فاروق سلہریا
مضمون کے اس حصے میں یہ دیکھا جائے گا کہ حکومت میں آنے کے بعد مختلف ملکوں میں کیمونسٹ کہلانے والی جماعتوں نے مذہب کی جانب کیا رویہ اپنایا۔
سوویت روس چونکہ پہلی ایسی مزدور ریاست تھی اس لئے بات وہیں سے شروع کرتے ہیں۔ 1918ء میں بننے والے سوویت آئین میں مذہب اور مذہبی تبلیغ کی مکمل آزادی کی ضمانت دی گئی لیکن کیمونسٹ حکومت اور کیمونسٹ پارٹی کی پالیسی میں فرق تھا۔ 1919ء میں لینن نے پارٹی پروگرام میں مندرجہ ذیل شق رکھوائی:
’جہاں تک مذہب کا تعلق ہے روسی کیمونسٹ پارٹی کا تو پارٹی اس (سرکاری) حکم نامے سے مطمئن ہو کر نہیں بیٹھ جائے گی کہ مذہب کو ریاست اور مذہب کو تعلیم سے علیحدہ کر دیا گیا ہے…پارٹی مذہب کی تبلیغ اور استحصالی طبقوں کے درمیان تعلق کا مکمل خاتمہ چاہتی ہے اور پارٹی عوام کو مذہبی تعصبات سے مکمل نجات دلانا چاہتی ہے۔ اس مقصد کے لئے پارٹی بڑے پیمانے پر سائنسی، تعلیمی اور رد مذہب پراپیگنڈے کا اہتمام کرے گی‘۔
سوویت سیاق و سباق میں، مذہب اور ریاست بارے بحث میں بخارن اور ٹراٹسکی ایسے بالشویک رہنماؤں نے بھی حصہ لیا۔
بعد ازاں جب سٹالنسٹ رد انقلاب کی گرفت اقتدار پر مضبوط ہو گئی تو مذہب بارے ریاست کی پالیسی کبھی ایک انتہا پر ہوتی تو کبھی دوسری پر۔ کبھی ریاست جفاکش قسم کی ایتھیسٹ بن کر چرچ پر جبر شروع کر دیتی تو کبھی، بالخصوص دوسری عالمی جنگ میں، جس طرح سٹالن نے روسی شاونزم کو بحال کیا اسی طرح چرچ کو بھی بحال کیا گیا۔
دوسری عالمی جنگ میں مشرقی یورپ کی چند ریاستوں میں جب کیمونسٹ حکومتیں قائم ہوئیں تو وہ روسی سٹالنسٹ نظام کا سایہ ہی بن گئیں۔ صورتِ حال زیادہ مختلف نہیں تھی۔ ایک اہم مثال مشرقی جرمنی ہے۔ جرمنی میں چونکہ کیمونسٹ پارٹی اور چرچ نے مل کر فسطائیت کے خلاف لڑائی لڑی تھی، اس لئے ابتدائی طور پر جب سویت فوج نے جرمنی کو فاشزم سے آزاد کروایا تو جرمنی میں چرچ پر جبر نہیں کیا گیا۔ الٹا چرچ کو ریاستی سبسڈی بھی ملتی تھی اور چرچ کو اجازت تھی کہ وہ جائداد کی ملکیت کا حق رکھتا ہے۔ جرمنی کی چھ یونیورسٹیوں میں مذہب کے ڈیپارٹمنٹ جاری رہے۔ کرسچین ڈیموکریٹک یونین نامی سیاسی جماعت کو بھی سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا۔ جب 1949ء میں مغربی جرمنی میں حکومت بن گئی تو چرچ پابندیوں کی زد میں آیا۔ ان پابندیوں میں کچھ نرمی 1953ء میں ہوئی۔ 1957ء میں جب ہنگری میں سٹالنسٹ رجیم کے خلاف انقلاب آیا تو مشرقی جرمنی میں چرچ ایک مرتبہ پھر زیرِ عتاب آیا۔ ستر کی دہائی میں، مشرقی جرمنی میں جب والٹر البرخت کے اقتدار کا خاتمہ ہوا تو جا کر چرچ کو ایک مرتبہ پھر تھوڑا سکون کا سانس لینے کا موقع ملا۔ چین میں مذہب پر آج تک پابندی ہے اور اتفاق سے جب سے چین نے سرمایہ داری کے ہاتھ پر بیعت کی ہے، ملک میں عیسائی مذہب، کم از امیر طبقے اور مڈل کلاس میں تیزی سے پھیلا ہے۔
