مارکسی تعلیم

زندگی، ریاست اور راستے

قمرالزماں خاں

ایک طبقاتی سماج میں محنت کش طبقے، عام لوگوں اور نچلی سطح کے کارندوں کی زندگی کے تحفظ پر نظری اور عملی تضادات ہوتے ہیں۔ کتابی قوانین، دستوری قوائد اور زمینی حقائق الگ الگ نظر آتے ہیں، جن کی تشریح و تفہیم روزمرہ زندگی کے مظاہر کرتے ہیں۔

کتابی فرامین کی رو سے ’فوڈ سیکورٹی‘ ریاست کے بنیادی فرائض میں سے اولین فریضہ ہے۔ اسی طرح جان و مال کی حفاظت، صحت، تعلیم، ذرائع رسل و رسائل اور انفراسٹرکچر کی تعمیر اور فراہمی ریاست کے تشکیلی دلائل اور فرائض کا حصہ ہیں۔ ایسا نہ کیا جانا جدید (یا ترقی پذیر) سرمایہ دارانہ ریاست کی ناکامی سمجھا جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ ریاست کے دعووں میں سے بڑا دعوی اپنے شہریوں کی سلامتی کی ذمہ داری کا کیا جاتا ہے۔ اگر ریاست اپنے باشندوں کو تحفظ فراہم کرنے کی صلاحیت ہی کھو بیٹھے تو پھر بتدریج اسے اپنے وجود کو برقرار رکھنے والے دلائل سے بھی سبکدوش ہونا پڑتا ہے۔ شہریوں کی جانوں کے تحفظ کا دائرہ صرف اجتماعی یا انفرادی دھشت گردی سے بچاؤ یا حفاظت تک محدود نہیں ہے۔ شہریوں کو درکار خوراک، پانی، بجلی، گیس، ادویات کی فراہمی، بھوک مٹانے اور زندگی برقرار رکھنے کے ذرائع، روٹی، خوراک، روزگار، علاج معالجہ اور صحت مندانہ زندگی کے تمام ذرائع ریاست کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔ یہ سب نہ کر پانے پر ریاست کو ناکام قرار دیا جاتا ہے۔

حتی الامکان روڈ ایکسیڈنٹ سے محفوظ راستے اور دیگر اسباب، بہترین سفری وسائل وغیرہ سب ہی ریاستی ذمہ داریوں کے بنیادی فرائض ہیں۔ جب غیر فطری اموات (قتل و غارت گری، حادثات وغیرہ) کی شرح بڑھتی جائے تو سماج کا توازن طے شدہ عمرانی معاہدوں کے تحت برقرار نہیں رہ سکتا۔ ریاست ماں نہیں ہوتی، نہ ہو سکتی ہے، کیوں کہ اس کی بنیاد ہی مختلف طبقات کے تضادات کے ناقابل حل ہونے کی بنا پر رکھی گئی ہے۔ مگر ریاست کو مقدس، محترم اور عادل ظاہر کیا جاتا ہے۔ اس تاثر (کہ ریاست سب کے مفادات کی سانجھی محافظ ہے) کو برقرار رکھنے کے لئے سماجی سطح پر ادارے قائم کئے جاتے ہیں، قوانین بنائے جاتے ہیں اور ان پر عمل درآمد کرانے کے ڈھانچے بنائے جاتے ہیں۔ بیانئے اور لفاظی کی سطح کے بالکل ہی نیچے طبقاتی فرق نکل آتا ہے، مگر تاثر برقرار رکھنے کے لئے ڈھونگ بھی رچائے جاتے ہیں اور کسی نہ کسی سطح پر اقدامات بھی کئے جاتے ہیں۔ مگر ان اقدامات کے قائم رہنے کا انحصار ریاست کی صحت پر ہوتا ہے۔ بحرانوں اور زوال کے عہد میں بھرم تک بھی ٹوٹ جاتے ہیں۔ ہم ایسے ہی سامراجی عہد، خطے، ریاستی ٹوٹ پھوٹ اور زوال میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔

بھوک کا مسئلہ انفرادی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ ہر عہد کے نظام، پیداواری ذرائع اور پیداواری رشتوں کی ہیئت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

