پاکستان

مولانا ہدایت: ریاستی جبر پر احتجاج مگر جمعیت کے تشدد کی حمایت

عدنان عامر

مئی میں گوادر کے میرے دورے کے دوران یہ بات عیاں ہو گئی کہ مولانا ہدایت الرحمان بندرگاہی شہر میں ابھرتا ہوا سیاسی ستارہ ہیں۔ میں ان کا انٹرویو نہیں کر سکا کیونکہ وہ اس وقت لوکل گورنمنٹ (ایل جی) کے انتخابات کی مہم میں مصروف تھے۔ وہ شاید صحافیوں کا سامنا کرنے سے بھی گریز کر ر ہے ہیں۔ بہرحال، انہوں نے مقامی انتخابات میں فیصلہ کن فتح حاصل کر کے بہت سے سیاسی پنڈتوں کو حیران کر دیا۔

گوادر ٹاؤن میں مولانا کی ’حق دو تحریک‘نے انتخابات میں کلین سویپ کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل، نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پاکستان نیشنل پارٹی کے اتحاد کو شکست دی۔ سربندر، پسنی اور پشوکان میں بھی تحریک کے امیدواروں نے اکثریت حاصل کی۔ مولانا ہدایت کی قیادت میں تحریک کو گوادر کی میونسپل کمیٹی کی چیئرمین شپ ملنے کا امکان ہے۔ گوادر کی ضلع کونسل کی چیئرمین شپ ابھی تک گرفت میں ہے۔ مولانا ہدایت کا حمایت یافتہ امیدوار اسے حاصل کر سکتا ہے۔

مولانا ہدایت الرحمان، جن کا تعلق سوربندر کے ماہی گیروں کے خاندان سے ہے، جماعت اسلامی بلوچستان کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ تاہم ان کی حالیہ سیاسی کامیابی کا تعلق جماعت اسلامی سے ان کی وابستگی سے نہیں بلکہ’حق دو تحریک‘ سے ہے…اگرچہ انہوں نے ابھی تک عوامی طور پر اپنے منصوبوں کا اعلان نہیں کیا ہے، لیکن وہ گوادر سے صوبائی اسمبلی کا رکن (ایم پی اے) بننے کے خواہشمند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اصل سیاسی حریف گوادر کے موجودہ ایم پی اے حمل کلمتی ہیں، جو کہ سردار اختر مینگل کی بی این پی سے وابستہ ہیں۔

مولانا ہدایت کے نامزد امیدوار کلمتی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو شکست دینے میں کامیاب رہے، کیونکہ مؤخر الذکر تک گوادر کے لوگوں کی رسائی نہیں ہے۔ کچھ مقامی باشندوں کا الزام ہے کہ کلمتی اپنا زیادہ تر وقت کوئٹہ، کراچی یا مسقط میں گزارتے ہیں۔ کلمتی خاندان 1980ء کی دہائی سے گوادر سے صوبائی اسمبلی کی نشست جیت رہا ہے۔ مولانا ہدایت شاید سب سے مضبوط مدمقابل ہیں، جن کا انہیں سالوں میں سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

مولانا ہدایت نے بڑی چالاکی سے گوادر کے عام لوگوں کے مسائل کو اجاگر کیا۔ ضرورت سے زیادہ حفاظتی چوکیوں، ماہی گیروں کو درپیش مسائل، گہرے سمندر میں ٹرالنگ اور سرحدی تجارت پر پابندی جیسے مسائل پر ان کا دلیرانہ موقف بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں گونج اٹھا ہے۔ کلمتی طویل عرصے سے ان مسائل سے دور تھے۔ مولانا ہدایت نے خلا سے فائدہ اٹھایا۔ مولانا ہدایت کو ان کی عوام نوازی کا فائدہ ہو رہا ہے اور ان کی حمایت بڑھ رہی ہے۔ اب انہوں نے لاپتہ افراد کا مسئلہ بھی اٹھانا شروع کر دیا ہے، جس کی روایتی طور پر بلوچ قوم پرست جماعتیں حمایت کرتی رہی ہیں۔ اس طرح مولانا ہدایت تیزی سے مقبولیت کی سیڑھی چڑھ رہے ہیں۔ تاہم ایک خرابی ہے۔

