسان کی آنکھ میں آنسو ہی نہیں دیکھنا چاہتا۔ 1891ء میں گوتھا پروگرام کی جگہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے گوتھا پروگرام کی جگہ ارفیرٹ پروگرام (Erfurt Programme) کی منظوری دی۔ اس پروگرام میں مذہب کو نجی معاملہ قرار دیا گیا۔ مارکس کی نسبت اینگلز نے مذہب کے موضوع پر زیادہ لکھا، مگر اینگلز کا موقف مارکس کے فریم ورک سے متصادم نہ تھا (اینگلز کے ہاں ہلکا سا تضاد بھی موجود تھا، جس پر بحث کسی اور وقت کے لئے ملتوی کرنا بہتر ہے)۔
جرمن سوشل ڈیموکریسی کے دو اہم ترین رہنما آگست بیبل اور ولہیلم لیبکنیخت تھے۔ بیبل اور لیبکنیخت دونوں پکے ملحد تھے۔ بیبل کا تو کہنا تھا کہ سوشلزم اور مذہب آگ اور پانی کے طرح ہیں۔ اس کا خیال تھا انجیل نے جتنے لوگوں کو پاگل خانے میں بھیجا ہے کسی اور کتاب کی وجہ سے اتنے لوگ پاگل خانے نہ پہنچے ہوں گے۔ بیبل کے خیال میں مسیحت سے جو اچھی باتیں منسوب کی جاتی ہیں وہ مذہب کی ماہیت نہیں بلکہ انسانی تہذیب کی مشترکہ میراث ہیں۔ اس تنقید کے باوجود دونوں رہنماوں نے مذہب بارے ارفیرٹ پروگرام سے اتفاق کیا اور یہ پروگرام لگ بھگ آئندہ کے لئے ترقی پسندمزدور تحریک اور مارکس وادی تنظیموں کے لئے مشعل راہ بن گیا۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کاایک اور اہم ترین رہنما، جس نے مذہب پر تحقیق کی اور تفصیلی تحریریں بھی شائع کیں، وہ تھا کارل کاتسکی۔ کاتسکی سے پہلی عالمی جنگ کے دوران لینن، ٹراٹسکی اور روزا لکسمبرگ کا جنگ کی حمایت کے سوال پر شدید اختلاف ہو گیا۔ مارکس وادی تاریخ میں اب کاتسکی کو ایک منحرف شخص کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ کاتسکی مذہب کا شدید مخالف تھا۔ وہ کسی حد تک مذہب پر پابندی کا بھی حامی تھا لیکن بطور پارٹی رہنما کاتسکی نے پارٹی پروگرام کی حمایت کی۔
کلاسیکل مارکسی نظریہ دانوں میں آسٹرو مارکسسٹ رہنما بھی انتہائی اہم سمجھے جاتے ہیں۔ ان کا رویہ مذہب کی جانب کم معاندانہ تھا۔ مختصراً اس جانب اشارہ ضروری ہے کہ بعض آسٹرو مارکسسٹ کانٹ سے متاثر تھے اور انہوں نے مارکسزم میں کانٹیئن طریقہ کار کی آمیزش کی کوشش کی۔ ماکس آڈلر کا رویہ مذہب کی جانب یہ تھا کہ مارکسزم اور مذہب میں کوئی تضاد ہی نہیں۔ یاد رہے اینگلز، روزا لکسمبرگ اور اس عہد کے بعض دیگر یورپی مفکرین کا کہنا تھا کہ ابتدائی دور کی مسیحت ایک طرح کا سوشلزم تھا۔ آسٹرو مارکسسٹ سکول میں، راقم کی نظر میں، سب سے متوازن رویہ اوٹو باور (Otto Bauer) کا تھا۔ اس کے خیال میں مذہب کے ذریعے حکمران طبقہ جبر کرتا ہے اور کنٹرول کرتا ہے۔ اس کے باوجود، بالشویک پارٹی کے برعکس، وہ اس بات کا حامی نہیں تھا کہ مذہبی خیالات رکھنے والے افراد کی پارٹی رکنیت پر پابندی لگا دی جائے۔ باور کا کہنا تھا کہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹیاں شراب نوشی کے خلاف ہیں (اس دور میں یورپی مزدور طبقہ اس لت میں بری طرح پڑا ہوا تھا، جس سے بے شمار سیاسی و سماجی مسائل جنم لیتے تھے) مگر اس کے باوجود کسی شرابی کی پارٹی رکنیت حاصل کرنے پر پابندی نہیں۔ باور کا کہنا تھا کہ مذہبی پیشوا ہر سیکولرمسئلے کو مذہب کا رنگ دیتے ہیں جبکہ سوشل ڈیموکریٹس کی ذمہ داری ہونی چاہئے کہ مذہبی بنا دئیے گئے ہر مسئلے کو سیکولرائز کریں۔
آسٹرو مارکسسٹ سکول کے برعکس روس کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کا رویہ بہت معاندانہ تھا۔
’مارکسزم اینڈ ریلی جن‘ (Marxism and Religion) کے مصنف ڈیوڈ میکلینن کا خیال ہے کہ روسی سوشل ڈیموکریسی کی شدید مذہب بیزاری کی وجہ یہ ہے کہ روس بہت زیادہ مذہبی ریاست تھا، جس قدر مذہب کی جڑیں گہری تھیں،اسی قدر معاندانہ رویہ روسی انقلابیوں کا تھا…اورپھر یہ بھی اہم ترین بات تھی کہ زار شاہی اپنا جواز مذہب کی مدد سے پیش کرتی تھی۔ زار ِروس در اصل ظلِ الٰہی تھا۔ روسی مارکسزم کا باوا آدم کہلانے والے جارجی پلیخانوف کو جرمن سوشلسٹ پارٹی کے پروگرام پر شدید اعتراض تھا۔ پلیخانوف کا خیال تھا کہ سائنسی سوشلزم مذہب کی تردید کرتا ہے کیونکہ یہ معاشرے اور فطرت کا غلط تصور پیش کرتا ہے اور پرولتاریہ کی متنوع ارتقا کے راستے میں رکاوٹ بنتا ہے۔
پلیخانوف کا کہنا تھا کہ ہماری پارٹی کے دروازے ایسے شخص پر بند نہیں ہونا چاہئیں جو مذہبی سوچ رکھتا ہو مگر ہمیں اُس سوچ کا خاتمہ کرنا ہو گا اور اُسے اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ پارٹی کے پلیٹ فارم سے مزدوروں میں اپنے تعصبات پھیلائے۔
ڈیوڈ میکلینن کا دعویٰ ہے کہ لینن مذہب اور پارٹی کے حوالے سے پلیخانوف سے شدید متاثر تھا (گو بعض دیگر سوالات پر، بعد ازاں، لینن اور ٹراٹسکی دونوں، پلیخانوف سے شدید اختلاف کرتے بھی نظر آئے۔ یہ دونوں پلیخانوف کے وہ شاگرد تھے جو استاد سے بہت آگے نکل گئے)۔
لینن کا مشہور مضمون ہے ’سوشلزم اور مذہب‘۔ اس مضمون میں لینن مذہب کو ’روحانی شراب‘ قرار دیتے ہوئے اگر فلسفیانہ بنیاد پر مارکس سے متفق ہے، تو تنظیمی سطح پر مذہبی بنیادوں پر مزدوروں میں تقسیم نہیں چاہتا۔ اس کا کہنا تھا: ’اس دنیا کو جنت بنانے کے لئے اس حقیقی انقلابی جدوجہد میں مزدور اتحاد، اُس مزدور اتحاد سے زیادہ اہم ہے جو آسمانی جنت بارے ہو سکتا ہے۔‘ لینن چاہتا ہے کہ مزدور بعد از موت جنت تلاش کرنے کی بجائے مل کر اس دنیا کو بہتر بنائیں۔
