کپل دیو
زمین گرم ہو رہی ہے، جسے ہم سائنس کی زبان میں ’گلوبل وارمنگ‘ کہتے ہیں۔ یہ ایک سادہ سا فقرہ اپنے اندر انسانی تہذیب کے لیے موت کی گھنٹی بجا رہا ہے۔ گلوبل وارمنگ کی بنیادی وجہ ٹروپوسفیئر میں بڑھتی ہوئی کاربن اور دیگر گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار ہے۔
کاربن کا اخراج فطری عوامل سے بھی ہوتا ہے۔ سالانہ 30 کروڑ ٹن کاربن جوالا مکھیوں کی وجہ سے فضا میں پہنچتی ہے لیکن یہ 35 ارب ٹن کاربن کا محض 2 فیصد بھی نہیں ہے جو کہ سرمایہ داری کی وجہ سے فضا میں پہنچ رہی ہے۔ جب ہم نے کوئلہ جلانا شروع کیا تب کاربان 280ppm تھی اور آج 400ppm سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق محض 50 فاسل فیول کمپنیاں ہیں جو کہ آدھی گرین ہاؤس گیسوں کو خارج کرتی ہیں۔ اس لیے گلوبل وارمنگ کی بنیادی وجہ قدرتی عوامل کی بجائے سرمایہ داری ہے۔
مارکس نے کہا تھا کہ سرمایہ داری دو انتہائی اہم ذرائع کو تباہ و برباد کرتی ہے۔ اؤل انسان اور دوئم فطرت۔ انسانی تاریخ دراصل فطری وسائل کو زیر استعمال لا کر فطرت کی تسخیر کی تاریخ ہے۔ انسان کا وجود فطرت سے محنت کے ذریعے جڑا ہوا ہے اور محنت کا استحصال دراصل انسان کے ساتھ ساتھ فطرت کا استحصال بھی ہے۔ گو کہ انسان ازل سے فطری وسائل کو استعمال کرتا آ رہا ہے لیکن مارکس نے فطرت کی تباہی کو سرمایہ داری سے اس لیے جوڑا کیونکہ سرمایہ داری میں پیداوار پچھلے نظاموں کے برعکس، انسانی ضروریات کے بجائے شرح منافع اور اس سے بڑھ کر منڈی کی معیشت کے لئے ہوتی ہے۔ آج ایسے معلوم ہوتا ہے کہ فطرت انسان سے انتقام لے رہی ہے۔ جس تیزی سے سرمایہ داری جدید طریقوں کو بروئے کار لا کر شرح منافع کو برقرار رکھنے کے لیے ترقی کر رہی ہے اسی تیزی سے ماحول بھی تباہ ہو رہا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے پچھلے تمام ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں۔ موسم بدل رہا ہے۔ قدرتی آفات کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 18 سے 21 جولائی کے محض ایک ہفتے میں آسٹریا، بیلا روس، جرمنی، چائنہ، ایران، انڈیا، لیتھونیا، اومان، روس، سوئزر لینڈ، نائجیریا اور دیگر ممالک میں بارش کے وجہ سے سیلابی صورتحال دیکھی گئی۔ جہاں شمالی جرمنی میں سیلابی صورتحال ہے وہیں جنوبی جرمنی ہیٹ ویو اور آگ کی زد میں ہے۔ کیلیفورنیا میں 21000 ایکڑ جنگل آگ میں جل گیا۔ اسی طرح کینیڈا میں ریکارڈ گرمی کی لہر دیکھی گئی۔ ترکی میں کئی صوبے آگ کی زد میں آ گئے۔ نہ صرف موسم بدل رہا ہے بلکہ جس تیزی سے موسمیاتی تبدیلیاں ہو رہی ہیں وہ انسانی تہذیب کی بقا کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے سائنسدانوں کی رائے منقسم ہے۔ ایک گروہ کا ماننا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی نہیں ہو رہی اور دوسرا گروہ موسمیاتی تبدیلی کو حقیقت مانتے ہوئے دنیا کو خبردار کر رہا ہے کہ حالات کنٹرول سے باہر نکل رہے ہیں اگر آج ہم نے موسمیاتی تبدیلی کو سنجیدگی سے نہ لیا تو پھر دنیا کی تباہی یقینی ہے۔