ان تمام ممالک کی نسبت، مذہب کی حوالے سے کیوبا کا ریکارڈ بہت بہتر رہا۔ گو اَسی کی دہائی تک کیوبا کی کیمونسٹ پارٹی کا رکن بننے کے لئے مذہب پر یقین رکھنے والے شخص پر پابندی تھی، پھر یہ پابندی ختم کر دی گئی مگر بطور ریاست مذہب کی مکمل آزادی کو آئینی طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ برازیل کے ایک پادری بنیتو فرے کے ساتھ کاسترو کا ایک طویل انٹرویو شائع ہو چکا ہے جس میں کاسترو کیوبا کی حکومت اور مذہب کے حوالے سے بات کرتا ہے۔ کاسترو خود ایک ملحد تھا لیکن کاسترو کا منہ بولا بیٹا ہیوگو شاویز مسیحی عقیدے پر ایمان رکھتا تھا۔ منہ بولے بیٹے نے البتہ ٰ مذہب کا استحصال نہیں کیا۔ مذہب کو ذاتی عقیدے تک محدود نہیں رکھا۔ علاوہ ازیں، لاطینی امریکہ میں لبریشن تھیالوجی کی تحریک موجود رہی ہے جس کے ساتھ بایاں بازو اتحاد بنا کر چلتا رہا ہے (مزید بحث اگلی قسط میں)۔
موجودہ بحث کے حوالے سے اہم ترین حوالہ افغانستان اور جنوبی یمن ہیں، مسلم دنیا سے تعلق رکھنے والے دو ایسے ممالک جہاں خود کو مارکسسٹ کہنے والی جماعتیں اقتدار میں آئیں (یہ بات نئی نسل کے لئے کسی بریکنگ نیوز سے کم نہیں ہوتی کہ دنیا میں آخری بار جس ملک میں مارکسسٹ قرار دیا جانے والا ’انقلاب‘ آیا، وہ افغانستان تھا)۔
جنوبی یمن میں 1969ء میں انقلاب کے بعد مذہبی وقف پراپرٹی کو اِسی طرح قومی ملکیت میں لے لیا گیا جس طرح سویت روس میں چرچ کی جائداد کو قومی ملکیت میں لے لیا گیا تھا لیکن ایک عقیدے کے طور پر مذہب کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی۔ ایک وزارت تشکیل دی گئی جس کے ذریعے امام مساجد کو ماہانہ تنخواہ دی جاتی تھی۔ اسلامی قوانین مثال کے طور پر حق وراثت بارے مذہبی قانون کو بھی نہیں بدلا گیا (جس پر ترقی پسند نقطہ نگاہ سے شدید تنقید کی جا سکتی ہے)۔ جنوبی یمن کی حکومت ایک طرح کی لبریشن تھیالوجی کو شہ دے رہی تھی۔ اَسی کی دہائی میں جب حکومت غیر مقبول ہوتی چلی گئی تو حکمران سوشلسٹ پارٹی کے رہنما مذہب کا سیاسی استعمال کرنے لگے۔ مساجد میں جا کر نماز ادا کی جاتی جس کی تصاویر اخبارات میں نمایاں شائع کی جاتیں۔
