لاہور(جدوجہد رپورٹ)’گارڈین‘ نے ایک خاتون انسانی حقوق کارکن کے ساتھ مسلح افراد کی جانب سے طالبان کی جیل میں اجتماعی عصمت دری اور تشدد کے شواہد دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے طالبان کی جیلوں میں ریپ واقعات کی تحقیق کا مطالبہ کیا ہے۔
’گاڑدین‘ کے مطابق ایسی خبریں آتی رہی ہیں کہ افغانستان میں زیر حراست خواتین اور لڑکیوں پر جنسی تشدد کیا جا رہا ہے، لیکن خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ ویڈیو ان جرائم کا پہلا براہ راست ثبوت ہے۔
کارکن کے مطابق موبائل فون کی فوٹیج بعد میں اسے دھمکی کے طور پر بھیجی گئی کہ اگر اس نے طالبان حکومت کے خلاف بات جاری رکھی تواسے وسیع پیمانے پر شیئر کیا جائے گا۔
’گارڈین‘ اور ’رخسانہ میڈیا‘ کی طرف سے دیکھی گئی ویڈیو میں نوجوان خاتون کو فلمایا گیا ہے اور اسے یہ حکم دیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ کپڑے اتار دے، اس کے بعد دو مرد اس کے ساتھ کئی بار زیادتی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ویڈیو مسلح افراد میں سے ہی ایک نے فون پر ریکارڈ کی۔ ویڈیو میں خاتون اپنے ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپنے کی کوشش کرتی نظر آتی ہے۔ ایک مرد اسے زور سے دھکیل رہا ہے۔ ایک موقع پر اسے کہا جاتا ہے کہ ’تم نے کئی سال امریکیوں کے ساتھ جنسی تعلقات رکھے ہیں، اب ہماری باری ہے۔‘
خاتون نے کہا کہ اسے طالبان کے خلاف عوامی احتجاج میں حصہ لینے پر گرفتار کیا گیا تھا اور طالبان کی جیل میں دوران حراست زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس کے بعد وہ افغانستان سے فرار ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جلاوطنی میں طالبان کے خلاف بات کرنے کے بعد انہیں ویڈیو بھیجی گئی اور بتایا گیا کہ اگر وہ حکومت پر تنقید کرتی رہیں تو یہ ویڈیو ان کے خاندان کو بھیج کر سوشل میڈیا پر جاری کر دی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ امارات اسلامی کے خلاف بولتی رہیں گی تو ہم آپ کی ویڈیو شائع کریں گے۔
ان کا خیال ہے کہ یہ حملہ جان بوجھ کر ریکارڈ کیا گیا تھا تاکہ اسے خاموش کرنے اور شرمندہ کرنے کیلئے استعمال کیا جا سکے۔
گزشتہ ہفتے ’گارڈین‘ نے نوعمر لڑکیوں اور نوجوان خواتین کے اکاؤنٹس شائع کئے جن کا کہنا تھا کہ افغانستان کے سخت حجاب کے قوانین کے تحت حراست میں لئے جانے کے بعد ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی اور مارا پیٹا گیا۔
ایک اور معاملے میں طالبان عسکریت پسندوں کے ہاتھوں حراست میں لئے جانے کے چند ہفتوں بعد ایک خاتون کی لاش مبینہ طور پر ایک نہر سے ملی تھی۔ اس کے خاندان کے ایک قریبی ذریعے نے کہا گیا کہ اس کی موت سے قبل اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی تھی۔
افغانستان پر اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے حال ہی میں رپورٹ کیا ہے کہ خواتین کو حراست میں جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اگست2021میں جب سے طالبان نے اقتدار سنبھالا ہے، افغانستان کی 14ملین خواتین اور لڑکیوں پر ’صنفی اپارتھائیڈ‘ کو مسلط کر دیا گیا ہے۔ انہیں عوامی زندگی کے ہر پہلو سے خارج کر دیا گیا ہے۔ خواتین اور لڑکیوں کو سیکنڈری سکول جانے سے روک دیا گیا ہے، تقریباً ہر طرح کی بامعاوضہ ملازمت پر پابندی ہے، انہیں پبلک پارکوں میں چلنے، جم یا بیوٹی سیلون میں جانے سے روک دیا گیا ہے اور سخت ڈریس کوڈ کی تعمیل کرنے کو کہا گیا ہے۔
