عشا خضر وٹو
کیا ہم اپنی زندگی میں کبھی حقیقی خوشی اور سکون حاصل کر سکتے ہیں؟ کیا ہمارا موجودہ سماجی اور معاشی نظام ہمیں خوشحال زندگی گزارنے کی اجازت دیتا ہے؟ یہ سوالات مارکس کے نظریہ بیگانگی(Theory of Alienation)کی بنیاد ہیں۔
بیگانگی، جیسا کہ مارکس نے بیان کیا ہے، ایک ایسی حالت ہے جہاں انسان اپنی محنت، اپنے ارد گرد کے انسانوں اور یہاں تک کہ اپنی ذات سے بھی اجنبی ہو جاتا ہے۔
یاد رہے،بیگانگی کا تصور اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ منظم مذہب، اور یہ تصور تمام بڑے فلسفیانہ رجحانات میں موجود رہا ہے۔ بلجیئم سے تعلق رکھنے والے معروف مارکسی ماہر معاشیات، اور نظریہ دان ارنسٹ مینڈل،جنہوں نے نازیوں کے قبضے کے دوران بیلجیم میں خفیہ مزاحمت میں حصہ لیا، کے مطابق، مارکس نے ہیگل کا مطالعہ کرتے ہوئے بیگانگی کے تصور کا سامنا کیا۔
دلچسپ بات لیکن یہ بیگانہ محنت (labour alienated)کا نظریہ نہیں تھا جسے مارکس نے ابتدائی طور پر ہیگل کے کاموں سے اخذ کیا تھا۔ یہ ریاست کے ساتھ شہری کے تعلقات میں انسان کی اجنبیت تھی جو مارکس کے فلسفیانہ، سیاسی اور سماجی خیاالت کا نقطہ آغاز بنی۔ مثال کے طور پر،-43 1842 کے دوران جرمنی کے رائن صوبے میں بعض چھوٹے چھوٹے واقعات، جیسے لکڑی چوری کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ اور اس چوری کو روکنے کے لئے حکومت کی مداخلت نے مارکس کو یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور کیا کہ ریاست، جو اجتماعی مفاد کی نمائندگی کرنے کا دعو ٰی کرتی ہے، درحقیقت صرف معاشرے کے ایک حصے کے مفادات کی نمائندگی کرتی ہے۔
بہ الفاظ دیگر: ان لوگوں کے مفادات کی جو نجی جائیداد کے مالک ہیں۔ لہذا، انفرادی حقوق کی ریاست کے ہاتھوں ضبطی بیگانگی کا ایک مظہر تھا: لوگوں کے حقوق کا ان اداروں کے ہاتھوں میں ھونا جو حقیقت میں ان کے مخالف تھے۔
بیگانگی ذات (self alienation)ایک انسان کے اندرونی خالی پن کا احساس ہے۔ اس احساس کا مقابلہ کرنا ضروری ہے تاکہ دائمی تنہائی سے نجات حاصل کی جا سکے۔
بیشتر وجودیت کے قائل فلسفی، اس نظریے سے متفق ہیں کہ زندگی مجموعی طور پر بے معنی ہے اور کوئی بھی فرد زندگی کی مکمل تفہیم حاصل نہیں کر سکتا۔ لہذا،بیگانگی بطور انسان ہمارے وجودکے ساتھ جڑی ہوئی ہے کیونکہ لاشعوری طور پر ایک نوع کا اکیلا پن دماغ کو گھیرے رکھتا ہے جبکہ دماغ شعوری طور پر دوسرے جانداروں سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ زندگی کو معنی خیز بنایا جا سکے۔
ذات کی بیگانگی کے علاوہ ایک سماجی بیگانگی ہے۔اس کا مطلب ہے اچانک یہ معلوم ہونا کہ سماجی نظام یا تو جابرانہ ہے یا ہماری خواہشات اور خیالات کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔ بیگانگئی ذات کا مطلب ہے کہ فرد کی ذاتی خواہشات یا رجحانات کا سماجی نمونوں کے ساتھ رابطہ ختم ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے فرد کو سماجی مطالبات کے مطابق کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
مارکس کے مطابق، (طبقاتی)ریاست فرد کی موجودگی کی پرواہ نہیں کرتی۔ ایک ایسی معاشرت میں جہاں لوگوں کے درمیان رابطہ نہیں ہوتا، وہاں آپ صرف ایک الگ تھلگ، تنہا اور اجنبی فرد کے طور پر ریاست سے جڑ ے رہ سکتے ہیں۔ حقیقی جمہوریت میں سیاسی بیگانگی کو قابو میں لایا جا سکتا ہے مگر ایک مطلق طاقت والی ریاست میں یہ ممکن نہیں۔ مارکس کے مطابق، سیاسی بیگانگی سے چھٹکارا پانے کے لئے، سب سے پہلے ہمیں بنیادی بیگانگی جو کہ معاشی بیگانگی ہے، سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔
مارکس کے نظریے میں، معاشی بیگانگی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب سرمایہ دار معاشرت انسان کو صرف جسمانی موجودگی (physical existence) تک محدود کر دیتی ہے، ان کی خود مختاری کو ختم کر دیتی ہے اور انسانی زندگی کو صرف مادی وجود (material existence) کے سفر میں بدل دیتی ہے۔
