دنیا

بیروزگاری کی آگ میں جھلستے ہوئے نوجوان

جاوید ملک

”ہم پڑھے لکھے ہیں، بے روزگار ہیں، بھوکے ہیں۔ ہمارے پیٹ پر لات مت مارو۔“ یہ انڈیا کی ریاست بہار کے ایک نوجوان لڑکے کی اپنے ساتھیوں سے کی جانے والی التجا تھی۔ انڈیا کی سب سے پسماندہ ترین ریاستوں میں سے ایک میں حالیہ دنوں میں بے روزگاری اور نوکری کے حصول پر شروع ہونے والے فسادات تین دن تک جاری رہے۔

تقریباً ایک کروڑ لوگوں نے انڈین ریلوے میں 35 ہزار نوکریوں کے لیے درخواستیں دے رکھی تھیں۔ ان درخواست گزاروں نے الزام عائد کیا کہ اس پورے عمل میں شفافیت نہیں تھی بلکہ پیچیدگیاں ہی پیچیدگیاں تھیں۔ ان میں سے ایک پیچیدگی یہ بھی تھی کہ زیادہ تعلیم یافتہ لوگوں کو بھی اجازت دی گئی تھی کہ وہ کم تعلیم والی نوکری کے لیے مقابلہ کر سکتے ہیں۔

ان پیچیدگیوں نے غصے اور مایوسی کو جنم دیا۔ طالب علموں نے ٹرینیں روک دیں اور کئی کوچوں کو آگ لگا دی۔ پولیس نے جواب میں ہوائی فائرنگ کی اور مظاہرین پر ڈنڈے برسائے۔ ریلوے نے بھرتی کا عمل ہی روک دیا اور درخواست گزاروں کو خبردار کیا کہ آئندہ کے لیے ان پر ہر قسم کے ریلوے ملازمت ٹیسٹ دینے کی پابندی لگا دی جائے گی۔

ایک اخبار نے لکھا کہ یہ مظاہرے صرف نوکریوں کی کمی پر نہیں بلکہ یہ اس بوجھ کی غمازی کر رہے ہیں جو نواجوانوں پر پڑ رہا ہے۔ ان مظاہرین میں سے ایک نے عالمی میڈیاکو بتایا کہ وہ ایک کسان کا بیٹا ہے جس نے زمین بیچ کر اسے پڑھایا لکھایا۔

ان کی ماں بیمار پڑنے پر دوائیں نہیں خریدتی تھیں تاکہ بیٹے کے شہر میں رہنے کے لیے کرائے اور پرائیویٹ کوچنگ کلاسز کے لیے رقم بچ جائے۔ انھوں نے 2018ء میں وزیر اعظم نریندر مودی کے جانب سے کیے گئے اس تبصرے پر تنز کیا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ کس طرح پکوڑے کی چھوٹی سی دکان کھولنا بھی ایک نوکری ہے۔ وہ پوچھتے ہیں ”آپ گریجویٹس کو پکوڑے تلنے کو کیوں کہہ رہے ہیں؟“

نوجوان کے غصے اور پرتشدد مظاہروں نے انڈیا میں بے روزگاری کے بڑھتے ہوئے بحران کی جانب توجہ دلائی ہے۔ بہت سے افراد کا خیال ہے کہ بہار اور ہمسایہ ریاست اتر پردیش میں اس ہفتے ملازمتوں کے امتحانات کے دوران ہونے والے فسادات حکام کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہیں۔

ان دونوں ریاستوں میں بے روزگار افراد کی تعداد، انڈیا میں کل تعداد کا ایک چوتھائی حصہ ہے۔ ایک تھینک ٹینک، سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی (CMIE) کے مطابق، دسمبر میں انڈیا میں بے روزگاری کی شرح تقریباً 8 فیصد تک بڑھ گئی۔ یہ شرح 2020ء میں اور 2021ء کے بیشتر حصے میں 7 فیصد سے زیادہ تھی۔

ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ موجودہ شرح کم از کم پچھلی تین دہائیوں میں بے روزگاری کی شرح سے کہیں زیادہ ہے۔ کام کرنے والی آبادی میں نوکری کے متلاشی افراد کی تعداد میں کمی آئی ہے: 15-24 سال کی عمر کے صرف 27 فیصد لوگ یا تو کام کر رہے ہیں یا نوکری کی تلاش میں ہیں۔ کوئی شخص جتنا زیادہ تعلیم یافتہ ہو گا، اتنا ہی زیادہ امکان ہے کہ وہ بے روزگار رہیں گے اور کم تنخواہ والی اور معمولی ملازمتیں لینے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ انڈیا کی افرادی قوت میں 15 سال اور اس سے زیادہ عمر کی خواتین کی شرح، دنیا میں سب سے کم ہے۔

18 سے 29 سال کی عمر کے نوجوان بے روزگاری کا شکار ہیں۔ لیبر اکانومسٹ رادھیکا کپور کے مطابق چونکہ زیادہ تر نوجوان سکولوں اور کالجوں میں جاتے ہیں، لہٰذا پڑھے لکھے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ”یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے اور کافی عرصے سے چلا آ رہا ہے۔“

انڈیا میں نوجوانوں کے لیے کافی تعداد میں ملازمتیں اور بہتر نوکریاں پیدا نہیں ہو رہیں۔ لیبر سروے سے پتہ چلتا ہے کہ ایک چوتھائی نوجوان گھر بیٹھے ’بغیر معاوضہ خاندانی کام‘ کر رہے ہیں یا فیملی کو مدد فراہم کرتے ہیں اور ساتھ امتحانات کی تیاری کرتے ہیں۔