لینن کا مطالبہ تھا: ’ریاست مذہب کو نجی معاملہ قرار دے۔‘ لینن کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ ریاست کسی ایک مذہب کی سر پرستی نہ کرے، بلکہ تمام مذاہب قانون کے سامنے برابر ہونے چاہئیں۔ یاد رہے، ایک طرف اگر زار شاہی روس میں چھوٹی قومیتوں سے امتیاز برتا جاتا تھا تو دوسری طرف سرکاری مذہب، آرتھوڈاکس عیسائیت، کی ریاستی سرپرستی موجود تھی جبکہ دیگر مذاہب سے امتیاز برتا جاتا تھا۔ لینن کا جو رویہ قومی استحصال کے حوالے سے تھا، کسی حد تک وہی رویہ امتیاز کا شکار مذاہب کی جانب تھا۔ جس طرح لینن قوموں کے حق خود ارادیت کا حامی تھا، اسی طرح وہ بالشویک رہنما کے طور پر مذہب پر عمل کے لئے فرد کی مکمل آزادی کا حامی تھا۔ انقلاب کے بعد اس لینن وادی سوچ نے کیا شکل اختیار کی، اس کا ذکر مضمون کے اگلے حصے میں ہو گا۔
لینن کے علاوہ ٹراٹسکی (گو ٹراٹسکی نے کوئی باقاعدہ تحریر نہیں چھوڑی)، روزا لکسمبرگ، فرینکفرٹ سکول (اگر آپ انہیں مارکس وادی تسلیم کرنے پر تیار ہیں)، اور بیسویں صدی کی ابتدا کے ان گنت مارکس وادی دانشور اور کارکنوں نے مذہب اور مارکسزم کے حوالے سے لکھا۔
بر سبیل تذکرہ، ایک دلچسپ واقعہ یاد آ رہا ہے جو راقم نے سویڈن کے معروف مارکس وادی تاریخ دان ہوکن بلومکوست (Håkan Blomqvist) سے سنا تھا: کیمونسٹ مینی فیسٹو کا سویڈش زبان میں ترجمہ ایک پادری نے کیا تھا۔ ترجمہ کرتے ہوئے پادری نے مارکس کو تھوڑا سا ’مذہبی ٹچ‘ بھی دے دیا…لہٰذا دنیا بھر کے مزدورو ایک ہو جاو کا ترجمہ کیا گیا ’دنیا بھر کے مسیحیو! ایک ہو جاؤ۔‘
مضمون کے اگلے حصے میں جائزہ لیا جائے گا کہ اقتدار میں آنے کے بعد مختلف ممالک میں کیمونسٹ کہلانے والی سیاسی جماعتوں کا مذہب کی جانب رویہ کیا تھا۔
مارکسی حکومتیں اور مذہب
مضمون کے اس حصے میں یہ دیکھا جائے گا کہ حکومت میں آنے کے بعد مختلف ملکوں میں کیمونسٹ کہلانے والی جماعتوں نے مذہب کی جانب کیا رویہ اپنایا۔
سوویت روس چونکہ پہلی ایسی مزدور ریاست تھی اس لئے بات وہیں سے شروع کرتے ہیں۔ 1918ء میں بننے والے سویت آئین میں مذہب اور مذہبی تبلیغ کی مکمل آزادی کی ضمانت دی گئی، لیکن کیمونسٹ حکومت اور کیمونسٹ پارٹی کی پالیسی میں فرق تھا۔ 1919ء میں لینن نے پارٹی پروگرام میں مندرجہ ذیل شق رکھوائی:
’جہاں تک روسی کمیونسٹ پارٹی کا مذہب کا تعلق ہے،تو پارٹی اس (سرکاری) حکم نامے سے مطمئن ہو کر نہیں بیٹھ جائے گی کہ مذہب کو ریاست اور تعلیم سے علیحدہ کر دیا گیا ہے…پارٹی مذہب کی تبلیغ اور استحصالی طبقوں کے درمیان تعلق کا مکمل خاتمہ چاہتی ہے، اور پارٹی عوام کو مذہبی تعصبات سے مکمل نجات دلانا چاہتی ہے۔ اس مقصد کے لئے پارٹی بڑے پیمانے پر سائنسی، تعلیمی اور رد ِمذہب پراپیگنڈے کا اہتمام کرے گی۔‘