یہ عمل ایسے سماجی حالات پیدا کرتا ہے جس سے شخصیت کا انتشار اور معاشرتی کرداروں سے بیگانگی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ مارکس کے مطابق، معاشی بیگانگی کا پہلا اور سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ لوگوں کو پیداواری وسائل اور ذرائع معاش کی آزادانہ رسائی سے الگ کر دیا جاتا ہے۔ جب تک کہ آزادانہ رسائی موجود تھی، محنت کش بیگانگی کا شکار نہیں تھا لیکن جب لوگ ان وسائل تک رسائی سے محروم ہو گئے، اور زندہ رہنے کے لیے اپنی محنت کو بازار میں فروخت کرنے پر مجبور ہو گئے، توبیگانگی کی یہ حالت پیدا ہوئی۔
مارکس کے مطابق، بیگانگی کی وجہ یہ ہے کہ مزدور اپنی پیدا کردہ مصنوعات کا مالک نہیں ہوتا اور وہ مصنوعات فیکٹری یا زمین کے مالک کی ملکیت بن جاتی ہیں۔ اس سے مزدور کی زندگی میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ عام طور پر ہر فردمیں کچھ تخلیقی صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ ان صلاحیتوں کا اظہار عملِ محنت (labour process)میں ظاہر ہونا چاہیے لیکن بیگانگئی محنت (alienated labour) کی حالت میں یہ امکانات ختم ہو جاتے ہیں۔
مزید یہ کہ مزدور کی بنائی ہوئی مصنوعات الٹا اُسی کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ مثال کے طور پر،تیسری دنیا میں واقع نائکی (Nike)کی فیکٹری میں موجود مزدور کبھی بھی وہ 100 ڈالر کا جوتا نہیں خرید سکتے جس کو بنانے کے لیے وہ بہت برے حالات میں، بہت کم اجرت پر اپنی تخلیقی صلاحیت کو قربان کرکے کام کرتے ہیں۔ ان کی محنت کے پھل کی قیمت میں انہیں کوئی حصہ نہیں ملتا، جبکہ ان کے بنائے ہوئے مال کا فائدہ فقط متعقلہ برانڈز کو ہوتا ہے۔
بیگانگی کا شکار ایک انسان سماج سے بھی بیگانہ ہو جاتا ہے۔وجہ؟بیگانگئی ذات اور خود آگاہی کی کمی اسے سماج سے بھی بیگانہ کر دیتی ہے۔ مزدور اپنے محنت کے عمل سے بھی اجنبی، اپنی محنت کی پیداوار سے بھی، سماج سے بھی، اور سب سے بڑھ کر خود سے بھی اجنبی ہو جاتا ہے۔
البر کامو (Albert Camus) کے بقول:”ایک دنیا جو منطقی طور پر سمجھائی جا سکتی ہو، چاہے وہ کتنی ہی غلط کیوں نہ ہو، ایک جانی پہچانی دنیا ہے، لیکن ایک کائنات جو اچانک وہم و گمان اور روشنی سے محروم ہو جائے، انسان کو ایک اجنبی بنا دیتی ہے۔ انسان ایک ناقابل علاج جلا وطن بن جاتاہے، کیونکہ وہ کھوئی ہوئی سرزمین کی یادوں سے اتنا ہی محروم ہو جاتا ہے جتنا کہ وہ ایک وعدہ شدہ زمین کی امید سے محروم ہوتا ہے۔ انسان اور اس کی زندگی، اداکار اور اس کے ماحول کے درمیان یہ فرق، لایعنیت کے احساس کی تشکیل کرتا ہے۔“
مارکس کے نزدیک بیگانی کی بنیاد معاشی بیگانگی ہے۔ یہ نظریہ سرمایہ دارانہ معاشرے میں انسان کی محنت اور اس کی پیدا کردہ مصنوعات کے درمیان موجود بُعد اور فاصلے کو بیان کرتا ہے۔ ہیگل کے مطابق، ہر قسم کی مزدوری بیگانی محنت ہوتی ہے کیونکہ کسی بھی معاشرت میں اور کسی بھی حالت میں انسان ہمیشہ اپنی مزدوری کے پیدا کردہ مصنوعات سے الگ رہتا ہے۔ مارکس ہیگل سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بیگانگی ایک خاص معاشرتی تنظیم کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
کیا بیگانگی کا کوئی علاج ہے؟
بطور انسان ہم اپنے وجود کی بنیادوں سے اتنے دور ہو چکے ہیں کہ ہماری انسانیت خود ایک سوال بن گئی ہے۔ کیا ہم دوبارہ اپنی انسانی ماہیت کو پا سکتے ہیں؟ کیا ہم دوبارہ اپنے اندر کی انسانیت کو پانے کی جستجو کرسکتے ہیں؟ مارکس کے مطابق،بیگانگی کا خاتمہ تبھی ممکن ہے جب پیداواری وسائل کی نجی ملکیت ختم ہو جائے، اور مزدوری کی نوعیت کو جبری محنت (forced labour)سے بدل کر تخلیقی اور انسانی سرگرمی میں تبدیل کر دیا جائے۔