لاہور(جدوجہد رپورٹ)طالبان کے افغانستان میں غربت سے تنگ افغان 8سے10سال کی کم عمر بیٹیوں کو شادی کیلئے فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ ’واشنگٹن پوسٹ‘کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ہیرات صوبے کے شاہرکِ سبز علاقے میں قائم خیمہ بستی میں بے گھر افراد نے 118لڑکیوں کو چائلڈ دلہن کے طور پر فروخت کیا اور 116خاندان لڑکیوں کے خریداروں کے انتظار میں تھے۔ یہ سروے 40فیصد خاندانوں کے برابر ہے۔
طالبان حکمرانوں نے 2021کے اواخر میں یہ حکم دیا تھا کہ خواتین کو جائیداد نہیں سمجھا جانا چاہیے اور شادی کیلئے ان کی رضامندی لی جانی چاہیے۔ تاہم عملی طور پر طالبان اقتدار کے بعد کم عمر بچیوں کی شادی کیلئے فروخت کا رجحان کئی گنا بڑھ گیا ہے۔
پورے افغانستان میں کم عمر شادیاں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ جن خاندانوں کو ماضی میں یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ ان کی بیٹیاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اچھا کام تلاش کر کے خاندان کی آمدنی میں حصہ ڈالیں گی، اب وہ مسلسل بڑھتی ہوئی پابندیوں کے تحت مایوس ہو چکے ہیں۔ لڑکیوں کی تعلیم اور کام کاج پر پابندی نے ایک بار پھر انہیں شادی کیلئے فروخت کئے جانے کا راستہ ہموار کر لیا ہے۔ دلہن کے طور پر بچیاں ایک قیمتی شے بن چکی ہیں۔ غربت اور معاشی تنگ دستی کا شکار خاندان ایک بچی کو 2ہزار ڈالر کے عوض کم عمر دلہن کے طورپر فروخت کر دیتے ہیں۔ اس طرح ایک خاندان کے سال بھر کے کھانے پینے کا سامان بن جاتا ہے۔
تاہم اس سب کی قیمت بچیوں کیلئے ایک ڈراؤنے خواب اور ان کی زندگی کو کسی پرائے خاندان کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا ہوتی ہے۔ نئے گھروں میں انہیں گھر کے کام کاج کے علاوہ زبانی، جسمانی اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جانا معمول ہے۔ افغان نو عمر لڑکیوں میں خود کشی اور ڈپریشن بھی بڑھ رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق چائلڈ دلہن کا رجحان بھوک دور کرنے کیلئے فروغ پا رہا ہے۔ 90فیصد افغان بھوک کے مسئلے سے دوچار ہیں۔ رپورٹ میں 6سے 10سال کی نصف درجن لڑکیوں کی مختصر کہانیاں بھی شامل کی گئی ہیں۔ جنہیں کم عمری میں شادی کیلئے فروخت کر دیا گیا۔