لاہور(جدوجہد رپورٹ)پاکستان کی وفاقی حکومت نے مختلف انڈیپنڈنٹ پاور پلانٹس کو رواں مالی سال کے دوران 2091 ارب روپے کی کیپسٹی پے منٹس کرنے کا تخمینہ لگایا ہے۔
’ڈان‘ کے مطابق اس بڑی رقم میں جوہری پلانٹس کے لیے سب سے زیادہ 465 ارب 70 کروڑ روپے کی کیپسٹی پے منٹس کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق پن بجلی پلانٹس کی کیپسٹی پے منٹس کا تخمینہ 446 ارب40 کروڑ روپے ہے، درآمدی کوئلے کے پاورپلانٹس کے لیے کیپسٹی پے منٹس کاتخمینہ 395 ارب40 کروڑ روپے ہے،ھرکول پاور پلانٹس کے لیے256 ارب روپے کی کیپسٹی پے منٹس کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایل این جی پاورپلانٹس کے لیے کیسپٹی پے منٹس کا تخمینہ 168 ارب روپے لگایا گیا ہے، ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹس کے لیے کیپسٹی پے منٹس کا تخمینہ 168 ارب روپے ہے، فرنس آئل والے پاور پلانٹس کے لیے کیپسٹی پے منٹس کا تخمینہ81ارب 33کروڑ روپے ہے۔
ذرائع کے مطابق گیس کے پاور پلانٹس کے لیے کیپسٹی پے منٹس کی مد میں 61 ارب21 کروڑروپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، سولر پاور پلانٹس کی کیپسٹی پے منٹس کا تخمینہ 41 ارب 63 کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ گنے کی پھوک والے پلانٹس کے لیے کیپسٹی پے منٹس کا تخمینہ 6 ارب 90کروڑ روپے ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا تھا کہ بجلی کی پیداواری قیمت 8 سے 10روپے فی یونٹ ہے،جبکہ سب سے بڑا خرچہ 18 روپے فی یونٹ کیپسٹی چارجز کا ہے۔
انہوں نے بتایا تھا کہ بجلی کے ترسیلی نظام کے چارجز فی یونٹ ڈیڑھ سے 2 روپے ہیں،جبکہ ڈسکوز کے اخراجات فی یونٹ 5 روپے پڑتے ہیں، سب سے بڑا خرچہ 18 روپے فی یونٹ کیپسٹی چارجز کا ہے، بجلی کے ریٹ بڑھنے سے بجلی کے استعمال میں کمی آئی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ساہیوال کول پلانٹ کے 2015 میں کیپسٹی چارجز تین روپے فی یونٹ تھے، ڈالر کی قیمت بڑھنے اور شرح سود 22 فیصد تک آنے کی وجہ سے کیپسٹی چارجز بڑھ کر 11 روپے 45 پیسے فی یونٹ ہوگئے۔
وفاقی وزیر توانائی نے بتایا تھا کہ اس وقت توانائی سیکٹر کے قرضوں کا بوجھ بجلی صارفین سے لیا جا رہا ہے، اگر ان پلانٹس کو چلائیں گے تو وہ آپ کو تیل کا خرچہ لگا کر آپ سے پیسے لیں گے، اگر پلانٹس کو نہیں چلائیں گے تو بھی وہ ان پلانٹس کی مد میں اپنا سرمایہ لگانے اور منافع کے پیسے آپ سے لیں گے۔
وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھاکہا کہ پلانٹس پر درآمد شدہ کوئلے کے استعمال کی بجائے مقامی کوئلے کو استعمال کیا جائے تو فی یونٹ دو ڈھائی روپے کمی آئے گی۔ بند پلانٹس پر ساڑھے 7 ارب روپے کی تنخواہیں دی جارہی ہیں۔
انہوں نے بتایا تھا کہ ڈسٹریبویشن کمپنیوں کا 500 سے 600 ارب روپے سالانہ خسارہ ہے۔ اگلے دو سے تین سال میں قبائلی علاقوں اور بلوچستان کے علاوہ دیگر تمام ڈسکوز نجی سیکٹر کو دیں گے۔
اویس لغاری نے کہا تھا کہ ہر سال مہنگائی اور شرح سود کی وجہ سے بجلی کے ریٹ میں ردوبدل ہوتا ہے۔ پچھلے ہفتے بجلی کی قیمت میں 7 روپے فی یونٹ اضافہ ہوا، 2019 کے بعد حکومت نے بجلی کی قیمت مصنوعی طور پر بڑھنے نہیں دی، ماضی کی حکومت نے اپنے سیاسی نقصان سے بچنے کے لیے بجلی کی قیمت نہیں بڑھائی۔
ان کا کہنا تھا کہ بجلی کی قیمت میں حالیہ اضافہ تین سے چار سال بعد ہوا ہے، بجلی کی فی یونٹ قیمت ہر سال آہستہ آہستہ بڑھنی چاہیے تھی۔
تاہم ایک طرف وہ نجی سیکٹر کی لوٹ مار کا حوالہ دے رہے ہیں اور اسکا حل بھی پرائیویٹائزیشن ہی بتا رہے ہیں۔ پرائیویٹ پاور پلانٹس کی کپیسٹی پے منٹس اور لوٹ مار کی وجہ سے بجلی مہنگی ہے۔ اب ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو پرائیویٹائز کرنے سے 5سے 600ارب روپے کا خسارہ بھی ہزاروں ارب روپے میں تبدیل ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