1978ء میں جب افغانستان میں ثور انقلاب آیا تو ایک شدید پراپیگنڈے کا آغاز ہوا کہ ملحدوں کی حکومت بن گئی ہے۔ یاد رہے انقلاب برپا کرنے والی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی افغانستان (پی ڈی پی اے) کے دو دھڑے تھے: خلق اور پرچم۔ پہلے سال خلق دھڑا نمایاں رہا۔ سال بعد پرچم نے بغاوت کر دی اور خلق دور کے بارے میں بہت ساری غلط فہمیاں یا الزام تراشیاں پرچم نے بھی کیں۔ ان کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ حفیظ اللہ امین کو مذہب دشمن بنا کر پیش کیا گیا۔
پرچم دھڑے نے جب اقتدار سنبھالا تو پرچم رہنما ببرک کارمل نے اعلان کیا کہ ثور انقلاب کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مذہب ِاسلام کی عزت کی جائے (گویا خلق دور میں ایسا نہیں ہو رہا تھا)۔ حقیقت یہ ہے کہ ثور انقلاب کے بعد جو پہلا پالیسی بیان 27 اپریل کوجاری کیا گیا اس میں کہا گیا ’اسلام کے مقدس احکامات اور اصولوں کی پاسداری کی جائے گی‘۔
دلچسپ بات ہے کہ ثور انقلاب کے بعد سود پر پابندی لگائی گئی تو افغان ملاوں نے اس پابندی کو غیر اسلامی قرار دیا۔ ببرک کارمل کی جگہ جب ڈاکٹر نجیب بر سر اقتدار آئے تو حکومت نے،یمن کی طرح، مذہب کا استعمال شروع کر دیا۔ ڈاکٹر نجیب کی تقریر تلاوت سے شروع ہوتی۔ بات بات پر اسلام کے حوالے دئے جاتے۔ ببرک کارمل کے دور میں ہی لوگوں کو مفت حج کرائے جانے لگے جس پر ریاستی خزاے سے تقریباً دس ملین ڈالر خرچ کئے گئے۔ مساجد کی سرکاری خزانے سے تعمیر و مرمت کا کام کروایا گیا۔ لال رنگ کے افغان جھنڈے میں ’اسلامی ٹچ‘ دینے کے لئے سبز رنگ کا اضافہ کیا گیا۔
جنوبی یمن اور افغانستان میں قائم ہونے والی ’کیمونسٹ‘ حکومتوں کے خلاف سامراج نے خود مولویوں کے ساتھ مل کر اربوں ڈالر خرچ کئے تا کہ ان حکومتوں کو اسلام دشمن ثابت کیا جا سکے۔ مغربی یونیورسٹیوں میں بیٹھے پروفیسر آج تک اس پراپیگنڈے میں مصروف ہیں کہ ان دونوں ممالک میں ’کیمونسٹ‘ حکومتوں نے مذہب پر پابندیاں لگائیں، مساجد گرا دیں، مولویوں کو جیل میں ڈال دیا وغیرہ وغیرہ۔
حیرت کی بات ہے کہ ایسے دعوے پروفیسر حضرات کی جانب سے سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر کر دئے جاتے ہیں۔ کبھی کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ یہ ممکن ہے کی پی ڈی پی اے یا سوشلسٹ پارٹی یمن کے بعض افراد نے انفرادی سطح پر کوئی بات کی ہو یا کوئی عمل کیا ہو جسے ’غیر اسلامی‘قرار دیا جا سکتا ہے لیکن بطور حکومت یہ کوئی احمق نہیں تھے جنہیں اتنا سا بھی علم نہ کہ افغانستان یا یمن میں مذہب کی جانب کیا رویہ اختیار کرنا ہے۔ ان دو حکومتوں کی پالیسیاں کیا تھیں یا یہ کیوں ناکام ہوئیں، یہ الگ بحث ہے لیکن ان کا رویہ سیکولرسٹ تھا۔
(جاری ہے)
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