سروے کے مطابق صرف ایک تہائی کے پاس باقاعدہ ملازمتیں تھیں، لیکن ان میں سے 75 فیصد کے پاس کوئی کنٹریکٹ یا تحریری معاہدہ نہیں تھا اور 60 فیصد سوشل سکیورٹی کے اہل نہیں تھے۔ ڈاکٹر کپور کا کہنا ہے کہ سرکاری ملازمتوں کے لیے ہنگامہ آرائی یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ انڈیا کے نوجوان معمولی اور غیر مستحکم نوکریوں کی بجائے ان مستحکم، محفوظ ملازمتوں کو ترجیح دیتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’غیر یقینی ہے جس میں کیریئر بنانے کا کوئی راستہ نہیں۔ ایک پڑھا لکھا نوجوان یہ سب نہیں چاہتا۔ گِگ اکانومی کو گلیمرائزنگ کرنا یا اس کی تشہیر بے روزگاری کے مسئلے کا حل نہیں ہے۔‘

بہار جیسے شہروں میں زراعت میں آنے والے بحران نے بھی بے روزگاری کو بڑھایا ہے۔ قابل کاشت زمینیں کم ہوتی جا رہی ہیں جس کے ساتھ کاشتکاری غیر منافع بخش ہوتی جا رہی ہے۔ اپنے بچوں کو پرائیویٹ کوچنگ کے لیے شہروں میں بھیجنے کے لیے کاشتکاروں کے خاندان زمینیں بیچ رہے ہیں اور قرض لے رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کی پہلی نسل پڑھ لکھ رہی ہے اور اس بے روزگاری والی معیشت میں وہ وائٹ کالر نوکریوں کے خواہشمند ہیں۔

سرکاری سکول اور کالج ان طلبہ میں اعتماد کی کمی کو پورا نہیں کر پاتے۔ بہار میں پٹنہ کی سڑکیں پرائیویٹ کوچنگ سکولوں کے اشتہارات سے بھری پڑی ہیں جو سرکاری ملازمتوں کے امتحان پاس کروانے کا وعدہ کرتے ہیں۔ اب اساتذہ اپنے طالب علموں کو بتا رہے ہیں کہ حکومت کے پاس کوئی نوکریاں نہیں ہیں۔ ہنگاموں کو بھڑکانے کے الزام میں کوچنگ سکولوں کے چھ اساتذہ کا نام پولیس رپورٹ میں درج کیا گیا ہے۔

بنا کسی لیڈر اور قیادت کے اس ہفتے ہونے والے ہنگامے یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ انڈیا کی سیاسی جماعتیں کس طرح ملازمتوں کے بحران سے نمٹنے میں ناکام ہو رہی ہیں۔ بہار کے مشتعل طلبہ کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر ان کے احتجاج پر کسی نے توجہ نہیں دی جس کے بعد وہ سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوئے۔

انڈیا کے شہروں میں ہونے والی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ملازمتوں کی کمی گھریلو تشدد کا باعث بن رہی ہے۔ یہاں یہ بھی بھولنا نہیں چاہیے کہ سنہ 1975ء میں جو ہنگامے ایمرجنسی کا باعث بنے تھے اور وزیر اعظم اندرا گاندھی نے شہری آزادیوں کو معطل کر کے ہزاروں لوگوں کو جیلوں میں ڈال دیا تھا، ان کا سبب بے روزگاری اور مہنگائی تھی۔

ایمرجنسی کے شروع کے دنوں میں کیے گئے ایک سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 18-24 سال کی عمر کے تقریباً 24 فیصد نوجوان بے روزگار تھے اور اس کے بعد اب سب سے بڑا احتجاج بہار میں ہوا ہے۔ یہ صورتحال کم وبیش بھارت کی تمام ریاستوں میں نظر آ رہی ہے۔

حرف آخر کے طور پر عرض یہ ہے کہ وطن عزیز میں بھی 64 فیصد آبادی ایسے نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی عمریں چودہ سال سے پینتیس سال کے درمیان ہیں اور ان نوجوانوں کی اکثریٹ بھی ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کے نوجوانوں سی ہی ہے۔ بیروزگاری کی شرح پاکستان میں بھی بھارت سے کم نہیں ہے جبکہ 80 فیصد کے قریب ملکی آبادی کو مکمل غذا، علاج، تعلیم اور چھت حتیٰ کہ پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں ہے۔ گزشتہ 74 سال میں حکمران طبقے نے پاکستان کے عوام کی اکثریت کی زندگیوں کو اپنی پالیسیوں اور لوٹ مار کے ذریعے بدسے بد تر اور بد تر سے بد ترین ہی بنایا ہے۔ اس حکمران طبقے کو سنجیدگی سے یہ سوچنا چاہیے کہ اگر پاکستان کے نوجوانوں، مزدوروں اور کسانوں نے اپنے بنیادی مسائل پر اتحاد کر لیا اور وہ سڑکوں پر نکل آئے تو 1968-69ء کی وہ تاریخ اپنے آپ کو کہیں زیادہ بلند پیما نے پر دہرائے گی جس نے اقتدار ایوانوں سے نکال کر گلیوں، کھیتوں اور کھلیانوں میں لا پھینکا تھا۔ اُس وقت قیادت کے فقدان کی وجہ سے ایک اشتراقی انقلا ب اپنی اصل منزل سے ہمکنار ہونے سے رہ گیا تھا مگر پاکستانی محنت کش طبقہ اپنے تجربات سے بہت کچھ سیکھ چکا ہے اور اب یہ 1968-69ء والی غلطی کو کبھی نہیں دہرائے گا۔

Javed Malik
+ posts

جاوید ملک سینئر صحافی اور ترقی پسند سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