سوویت سیاق و سباق میں، مذہب اور ریاست بارے بحث میں بخارن اور ٹراٹسکی ایسے بالشویک رہنماؤں نے بھی حصہ لیا۔
بعد ازاں جب سٹالنسٹ رد انقلاب کی گرفت اقتدار پر مضبوط ہو گئی تو مذہب بارے ریاست کی پالیسی کبھی ایک انتہا پر ہوتی تو کبھی دوسری پر۔ کبھی ریاست جفاکش قسم کی ایتھیسٹ بن کر چرچ پر جبر شروع کر دیتی تو کبھی، بالخصوص دوسری عالمی جنگ میں، جس طرح سٹالن نے روسی شاونزم کو بحال کیا اسی طرح چرچ کو بھی بحال کیا گیا۔
دوسری عالمی جنگ میں مشرقی یورپ کی چند ریاستوں میں جب کیمونسٹ حکومتیں قائم ہوئیں تو وہ روسی سٹالنسٹ نظام کا سایہ ہی بن گئیں۔ صورتِ حال زیادہ مختلف نہیں تھی۔ ایک اہم مثال مشرقی جرمنی ہے۔ جرمنی میں چونکہ کیمونسٹ پارٹی اور چرچ نے مل کر فسطائیت کے خلاف لڑائی لڑی تھی، اس لئے ابتدائی طور پر جب سوویت فوج نے جرمنی کو فاشزم سے آزاد کروایا تو جرمنی میں چرچ پر جبر نہیں کیا گیا۔ الٹا چرچ کو ریاستی سبسڈی بھی ملتی تھی اور چرچ کو اجازت تھی کہ وہ جائیداد کی ملکیت کا حق رکھتا ہے۔ جرمنی کی 6 یونیورسٹیوں میں مذہب کے ڈیپارٹمنٹ جاری رہے۔ کرسچین ڈیموکریٹک یونین نامی سیاسی جماعت کو بھی سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا۔ جب 1949ء میں مغربی جرمنی میں حکومت بن گئی تو چرچ پابندیوں کی زد میں آیا۔ ان پابندیوں میں کچھ نرمی 1953ء میں ہوئی۔ 1957ء میں جب ہنگری میں سٹالنسٹ رجیم کے خلاف انقلاب آیا تو مشرقی جرمنی میں چرچ ایک مرتبہ پھر زیرِ عتاب آیا۔ 70ء کی دہائی میں، مشرقی جرمنی میں جب والٹر البرخت کے اقتدار کا خاتمہ ہوا تو جا کر چرچ کو ایک مرتبہ پھر تھوڑا سکون کا سانس لینے کا موقع ملا۔ چین میں مذہب پر آج تک پابندی ہے اور اتفاق سے جب سے چین نے سرمایہ داری کے ہاتھ پر بیعت کی ہے، ملک میں عیسائی مذہب، کم از امیر طبقے اور مڈل کلاس میں تیزی سے پھیلا ہے۔
ان تمام ممالک کی نسبت، مذہب کی حوالے سے کیوبا کا ریکارڈ بہت بہتر رہا۔ گو 80ء کی دہائی تک کیوبا کی کیمونسٹ پارٹی کا رکن بننے کے لئے مذہب پر یقین رکھنے والے شخص پر پابندی تھی، پھر یہ پابندی ختم کر دی گئی مگر بطور ریاست مذہب کی مکمل آزادی کو آئینی طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ برازیل کے ایک پادری بنیتو فرے کے ساتھ کاسترو کا ایک طویل انٹرویو شائع ہو چکا ہے، جس میں کاسترو کیوبا کی حکومت اور مذہب کے حوالے سے بات کرتا ہے۔ کاسترو خود ایک ملحد تھا لیکن کاسترو کا منہ بولا بیٹا ہیوگو شاویز مسیحی عقیدے پر ایمان رکھتا تھا۔ منہ بولے بیٹے نے البتہ مذہب کا استحصال نہیں کیا۔ مذہب کو ذاتی عقیدے تک محدود نہیں رکھا۔ علاوہ ازیں، لاطینی امریکہ میں لبریشن تھیالوجی کی تحریک موجود رہی ہے جس کے ساتھ بایاں بازو اتحاد بنا کر چلتا رہا ہے۔