موسمیاتی تبدیلی سے انکار کرنے والے سائنسدانوں اور تحقیق کے پیچھے دراصل وہ کمپنیاں ہیں جن کی بھاری سرمایہ کاری ایسی صنعت سے جڑی ہوئی ہے جس سے کاربن کا اخراج ہوتا ہے۔ ایگزون موبیل، ساؤتھرن کمپنی اور امریکن پیٹرولیم انسٹیٹیوٹ جیسی کمپنیاں موسمیاتی تبدیلی کے خلاف پروپیگنڈا کے لیے سالانہ لاکھوں ڈالرز خرچ کرتی ہیں۔ لیکن 95 فیصد سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ موسم واقعی تبدیل ہو رہا ہے۔ سطح سمندر کا بڑھنا، زمین کے درجہ حرارت کا بڑھنا، برف کا پگھلنا، گرمی کی لہریں، سیلاب اور خشک سالی وغیرہ تمام واقعات موسمیاتی تبدیلی کا ثبوت ہیں۔
دوسری طرف جو سائنسدان موسمیاتی تبدیلی کو مانتے ہیں وہ سرمایہ داری کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے انسان کو ذمہ دار پیش کرتے ہیں۔ کرۂ ارض پر زندگی کی نشوونما میں ماحول کا انتہائی اہم کردار ہے۔ زمین کا ماحول، آب ہوا، سمندروں اور جنگلات وغیرہ سے جڑا ہوا ہے۔ سازگار ماحول کے لیے ان تمام عناصر میں توازن کا ہونا لازمی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی بنیادی وجہ اس توازن کو برقرار نہ رکھ پانا ہے۔
فاسل فیول کے جلنے سے کاربن پیدا ہوتی ہے جو کہ کرۂ ہوائی میں سازگار ماحول کے لیے توازن میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اس وقت تمام تر کوششیں کی جاتی ہیں کہ کسی طریقے سے کاربن کے اخراج کو کم کیا جائے۔ لیکن اس کے لیے فاسل فیول کے بطور ایندھن کو ختم کرنا ہو گا جو کہ مستقبل قریب میں سرمایہ داری کے اندر ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ انٹرنل کمبشن انجن کی ایجاد کے بعد کارخانے، ٹرانسپورٹ اور پیداوار کا ہر عمل فاسل فیول کے مرہون منت ہو گیا۔ تیل ایندھن کے طور پر استعمال ہونے لگا اور دنیا کی 40 فیصد توانائی کی ضرورت تیل سے پوری ہونے لگی۔ تیل سے ایک نئی صنعت، پلاسٹک انڈسٹری نے جنم لیا۔ یہ وہ کچرا ہے جو سرمایہ داری آنے والے نسلوں کے لیے چھوڑ رہی ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کو سمجھنے کے لیے سرمایہ داری کی پیداوار کو سمجھنا لازمی ہے۔ ذرائع پیداوار دراصل وہ فطری وسائل ہوتے ہیں جن کو پیداوار کے لیے خام مال کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ تمام تر وسائل جیسا کہ پانی، زمین، فاسل فیول اور ہوا وغیرہ۔ اس نظام میں پیداوار کا زیادہ تر حصہ فاسلز فیول سے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ ایک نان ریورس ایبل انرجی کا ذریعہ ہے جس پر سرمایہ داری کی ساری معیشت کھڑی ہے۔ اس وقت دنیا کی ضروری توانائی کا 80 فیصد فاسلز فیول سے حاصل کیا جاتا ہے۔ فاسلز فیول میں کوئلہ، تیل اور قدرتی گیس آ جاتے ہیں جو کہ بالترتیب 44، 35 اور 24 فیصد توانائی کو پورا کرتے ہیں۔ یعنی کہ ہماری دنیا کا انحصار فاسلز فیول پر ہی ہے۔ فاسلز فیول کے جلانے سے توانائی تو ملتی ہے لیکن ساتھ ساتھ گرین ہاؤس گیسیں بھی خارج ہوتی ہیں۔ سالانہ 35 ارب ٹن کاربن فاسلز فیول جلانے سے پیدا ہوتی ہے۔
