فاروق سلہریا
نوے کی دہائی میں فوج نے دو دو مرتبہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے برخاست کر کے گھر بھیجا۔ پانچ سال پہلے، نواز شریف کو تو تیسری مرتبہ بھی حکومت سے ایک ایسے وقت میں فارغ کیا گیا جب وہ کافی مقبول تھے۔
اسی طرح پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت میں بھی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو فارغ کیا گیا۔ اس کے علاوہ بھی فوج اور پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت (2008-13ء) میں بھی تناؤ موجود رہا جس کا اظہار کئی طرح سے ہوتا رہا۔
اس دوران، 1990ء کے عام انتخابات میں زبردست دھاندلی کے ذریعے بے نظیر بھٹو کو حکومت سے باہر رکھا گیا۔ بعد ازاں، ان انتخابات کو پاکستان کی سپریم کورٹ نے بھی جعلی قرار دیا۔ اس کے باوجود، بے نظیر بھٹو نے 1990ء کی اسمبلی کا بائیکاٹ نہیں کیا۔ وہ بطور قائد حزب اختلاف اسمبلی میں بیٹھیں رہیں۔ سندھ میں کم از کم دو دفعہ (1990ء اور 2002ء) پیپلز پارٹی کے پاس اکثریت تھی مگر اسے حکومت نہیں بنانے دی گئی۔
ہر بار جب نواز شریف کو حکومت سے نکالا گیا، ہر بار جب پیپلز پارٹی کو حکومت سے محروم رکھا گیایا اسے حکومت سے نکالا گیا، شریف خاندان اور بھٹو خاندان تھوڑا بہت شور مچانے کے بعد نظام کو نقصان پہنچائے بغیر حزب اختلاف میں چلے گئے۔
2018ء کے انتخابات کو ہی لیجئے۔ زبردست دھاندلی کی مدد سے ہی عمران خان کو وزیر اعظم بنایا جا سکا۔ اس وقت اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ اسمبلی میں بیٹھنے سے انکار کر دیتے تو ہائبرڈ رجیم کی تشکیل ہی ممکن نہ ہوتی۔ اس کے باوجود دونوں جماعتوں نے سسٹم کو سبوتاژ کرنے کی بجائے اسے چلنے میں مدد فراہم کی۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے برعکس عمران خان فوج کا فرنکنسٹائن ثابت ہوئے ہیں۔ چپ چاپ گھر جانے کی بجائے انہوں نے بغاوت کر دی ہے۔ بیلنس آف پاور کو مد نظر رکھا جائے تو یہی تجزیہ کیا جا سکتا ہے کہ عمران خان کی بغاوت فی الحال تو ناکام ہی ہو گا۔ اگلی حکومت ان کی نہیں بنے گی لیکن فی الحال اس بات کا جواب تلاش کرتے ہیں کہ عمران خان نے بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے برعکس بغاوت کیوں کر دی؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو (بعد ازاں ٓصف زرداری) وراثتی سیاست کرتے ہیں۔ ان دونوں خاندانوں کو صرف یہ نہیں سوچنا کہ ان کی حکومت کا کیا بنا۔ ان کی خواہش یہ بھی ہوتی ہے کہ ان کے بعد ان کی اولاد کے لئے اقتدار تک پہنچنے کے رستے کھلے رہیں۔ وہ کشتیاں جلانے پر یقین نہیں رکھتے۔ ٹراٹسکی کے بقول مراعات کا مزا اس وقت آدھا ہی رہتا ہے جب تک آپ اس قابل نہ ہوں کہ آپ کے بچے بھی ان کو وراثت میں حاصل کر سکیں۔
اس کے برعکس عمران خان وراثتی سیاست کی بجائے شخصیت پرستی کی سیاست کا نمونہ ہیں۔ بوجہ ان کے تینوں بچوں نے پاکستانی سیاست میں نہیں آنا۔ دوم، عمر کے جس حصے میں وہ ہیں، وہاں مزید انتظار کی گنجائش نہیں۔ بلاول بھٹو اور مریم نواز شریف کی طرح ان کے پاس انتظار کا آپشن موجود نہیں۔ یوں ان کی بغاوت ایک طرح سے بائیولوجیکل ڈسپریشن کا بھی اظہار ہے۔
پس ِنوشت: قوم یوتھ کی شخصیت پرستی کی طرح کلٹ ورشپ کتنی ہی اندھی کیوں نہ ہو، بائیولوجی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے۔ جنرل باجوہ تو ریٹائر ہو جائیں گے، صرف حیاتیاتی حقائق کی وجہ سے قوم یوتھ کا مستقبل بہت تاریک ہے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