موجودہ بحث کے حوالے سے اہم ترین حوالہ افغانستان اور جنوبی یمن ہیں، مسلم دنیا سے تعلق رکھنے والے دو ایسے ممالک جہاں خود کو مارکسسٹ کہنے والی جماعتیں اقتدار میں آئیں (یہ بات نئی نسل کے لئے کسی بریکنگ نیوز سے کم نہیں ہوگی کہ دنیا میں آخری بار جس ملک میں مارکسسٹ قرار دیا جانے والا ’انقلاب‘ آیا، وہ افغانستان تھا)۔
جنوبی یمن میں 1969ء میں انقلاب کے بعد مذہبی وقف پراپرٹی کو اِسی طرح قومی ملکیت میں لے لیا گیا، جس طرح سویت روس میں چرچ کی جائیداد کو قومی ملکیت میں لے لیا گیا تھا، لیکن ایک عقیدے کے طور پر مذہب کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی۔ ایک وزارت تشکیل دی گئی جس کے ذریعے امام مساجد کو ماہانہ تنخواہ دی جاتی تھی۔ اسلامی قوانین، مثال کے طور پر حق وراثت بارے مذہبی قانون کو بھی نہیں بدلا گیا (جس پر ترقی پسند نقطہ نگاہ سے شدید تنقید کی جا سکتی ہے)۔ جنوبی یمن کی حکومت ایک طرح کی لبریشن تھیالوجی کو شہ دے رہی تھی۔ 80ء کی دہائی میں جب حکومت غیر مقبول ہوتی چلی گئی تو حکمران سوشلسٹ پارٹی کے رہنما مذہب کا سیاسی استعمال کرنے لگے۔ مساجد میں جا کر نماز ادا کی جاتی جس کی تصاویر اخبارات میں نمایاں شائع کی جاتیں۔
1978ء میں جب افغانستان میں ’ثور انقلاب‘آیا تو ایک شدید پراپیگنڈے کا آغاز ہوا کہ ملحدوں کی حکومت بن گئی ہے۔ یاد رہے انقلاب برپا کرنے والی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی افغانستان (پی ڈی پی اے) کے دو دھڑے تھے: خلق اور پرچم۔ پہلے سال خلق دھڑا نمایاں رہا۔ سال بعد پرچم نے بغاوت کر دی اور خلق دور کے بارے میں بہت ساری غلط فہمیاں یا الزام تراشیاں پرچم نے بھی کیں۔ ان کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ حفیظ اللہ امین کو مذہب دشمن بنا کر پیش کیا گیا۔
پرچم دھڑے نے جب اقتدار سنبھالا تو پرچم رہنما ببرک کارمل نے اعلان کیا کہ ثور انقلاب کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مذہب ِاسلام کی عزت کی جائے (گویا خلق دور میں ایسا نہیں ہو رہا تھا)۔ حقیقت یہ ہے کہ ثور انقلاب کے بعد جو پہلا پالیسی بیان 27 اپریل کوجاری کیا گیا اس میں کہا گیا کہ ’اسلام کے مقدس احکامات اور اصولوں کی پاسداری کی جائے گی۔‘