حکمرانوں کی موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے تمام تر کوششیں دراصل کاربن کے اخراج کو کم کرنے سے مشروط ہیں۔ کاربن کے اخراج میں کمی یا خاتمے کے لیے فاسلز فیول کا استعمال کم کرنا ہو گا۔ لیکن دوسری جانب فاسلز فیول انڈسٹری کو سالانہ 500 ارب ڈالر کی سبسڈی دی جاتی ہے۔ 2012ء میں امریکی صدر باراک اوباما نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے ایک صدی کے لیے تیل کی کمپنیوں کو سبسڈی دے رکھی ہے جوکہ بہت کافی ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیرس معاہدے سے الگ ہونے کے بعد موجودہ صدر جو بائیڈن نے پیرس معاہدے میں واپسی کی ہے اور فاسلز فیول کے استعمال کو کم کرنے کے حوالے سے سبسڈی ریفارم کے نام سے ایگزیکٹیو آرڈر جاری کرنے کی تیاری میں ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے فاسلز فیول پر منحصر بڑی بڑی تیل کی کمپنیوں کو دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ لازمی ہے۔
وہیں کورونا وائرس کے باعث معاشی بحران سے نکلنے کیلئے بھی فاسلز فیول پر انحصار کیا جا رہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا کورونا وائرس کی وجہ سے بحران کا شکار ہے اور فاسلز فیول کے استعمال میں کمی کی وجہ سے معاشی ریکوری ناممکن ہو جائیگی لہٰذا اس وقت پیرس معاہدے پر عملدرآمد کسی طور ممکن نظر نہیں آتا۔
جنگلات زمین کے پھیپھڑے ہوتے ہیں۔ زمین ان پھیپھڑوں کے ذریعے سانس لیتی ہے اور فضا میں کاربن کے توازن کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ کرۂ ارض کا 30 فیصد رقبہ جنگلات سے ڈھکا ہوا ہے۔ امیزون اور دیگر بڑے بڑے جنگلات کاربن کا ذخیرہ مانے جاتے ہیں جنہوں نے کاربن کا تیسرا حصہ اپنے اندر جمع کیا ہوا ہے۔ لیکن دنیا کے پھیپھڑے سرمایہ داری کی منافع کی حوس کا شکار ہیں اور تیزی سے کاٹے جا رہے ہیں۔ 1990ء سے آج تک 420 ملین ہیکٹرز رقبے کا صفایا کیا جا چکا ہے۔ صرف کیلیفورنیا میں 2017ء سے 3 ملین ایکڑ جنگلات آگ کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہر منٹ میں 2400 درخت کاٹے جا رہے ہیں۔ ایک سیکنڈ میں فٹ بال کے گراؤنڈ جتنا رقبہ کاٹا جا رہا ہے۔
2014ء میں اقوام متحدہ میں نیویارک ڈیکلریشن کے نام سے معاہدے پر دستخط کیے گئے جس کے مطابق 2020ء تک جنگلات کی کٹائی کو آدھا کیا جائیگا اور 150 ملین ایکڑ اراضی پر جنگلات کی افروز کی جائیگی۔ لیکن اس کے باوجود 43 فیصد مزید جنگلات کاٹے گئے ہیں اور زراعت کے لئے پالم آئل اور پیپر انڈسٹری وغیرہ کو سبسڈی دی جا رہی ہے۔ جنگلات کے کاٹنے کے عمل میں تیزی کے پیچھے دراصل یہی ٹمبر مافیا، پیپر انڈسٹری، پالم آئل، زراعت اور سویابین وغیرہ سے جڑے سرمایہ دار مافیا ہیں جو کہ منافع کی اندھی حوس کی وجہ سے زمین کے پھیپھڑوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ پام آئل آجکل ہر چیز میں استعمال ہوتا ہے۔ صابن، شیمپو، کاسمیٹک، آئل اور جنک فوڈ وغیرہ میں پام آئل کا استعمال ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کی پیداوار میں سالانہ 4 گنا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ انڈونیشیا اور ملائیشیا کے جنگلات کو پام آئل کی پیداوار کے لیے تیزی سے کاٹا جا رہا ہے۔ ’FAO‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق 32 فیصد جدید بیماریوں کی وجہ جنگلات کی کٹائی ہے۔ وہی اس عمل سے سینکڑوں اسپیشیز معدوم ہو رہی ہیں۔
دوسری طرف گلوبل وارمنگ کی وجہ سے آگ کے واقعات میں بھی تیزی آ رہی ہے۔ زمین کا درجہ حرارت بڑھنے سے گلیشیئر پگھل رہے ہیں۔ ’IPCC‘ کی رپورٹ کے مطابق سالانہ 1.2 ٹرلین ٹن برف پگھل رہی ہے جو کہ 1990ء میں 700 بلین ٹن سالانہ پگھل رہی تھی۔ پچھلی دو دہائیوں میں 60 فیصد برف پگھلنے میں اضافہ ہوا ہے۔ برف کے پگھلنے سے چمکتی سطح کم ہوتی جا رہی ہے جو کہ سورج کی شعاعوں کو ریفلیکٹ کرتی ہے۔ اسی طرح گرین لینڈ میں موجود برف کے نیچے میتھین گیس کی بھاری مقدار موجود ہے جسے ہم پرمافوسٹ ریجن کہتے ہیں۔ برف کے پگھلنے سے دبی ہوئی میتھین فضا میں خارج ہو جائیگی۔ میتھین کاربن کے مقابلے میں 9 گناہ زیادہ پاور فل گیس ہے۔ برف پگھلنے سے سطح سمندر میں اضافہ ہوتا ہے۔ ’IPCC‘ کے اندازے کے مطابق 2100ء تک برف کے پگھلنے سے 16 انچ سمندر کی سطح میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی گرمی کا 90 فیصد سمندر جذب کرتے ہیں۔ سمندر گرم ہونے کی وجہ سے ایکسپینڈ ہوتے جا رہے ہیں اور سطح سمندر میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بخارات میں بھی اضافہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے شدید بارشیں اور طوفانوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
آج کی جدید سرمایہ داری جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لا کر بھی گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی کو روکنے کے قابل نہیں ہے۔ کیونکہ سرمایہ داری کی بنیادی اساس شرح منافع کو برقرار رکھنا ہے۔ اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے سرمایہ داری میں وہی حل قابل قبول ہے جو شرح منافع پر کسی قسم کی ضرب نہ لگائے۔ ٹیکنالوجی سے جڑے تمام تر حل سے منافع کم ہوتا ہے اور انہیں وسیع پیمانے پر لاگو کرنا کافی مشکل ہے۔ اسی لیے ڈاکٹر لال خان کہا کرتے تھے کہ ماحولیاتی طور پر مفید سرمایہ داری بالکل اسی طرح ناممکن ہے جیسے سماجی اور معاشی طور پر منصفانہ سرمایہ داری ایک یوٹوپیا ہے۔ نسلِ انسانی کی بقا کے لیے ہر حوالے سے سرمایہ داری کا خاتمہ ناگزیر بن چکا ہے۔ منافع کی حوس پر مبنی نظام کو ایک سوشلسٹ انقلاب سے ہی اکھاڑ پھینکا جا سکتا ہے۔