جون میں، سوشل میڈیا پر شیئر کیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی میں جماعت اسلامی کے طلبہ ونگ، اسلامی جمعیت طلبہ کے ہاتھوں بلوچ اور پشتون طلبہ کی پٹائی کا دفاع کیا۔ انہوں نے کہا کہ جمعیت نے صرف عوامی اخلاقیات کو نافذ کیا اور اس معاملے میں بلوچ اور پشتون طلبہ کی غلطی تھی۔ انہوں نے جامعہ بلوچستان کے طلبہ کو مخلوط تعلیم کی کلاسیں لینے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس کے علاوہ انہوں نے سیاسی جماعت کے سربراہ اختر مینگل کے خاندان کو تنقید کا نشانہ بنایا، جس کے ساتھ ان کے حریف کلمتی کا تعلق ہے۔ ان غلطیوں کے نتیجے میں مولانا ہدایت کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی اور بہت سے لوگوں نے ان کی تحریک کی حمایت بند کرنے کا اعلان کیا۔

نقصان کو محدود کرنے کے لیے مولانا ہدایت نے بعد میں اپنے تبصروں کے لیے معذرت کی۔ پھر بھی انہوں نے جمعیت کی مذمت نہیں کی۔ مولانا کی سیاست کی پیروی کرنے والے کچھ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے تبصروں سے اس تجویز کی تصدیق ہوتی ہے کہ وہ اپنے مذہبی ایجنڈے کو خفیہ طور پر آگے بڑھانے کے لیے حقوق کے ایجنڈے کو استعمال کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر مولانا ہدایت نے خود کو ان تبصروں سے دور نہ کیا تو گوادر میں ان کی مزید انتخابی کامیابی کے امکانات نمایاں طور پر کم ہو سکتے ہیں۔

تنقید سے گھبرائے بغیر مولانا ہدایت اپنی سیاست جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ ستمبر کے بعد گہرے سمندر میں ٹرالنگ کے معاملے پر احتجاج کے لیے گوادر میں ایک اور دھرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ تاہم اب کلمتی بھی میدان میں آگئے ہیں۔ انہیں بظاہر احساس ہو گیا ہے کہ اگر اب انہوں نے کوشش نہ کی تو وہ مولانا ہدایت سے اپنی نشست کھو سکتے ہیں۔ ایک سخت سیاسی جنگ سامنے آ سکتی ہے۔

موجودہ سیاسی رجحانات کی بنیاد پر یہ واضح ہے کہ مولانا ہدایت اگلا الیکشن اسی صورت میں جیت سکتے ہیں، جب وہ جماعت اسلامی اور اس کے نظریے سے خود کو دور کر لیں۔ اگر وہ اپنے قدامت پسند ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہیں، جس میں مخلوط تعلیم کی مخالفت بھی شامل ہے، تو انہیں نسبتاً ترقی پسند بلوچ معاشرے میں سیاسی حمایت کبھی نہیں ملے گی۔ مولانا ہدایت کو مذہبی قدامت پرستی کے بارے میں اپنے موقف کے بارے میں واضح طور پر سامنے آنا ہو گا۔ اس معاملے پر ان کی خاموشی سخت مذہبی سیاست سے ان کی وفاداری کا اعتراف قرار پائے گی۔ اگر وہ اس مسئلے سے نمٹنے میں کامیاب ہو گئے توآنے والے سال مولانا ایک منصفانہ اور آزادانہ انتخابات میں جیت سکتے ہیں۔

مولانا ہدایت کے جیتنے یا ہارنے سے قطع نظر، انہوں نے مکران کے خطے میں سیاسی احتساب کا ایک رجحان قائم کیا ہے۔ اگر مولاناہدایت نہ ہوتے تو کلمتی جیسے لوگ صرف ایک مختصر انتخابی مہم کے لیے نمودار ہوتے اور پھر اگلے پانچ سال تک غائب ہو جاتے۔ مولانا کی سڑکوں پر احتجاج کی سیاست نے ماہی گیروں اور گوادر کے لوگوں کو بھی مختلف طریقوں سے ریلیف فراہم کیا ہے۔

(یہ مضمون انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ میں شائع ہوا، جسے ’روزنامہ جدوجہد‘ کے قارئین کیلئے ترجمہ کیا گیا ہے۔ ترجمہ: حارث قدیر)

Adnan Amir
+ posts

صحافی اور محقق عدنان عامر کوئٹہ میں مقیم ہیں۔ بلوچستان کے معروف آن لائن انگریزی جریدے ’بلوچستان وائسز‘ کے مدیر ہیں۔ سیاست، تنازعات اور معیشت ان کے خاص موضوعات ہیں۔