دلچسپ بات ہے کہ ثور انقلاب کے بعد سود پر پابندی لگائی گئی تو افغان ملاؤں نے اس پابندی کو غیر اسلامی قرار دیا۔ ببرک کارمل کی جگہ جب ڈاکٹر نجیب بر سر اقتدار آئے تو حکومت نے، یمن کی طرح، مذہب کا استعمال شروع کر دیا۔ ڈاکٹر نجیب کی تقریر تلاوت سے شروع ہوتی۔ بات بات پر اسلام کے حوالے دیئے جاتے۔ ببرک کارمل کے دور میں ہی لوگوں کو مفت حج کرائے جانے لگے، جس پر ریاستی خزاے سے تقریباً 10 ملین ڈالر خرچ کئے گئے۔ مساجد کی سرکاری خزانے سے تعمیر و مرمت کا کام کروایا گیا۔ لال رنگ کے افغان جھنڈے میں ’اسلامی ٹچ‘ دینے کے لئے سبز رنگ کا اضافہ کیا گیا۔
جنوبی یمن اور افغانستان میں قائم ہونے والی ’کیمونسٹ‘ حکومتوں کے خلاف سامراج نے خود مولویوں کے ساتھ مل کر اربوں ڈالر خرچ کئے تا کہ ان حکومتوں کو اسلام دشمن ثابت کیا جا سکے۔ مغربی یونیورسٹیوں میں بیٹھے پروفیسر آج تک اس پراپیگنڈے میں مصروف ہیں کہ ان دونوں ممالک میں ’کیمونسٹ‘ حکومتوں نے مذہب پر پابندیاں لگائیں، مساجد گرا دیں، مولویوں کو جیل میں ڈال دیا وغیرہ وغیرہ۔
حیرت کی بات ہے کہ ایسے دعوے پروفیسر حضرات کی جانب سے سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر کر دیئے جاتے ہیں۔ کبھی کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ یہ ممکن ہے کی پی ڈی پی اے یا سوشلسٹ پارٹی یمن کے بعض افراد نے انفرادی سطح پر کوئی بات کی ہو یا کوئی عمل کیا ہو جسے ’غیر اسلامی‘قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن بطور حکومت یہ کوئی احمق نہیں تھے جنہیں اتنا سا بھی علم نہ ہوتاکہ افغانستان یا یمن میں مذہب کی جانب کیا رویہ اختیار کرنا ہے۔ ان دو حکومتوں کی پالیسیاں کیا تھیں یا یہ کیوں ناکام ہوئیں، یہ الگ بحث ہے لیکن ان کا رویہ سیکولرسٹ تھا۔
پاکستانی بایاں بازو اور مذہب
مضمون کے آخری حصے میں اس بات پر بحث کریں گے کہ پاکستان میں بائیں بازو کا موقف کیا ہونا چاہئے؟
۱۔ اس سوال کا جواب عملی طور پر بایاں بازو دے چکا ہے: مذہب فرد کا نجی معاملہ ہے، نہ مذہب کا سیاسی استعمال کرو، نہ مذہب پر تنقید کرو۔
بائیں بازو کے مخالفین اکثر یہ ’تجزیہ‘ پیش کرتے ہیں کہ پاکستان میں بائیں بازو کی ’ناکامی‘ کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ مذہب دشمن تھے۔ اس سے زیادہ شرمناک تجزیہ ممکن نہیں۔ اؤل تو یہ کہ بائیں بازو کو ناکام قرار دینے والے بھول جاتے ہیں کہ جب ملک میں پہلی بار عام انتخابات ہوئے تو رائے دہندگان نے ایسی جماعتوں (عوامی لیگ، پی پی پی، اے این پی) کو ووٹ دیا جو خود کو سوشلسٹ بنا کر پیش کر رہی تھیں (وہ سوشلسٹ تھیں یا نہیں، علیحدہ بحث ہے)۔ حالت یہ تھی کہ مسلم لیگ (دولتانہ) نے بھی اپنے انتخابی منشور میں سوشلزم کا وعدہ کر رکھا تھا۔ جب تک طلبہ یونین کے انتخابات ہوتے رہے، کراچی سے پشاور اور کوئٹہ سے راولپنڈی تک، سوشلسٹ طلبہ تنظیمیں ہر سال انتخابات جیتتی رہیں۔ ٹریڈ یونین یا وکیلوں صحافیوں اور ڈاکٹروں کی ملگ گیر تنظیموں یا ایسی دیگر پروفیشنل تنظیموں کے انتخابات اور ریفرنڈم بھی بایاں بازو بھاری اکثریت سے مسلسل بنیادوں پر جیت رہا تھا۔
