اپنے ’وی لاگ‘ میں انکا کہنا تھا کہ ’یہ اپنی نجی زندگی میں انتہائی سخت اور ظالم خاتون ہیں۔ اپنے ملازمین کو مارپیٹ کرنا، گالیاں دینا اور سزائیں دینا انکا پسندیدہ مشغلہ ہے۔‘
Day: جولائی 5، 2022
مولانا ہدایت: ریاستی جبر پر احتجاج مگر جمعیت کے تشدد کی حمایت
موجودہ سیاسی رجحانات کی بنیاد پر یہ واضح ہے کہ مولانا ہدایت اگلا الیکشن اسی صورت میں جیت سکتے ہیں، جب وہ جماعت اسلامی اور اس کے نظریے سے خود کو دور کر لیں۔ اگر وہ اپنے قدامت پسند ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہیں، جس میں مخلوط تعلیم کی مخالفت بھی شامل ہے، تو انہیں نسبتاً ترقی پسند بلوچ معاشرے میں سیاسی حمایت کبھی نہیں ملے گی۔ مولانا ہدایت کو مذہبی قدامت پرستی کے بارے میں اپنے موقف کے بارے میں واضح طور پر سامنے آنا ہو گا۔ اس معاملے پر ان کی خاموشی سخت مذہبی سیاست سے ان کی وفاداری کا اعتراف قرار پائے گی۔ اگر وہ اس مسئلے سے نمٹنے میں کامیاب ہو گئے توآنے والے سال مولانا ایک منصفانہ اور آزادانہ انتخابات میں جیت سکتے ہیں۔
سکینڈے نیوین ائر لائن کے 900 پائلٹ ہڑتال پر
یہ ہڑتال اس لئے بھی اہم ہے کہ سکینڈے نیویا میں ہڑتالیں کم کم ہی دیکھنے میں آئی ہیں اور مالکان عموماً مرضی سے نیو لبرل ایجنڈا لاگو کرتے آئے ہیں۔
فن لینڈ اور سویڈن کو نیٹو شمولیت کی صورت پوٹن کی دھمکی
”فن لینڈ اور سویڈن کے نیٹو کے رکن بننے کے حوالے سے ہمیں فکر مند ہونے والی کوئی چیز نہیں ہے۔ اگر وہ چاہیں تو آگے بڑھیں، لیکن انہیں واضح طور پر سمجھنا چاہیے کہ انہیں اس سے پہلے کسی قسم کی دھمکیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اب اگر نیٹو کے دستے اور انفراسٹرکچر تعینات کیا جاتا ہے، تو ہم اس کا جواب دینے پر مجبور ہونگے۔“
گلگت: اسیروں کی رہائی کیلئے درجن سے زائد مقامات پر دھرنے، سینکڑوں مرد و خواتین شریک
مقامی سیاسی رہنما و قانون دان احسان علی ایڈووکیٹ نے سوشل میڈیا پر جاری ایک ویڈیو بیان میں ان اسیروں کو سنائی گئی سزاؤں کو سراسر غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا ہے۔
طالبان، ڈرگس اور جموں کشمیر
’یہ خطہ سیاسی طور پر جتنا متحرک ہے، اس کے نوجوانوں کو آسانی سے ریاستی مقاصد کیلئے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے ایک سازش کے تحت نوجوان نسل کو ہی مفلوج اور اپاہج کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ سمگلنگ کے ان تمام ذرائع کا فوری خاتمہ کیا جانا چاہیے۔ ریاست اگر چاہے تو ایک سوئی یہاں نہیں پہنچ سکتی، چوری کی گاڑیوں سے لے کر نان کسٹم پیڈ گاڑیاں، اسلحہ اور منشیات یہاں کس طرح پہنچ رہے ہیں، یہ سب کو معلوم ہے۔ کوئی بولنا اور آواز اٹھانا نہیں چاہتا، کیونکہ بہت سے طاقتور حلقوں کا کاروبار اور مفادات اس سب انسانیت سوز دھندے سے جڑے ہوئے ہیں۔‘