افغانستان کے صوبہ ہیرات میں سیکڑوں مرد و خواتین اساتذہ نے جمع ہو کر طالبان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں تنخواہیں ادا کی جائیں، گزشتہ 4 ماہ سے اساتذہ کی تنخواہیں ادا نہیں کی گئی ہیں، جس کی وجہ سے شدید معاشی چیلنجوں سے دوچار ہیں۔
’طلوع نیوز‘ کے مطابق ایک سکول ٹیچر لطیفہ علی زئی کا کہنا تھا کہ ”اساتذہ کو اتنی تنخواہ نہیں ملتی کہ وہ پیسے بچا سکیں، انہیں جو تنخواہیں ملتی تھیں ان سے صرف معمول کے اخراجات پورے کئے جا سکتے ہیں۔ اساتذہ اب اپنے بچوں کو خوراک اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔“
سکول ٹیچر ناصر احمد حکیمی کا کہنا تھا کہ ”بہت سے اساتذہ کے پاس بجلی کے بل ادار کرنے کیلئے بھی پیسے نہیں ہیں اور اب ان کے گھروں میں بجلی نہیں ہے۔“ سعادت عاطف کا کہنا تھا کہ ”میری بیٹی ایک ماہ سے بیمار ہے اور میں اسے ڈاکٹر کے پاس نہیں لے جا سکتا۔“
ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق کم از کم 18 ہزار اساتذہ، جن میں 10 ہزار خواتین اساتذہ بھی شامل ہیں، کو گزشتہ 4 ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کی گئی ہیں۔ ٹیچرز ایسوسی ایشن کے سربراہ محمد صابر مشال کا کہنا تھا کہ تمام اساتذہ اور سول ملازمین کو گزشتہ 4 ماہ سے تنخواہ نہیں دی گئی۔
انکا کہنا تھا کہ ”وہ گھریلو سامان بیچ کر زندگی گزارنے کیلئے پیسے جمع کرنے پر مجبور ہیں اور اب ان کے پاس فروخت کرنے کیلئے بھی کچھ نہیں بچا ہے۔“
طالبان کے صوبائی تعلیمی سربراہ شہاب الدین ثاقب کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں اساتذہ کو ایک ماہ کی تنخواہ ادا کی جائیگی، تاہم انہوں نے کوئی حتمی تاریخ نہیں دی۔ یاد رہے کہ افغانستان سے درجنوں اساتذہ طالبان کے قبضے کے بعد ملک چھوڑ کر فرار ہو چکے ہیں۔