مہنگائی کی زد میں ہر گلی محلے کے لوگ آتے ہیں مگر یہ مسئلہ گلی محلے میں حل نہیں ہو سکتا۔ تمام تر این جی اوز، خیراتی ادارے یا افراد یہ بھاری بھرکم فریضہ ادا نہیں کر سکتے۔ جہاں تک عالمی خیراتی اداروں یا ڈونرز کا تعلق ہے تو یہ عالمی سطح کے لوٹ مار کے اداروں کی ٹیکس چھوٹ کا ذریعہ بننے والی تنظیمیں ہوتی ہیں، یا ایسے ممالک جو دوسرے ہاتھ سے غریب ملکوں کو اپنی شرائط اور معاشی جھکڑ بندیوں میں باندھ رہے ہوتے ہیں۔ نچلی سطح پر بھی صورتحال ایسی ہی ہے۔ ریاستی سطح پر کساد بازاری، مہنگائی یا گراں فروشی کا بندوبست خیرات سے ممکن نہیں ہے۔ ایسی صورت میں سماج میں مالی اہلیت کی بنا پر زیادہ تر مخیر حضرات کی اپنی مالی حالت مشکوک ہوتی ہے۔ تھوڑا سا کریدا جائے تو دولت کے انبار کے پس منظر میں جرائم اور غیر قانونی حرکات و حربوں کے ساتھ محنت کا شدید استحصال نظر آئے گا۔ محنت کا یہی استحصال سماج کی بڑی پرتوں کی غربت، پسماندگی اور بے چارگی کا سبب ہے۔ یہ قبضہ گروپ، پراپرٹی ڈیلرز، تعمیراتی ٹائیکون، چینی اور آٹا مافیا، گراں فروش، سٹاکسٹ، جعلی سیڈ بنانے والے، خوراک میں ملاوٹ کرنے والے ہی ہوتے ہیں۔ جو پورے سماج کو بیمار و برباد کر رہے ہوتے ہیں۔ مخیر اور نام نہاد مدد گار افراد، گروہ، کمپنیاں، این جی اوز وغیرہ کا تعلق استحصالی طبقے سے ہو تو ایسی حرکات و اقدامات سے واہ واہ کا بندوبست تو کیا جا سکتا ہے، جس سے وہ اپنی سماجی بدنمائی کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہیکہ وہ خود کو نیک دل، ہمدرد بھی قرار دلوا سکیں، مگر یہ محنت کش طبقے یا غریبوں کے مسائل کے حل کی بجائے ان سرمایہ داروں کی نفسیاتی اور مجرمانہ ذہنی حالت کی خود ساختہ تدارتی واردات ہوتی ہے۔ دوسری طرف اس سے سماجی حالت بھی سدھرنے کی بجائے خیراتی نفسیات اور بھیک پر انحصار کو بڑھا دیتی ہے، یہ غیر صحت مندانہ طرز زندگی کا فروغ بھی ہے اورمتاثرہ طبقے کے قانونی حق حاصل کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی۔ پھر (خیرات، زکواۃ، مدد، بھیک وغیرہ) ایسا طرز عمل غریبوں کی مدد تو شاید نہ کر سکے مگر ریاست کو چھوٹ اور راہ فراہ فراہم کر نے کا باعث ضرور بنتا ہے اور ریاست اپنے فرائض سے اور بے گانہ ہو کر دولت مندوں، طاقت ور ریاستی اداروں، حکومتی زعما، کمپنیوں اور مافیاز کی اعانت میں مصروف ہو جاتی ہے۔

ہمارا کام ظلم کی توجیہات پیش کرنا نہیں ہے نہ ہی ظلم کو برداشت کرکے کسی راہ فرار کو اپنانا۔

ہمارا تاریخی فریضہ ہے کہ ہم مہنگائی، سامراجی حملوں، عوام دشمن اقتصادی پالیسیوں کو مسترد کریں، ان کی حقیقی وجوہات لوگوں کے سامنے پیش کریں، اس ظالمانہ نظام، اس کی استحصالی پالیسیوں اور مقامی گماشتوں کو بے نقاب کریں اور اس ظلم، استحصال، جبر اور طبقاتی خلیج بڑھانے والے نظام کے خاتمے کی جدوجہد کو استوار کریں۔

خیرات نہیں۔ جدوجہد

Qamar Uz Zaman Khan
+ posts

قمر الزماں خاں پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین  کے مرکزی جنرل سیکرٹری ہیں اور ملکی سطح پر محنت کشوں کے حقوق کی طویل جدوجہد کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔وہ تقریباً تین دہائیوں سے پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (PTUDC) کے پرچم تلے مزدور تحریک میں سرگرم ہیں۔