اس میں شک نہیں کہ بایاں بازو موجودہ حالات میں ایک چھوٹی قوت ہے۔ یہ نوبت کیوں آئی، اس کی بے شمار وجوہات ہیں لیکن بائیں بازو کی مبینہ ’مذہب دشمنی‘ اس کی وجہ نہیں ہے۔ سامراج نے مولوی کے ساتھ مل کر پوری مسلم دنیا میں یہ پراپیگنڈہ کیا کہ مارکسزم مذہب بیزار ہے، وغیرہ وغیرہ۔
ملکی تاریخ میں درجنوں سیاسی جماعتیں سوشلزم اور مارکسزم کے نام پر وجود آئیں۔ اِس وقت بھی درجن بھر گروہ ملک میں مارکس واد کا دم بھرتے ہیں۔ کسی ایک نے کبھی کسی بھی مذہب پر اپنے کسی پالیسی بیان یا پروگرام پر سیکولرزم سے ہٹ کر کوئی موقف لیا ہو تو اس کی نشاندہی بریکنگ نیوز ہو گی۔ اسی طرح، کبھی کسی جماعت نے یہ پابندی نہیں لگائی کہ اس کی رکنیت کے لئے ملحد ہونا ضروری ہے۔ اگر بائیں بازو نے کبھی تنقید کی تو اس بات پر کی کہ مذہب کا سیاسی استعمال غلط ہے، یہ استعمال دایاں بازو کرے یا بایاں بازو یا پیپلز پارٹی جیسی ملغوبہ جماعت۔
۲۔ بایاں بازو مذہب کے سیاسی استعمال کے لئے بنیادی طور پر دو وجوہات کی بناپر خلاف ہے۔ اس کی ایک تو اسٹریٹیجک وجہ ہے۔ اگر بایاں بازو مذہب کو استعمال کرے گا تو اس کا فائدہ مذہبی بنیاد پرستوں کو پہنچے گا۔ بھٹو (عہد) کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ مزدور طبقہ سوچے گا کہ اگر مسئلے کا حل اسلام ہے، تو پھر جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام بلکہ طالبان سب سے بہتر مسلمان ہیں۔ ’لبرل فاشسٹ‘ قسم کے، مغرب زدہ مرد و خواتین کا ساتھ کیوں دیا جائے۔ دوسری وجہ نظریاتی ہے۔ مذہب مزدور طبقے کو تقسیم کرتا ہے۔ سوشلزم عالمگیریت پر یقین رکھتا ہے۔ سوشلزم کا تو پہلا نعرہ ہی ’دنیا بھر کے مزدورو! ایک ہو جاؤ‘ ہے۔ سو مذہب کا استعمال عالمگیریت کی نفی ہے۔
اسی طرح، قومی سطح پر، جہاں اکثریت ایک مذہب کی ہو، وہاں مذہب فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرتا ہے، کیونکہ ہر مذہب میں فرقے موجود ہیں۔ اگر پاکستان کی مثال دی جائے تو یہاں لگ بھگ 20 فیصد آبادی شیعہ ہے۔ پھر ہندو، عیسائی، سکھ، بودھ اور ایتھیسٹ بھی ہیں۔ پھر یہ کہ مذہب عورت اور مرد میں تفریق کرتا ہے۔ دنیا کا لگ بھگ ہر بڑا مذہب ذات پات یا غلامی کا قائل ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ آپ مذہب سے اپنی مرضی کی چیزیں لے لیں، باقی رد کر دیں۔
