نقطہ نظر

یہ سڑک آپ کے ابا جی کی نہیں ہے

فاروق سلہریا

ڈئیر اربن ایلیٹ!

کل شام کا واقعہ ہے۔ میں ای ایم ای لاہور، جہاں میں کرائے کے فلیٹ میں رہتا ہوں، سڑک کنارے پیدل چل رہا تھا۔ فٹ پاتھ چونکہ قصہ پارینہ ہو چکے۔ باقی شہروں کی طرح لاہور کی ساری ’ڈویلپمنٹ‘ گاڑیوں والوں کے لئے ہوتی ہے۔ اس لئے ہم پیدل سواروں کو سڑک کنارے ہی چلنا پڑتا ہے۔

ویسے بھی میرے گھر والی گلی اتنی تنگ ہے کہ وہاں یا سڑک بنتی یا فٹ پاتھ۔

گذشتہ روز ایک مرتبہ پھر ایک لاڈلا اپنی بڑی سی گاڑی میں اس تیزی سے میرے پاس سے گزارا کہ اگر میں بروقت ایک طرف نہ ہو جاتا تو آج کے ’جدوجہد‘ میں میرا کالم شائع ہونے کی بجائے میری خبر شائع ہوتی۔

ڈئیر ایلیٹ! میرے محلے تک ہی یہ بات محدود نہیں۔ پورے لاہور بلکہ سارے پاکستان میں آپ کے نوجوان لاڈلے سڑک کو ائر پورٹ سمجھ کر گاڑی اڑاتے ہیں۔ اگر کسی مہذب ملک میں، بالخصوص آبادی والی گلی میں یا سڑک پر، وہ ایسے گاڑی چلائیں تو ان کا لائسنس منسوخ ہو جائے۔

میں آدھا سال سٹاک ہولم میں بھی رہتا ہوں۔ کبھی کبھار نوجوان وہاں بھی برق رفتاری سے گلی محلے کے اندر بے ہودہ طریقے سے گاڑی چلاتے نظر آ جاتے ہیں لیکن وہاں اگر آپ گاڑی کا نمبر نوٹ کر کے پولیس کو فون کر دیں تو دوسروں کی جان سے کھیلنے والے ڈرائیور کو ضروری سبق مل جاتا ہے۔

ریاست مدینہ کے موجودہ خلیفہ ایک زمانے میں فرمایا کرتے تھے کہ سویڈن میں حضرت عمر کا قانون ہے جس کی وجہ سے انہوں نے ترقی کی۔ اسی لئے سوچا سویڈن کی مثال دیدوں۔

خیر عرض فقط اتنی سی تھی کہ ہم پیدل عوام سے فٹ پاتھ تو آپ چھین ہی چکے ہیں لیکن سڑک کے کنارے، ہم لوگوں کے لئے جو پیدل چلتے ہیں یا سائیکل چلانے پر مجبور ہیں، محفوظ رہنے دیں۔

ہمیں معلوم ہے کہ جب آپ ہذا من فضل ربیٰ والی آمدن سے اپنے لاڈلے بیٹوں کو اسی نوے لاکھ روپے کی گاڑی خرید کر دیتے ہیں تو آپ کے بچے سڑک کو ائر پورٹ کی طرح استعمال کر کے ہمیں بتانا چاہتے ہیں کہ دولت میں کتنی طاقت اور کتنا نشہ ہے۔

ڈئیر ایلیٹ! مجھے معلوم ہے کہ آپ کے لاڈلوں کی بے ہودہ اور شرمناک حد تک خطرناک ڈرائیونگ آپ کی بے رحم طبقاتی طاقت کا اظہار ہوتی ہے۔ آپ کے لاڈلے ہمیں اپنی خوفناک حد تک مہنگی گاڑیوں میں بیٹھ کر حد درجہ ڈروانی ڈرائیونگ کے ذریعے یہ بتا تے ہیں کہ جس طرح ڈیڈی نے قانون کو تہس نہس کر کے ہذا من فضل ربیٰ حاصل کیا، کوئی قانون ڈیڈی کا کچھ نہیں بگاڑ سکا، اسی طرح کوئی ’چھلڑ‘، کوئی ٹریفک رُول، کوئی ٹریفک قانون، ٹریفک کی کوئی اخلاقیات لاڈلے بیٹے کا راستہ نہیں روکے گی۔ وہ دائیں سے اوورٹیک کرے یا بائیں سے۔ لال اشارہ توڑے یا پیلا۔ سب طاقت کا اظہار اور دولت کے نشے کا خمار ہوتے ہیں۔

اس نشے، اس طاقت اور اس سے جنم لینے والی بد تہذیبی کا شرمناک ترین اظہار یہ ہوتا ہے کہ زیبرا کراسنگ تک پر پیدل شخص کو پہلے نہیں گزرنے دیتے۔

ڈئیر ایلیٹ! مجھے یہ بھی پتہ ہے آپ مجھے کیا طعنہ دینے والے ہیں۔ جی ہاں! ہمارے متوسط طبقے اور محنت کش گھرانوں کے بچے بھی خوفناک حد تک موٹر سائیکل تیز دوڑاتے ہیں۔

میں ان کی اس حرکت کا دفاع نہیں کروں گا لیکن اتنا فرق ضرور واضح کر دوں کہ غریب نوجوان تھرل (Thrill) کی تلاش میں اپنی جان خطرے میں ڈالتے ہیں۔ آپ نے جو لاہور، جو سماج اور جو ریاست تشکیل دی ہے وہ اس قدر بیمار ہے کہ اکثریت کی نوجوان اولاد کو معمولی سے تھرل کی تلاش میں اپنی جان خطرے میں ڈالنی پڑتی ہے۔ آپ کی اولاد تھرل کی تلاش میں نہیں، طاقت کے اظہار کے لئے سڑکوں کو ابا جی کی سڑک سمجھ کر گاڑیاں اڑاتے ہیں۔

مزید یہ کہ معاشرے کو تہذیب سکھانے کی ذمہ داری حکمران طبقے پر ہوتی ہے۔ فی الحال آپ حکمران ہیں۔ جب محنت کش اس ریاست اور سماج کی حکمرانی حاصل کرے گا تو یہاں بھی سویڈن کی طرح فون پر پولیس کو گاڑی کا نمبر نوٹ کرانے کی سہولت درکار ہو گی۔

ڈئیر ایلیٹ! اگر کبھی فرصت ملے تو سوچئے گا۔ اگر بات عقل میں آ جائے تو اپنے لاڈلے بچوں کو سمجھائیے گا کہ: بیٹا گھر کے باہر جو سڑک ہے آپ کے ابا جی کی نہیں ہے، سڑک کو ائر پورٹ مت سمجھا کرو اور گاڑی چلایا کرو، اڑایا مت کرو، اگر فلائنگ کا شوق ہے تو کسی فلائنگ کلب کے رکن بن جاؤ، ہمارے پاس اتنا ہذا من فضل ربیٰ ہے کہ تمہارے لئے چھوٹا موٹا جہاز بھی خرید سکتے ہیں۔

امید ہے غور فرمائیں گے۔


فقط

ایک عام شہری

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