طالبان نے زنا کی کی پاداش میں خواتین کو سرعام کوڑے مارنیا ور سنگسار کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
’گارڈین‘ کے مطابق متعدد دیگر خواتین مظاہرین اور کارکنوں کے ساتھ بھی بات کی گئی، جنہوں نے یہ الزام عائد کیا کہ انہیں خواتین کے حقوق کا مطالبہ کرنے پر گرفتار کرنے کے بعد تشدد اور مارپیٹ کا سامنا کرنا پڑا۔
30سالہ ظریفہ یعقوبی نے بتایا کہ انہیں نومبر2022میں افغان خواتین کیلئے ایک تحریک منظم کرنے کی کوشش کے بعد41دن کیلئے قید کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے مجھے بجلی کے جھٹکے دیے اور میرے جسم کے ایسے حصوں پر کیبلز سے مارا تاکہ میں کیمرے کے سامنے نہ دکھا سکوں۔ انہیں طالبان کے خلاف احتجاج کرنے کیلئے غیر ملکیوں سے پیسے لینے کا اعتراف کرنے کیلئے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
23سالہ پروانہ نجرابی نے بتایا کہ 2022کے اوائل میں خواتین کے حقوق کیلئے احتجاج کرتے ہوئے طالبان فورسز کے ہاتھوں حراست میں لئے جانے کے بعد انہیں مارا پیٹا گیا اور بجلی کے جھٹکے دیئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے ایک ماہ قید تنہائی میں گزارا اور انہیں ایک خط دکھایا گیا جس میں انہیں سنگسار کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔انکا کہنا تھا کہ ”میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ اسے مار دیا جانا چاہیے۔“ جبری اعتراف کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا اور جلاوطنی کی زندگی گزارنے کیلئے وہ افغانستان سے فرار ہو گئیں۔
اپنی حفاظت کو لاحق خطرات کے باوجود افغانستان کے اندر خواتین اب بھی عوامی مظاہرے کر رہی ہیں اور طالبان حکومت پر تنقید کر رہی ہیں۔ ’رخسانہ میڈیا‘ کے مطابق گزشتہ دو سال میں خواتین اور لڑکیوں کی طرف سے کم از کم 221احتجاج ریکارڈ کروائے گئے ہیں۔
دوسری طرف طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے جیل میں خواتین پر بڑے پیمانے پر جنسی حملوں کے الزامات کی تردید کی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ میں خواتین کے حقوق کے ڈویژن کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر حیدر بار نے کہا کہ ’طالبان جیل کی دیواروں کے پیچھے بدسلوکی کے لئے مکمل استثنیٰ کے ساتھ کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘
انکا کہنا تھا کہ ’طالبان اس بات سے واقف ہیں کہ افغانستان میں جنسی تشدد کے معاملے میں کتنی بدنامی شامل ہے اور یہ کتنا ناقابل یقین حد تک مشکل اور عام طور پر ناممکن ہے کہ جنسی تشدد کے متاثرین آگے آئیں اور اپنی کہانیاں سنائیں۔ یہاں تک کہ بعض اوقات اپنے خاندانوں کو بھی نہیں بتایا جا سکتا، کیونکہ وہاں بھی شرمندگی اور ممکنہ طو رپر غیرت کے نام پر تشدد کا خطرہ رہتا ہے۔‘
یاد رہے رواں ہفتے کے آغاز میں طالبان حکام نے دوحہ میں اقوام متحدہ کی میزبانی میں افغانستان سے متعلق ایک خصوصی اجلاس میں حصہ لیا، جس میں ملک کے مستقبل پر بات چیت کی گئی۔ میٹنگ میں کوئی افغان خاتون موجود نہیں تھی اور خواتین کے حقوق ایجنڈے میں شامل نہیں تھے۔