اس لئے سوشلسٹ چاہتے ہیں کہ مذہب کو نجی معاملہ رہنے دیا جائے۔ ریاست لوگوں کے عقیدے نہ جانچتی پھرے۔ نہ ہی معاشرے کو یہ حق ہونا چاہئے کہ وہ لوگوں پر عقیدوں کے حوالے سے فتوے جاری کرے۔
۳۔ کیا پاکستان جیسے مذہبی ملک میں جہاں مذہب کی اتنی گہری جڑیں ہیں،وہاں بائیں بازو کو سیکولر رہنا چاہئے؟ کیوں نہ بھٹو کی طرح مذہب کو استعمال کیا جائے؟ اؤل تو اس کاکسی حد تک جواب گذشتہ نکتے میں دیا جا چکا ہے۔ دوم، اکثریت کو خوش کرنے کی سیاست مجاریٹیرین ازم (Majoritarianism) کہلاتا ہے (جو بی جے پی بھارت میں کر رہی ہے) جس کے نتیجے میں اتھاریٹیرین ازم تو آ سکتا ہے، جمہوری سوشلزم نہیں۔
پھر یہ کہ پاکستان میں جمعیت علمائے سندھ (جو شاہ عنایت کی روایت سے خود کو جوڑتی ہے) یا ایران میں مجاہدین خلق اور فدائین نے بھی اسلامی سوشلزم کی بات کی مگر وہ مین اسٹریم نہیں بن سکے (جنوبی یمن اور افغانستان میں تو ’کیمونسٹ‘ حکومتیں مذہب کا استعمال کر کے نہیں بچ سکیں)۔ افغانستان میں ماؤ وادی ’افغان لبریشن آرگنائزیشن‘ نے بھی ثور انقلاب کے بعد مذہب کو استعمال کرنے کی کوشش کی…یہ کوشش الٹی پڑی اور اس پر دیگر مارکس وادی گروہوں نے، جن کا پی ڈی پی اے سے تعلق نہ تھا، ہمیشہ شدید تنقید کی ہے۔ کوئی سیاسی گروہ، وہ دائیں بازو کا ہو یا بائیں بازو کا، محض پروگرام کی بنیاد پر مین اسٹریم نہیں بن جاتا۔ موضوعی و معروضی حالات کا موافق ہونا بنیادی شرط ہے۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب بایاں بازو ایک چھوٹی قوت ہے، وہ مذہب کا چوغہ پہن لینے سے موقع پرست تو کہلا سکتا ہے، ترقی نہیں کر سکتا۔ بایاں بازو اکثریت کے پیچھے نہیں چلتا، اکثریت کو اپنے پیچھے لاتا ہے۔ اس کے لئے کام کرنا چاہئے۔ شارٹ کٹ نہیں ڈھونڈنے چاہئیں۔
۴۔ اوٹو باور نے بائیں بازو کے طریقہ کار کو بہترین طریقے سے بیان کر دیا تھا: مولوی طبقہ ہر سیکولر اور سیاسی مسئلے کو مذہبی بنا دیتا ہے۔ مارکس وادیوں کا کام ہے کہ ہر سیاسی مسئلے کو سیکولرائز کریں…ورنہ ایران کی طرح منہ کے بل گریں گے۔
۵۔ لیکن کیا ہر مذہب میں کچھ ترقی پسند اور انقلابی روایات نہیں ہوتیں جنہیں بائیں بازو کی سیاست میں استعمال کیا جا سکتا ہے؟ جواب ہے: نہیں۔ اؤل تو یہ تشریح کی بات ہے کہ مذہب میں کیا انقلابی ہے، کیا رجعتی۔ اس تشریح سے مذہبی فرقے تو جنم لے سکتے ہیں، سوشلزم آگے نہیں بڑھ سکتا۔ پھر پاکستان جیسے ملک میں جہاں بلاسفیمی قوانین موجود ہیں، وہاں مذہبی بحثوں میں الجھنا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ مزید یہ کہ مذہب کی تشریح پر مولوی کی اجارہ داری رہے گی…عورت مارچ کرنے والوں اور یوم مئی منانے والوں کی تشریح کو کوئی نہیں مانے گا۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