لاہور(جدوجہد رپورٹ) پاکستان میں معاشی بحران اور آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے تحت سبسڈی میں کٹوتیوں اور ٹیکسوں میں اضافے نے معاشی ترقی کا سلسلہ روک دیا ہے۔ معاشی ترقی نہ ہونے کی وجہ سے روزگار کی تخلیق کا سلسلہ بھی رک گیا ہے اور نوجوانوں میں بیروگاری پھیلتی جا رہی ہے۔ بیرون ملک روزگار ہی اس وقت نوجوانوں کا پہلا ہدف ہے۔ تاہم متحدہ عرب امارات میں پاکستانی محنت کشوں کی ویزا درخواستیں مسترد ہونے کا عمل تیز ہو گیا ہے۔ خلیج میں ویزا پالیسیوں کی سختی کی وجہ سے بیروزگاری کے بڑھنے سمیت ترسیلات زر میں کمی جیسے مسائل بھی بن سکتے ہیں۔
’ٹربیون‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق پاکستان کے شہری مہنگائی اور توانائی کی بلند قیمتوں کا سامنا کر رہے ہیں اور بہت سے پاکستانی بیرون ملک مواقع کو ہی اپنی واحد لائف لائن سمجھتے ہیں۔ تاہم خلیج میں ویزا پالیسیوں میں سختی ان کی مایوسی کو مزید بڑھا رہی ہے۔ یہ پالیسی پاکستان کی معاشی پریشانیوں میں بھی اضافے کا باعث بنے گی۔ پاکستان کے غیر ملکی ترسیلات زر میں کمی کا موجب بھی بنے گی۔
یو اے ای سے سالانہ پانچ ارب ڈالر سے زائد ترسیلات زر پاکستان آتی ہیں، جن میں کمی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی جیسے خطرے کو مزید شدید کر سکتی ہے۔ گھریلو سطح پر روزگار کی تخلیق کی کمی اور بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے غربت میں اضافے، سماجی بدامنی اور غیر یقینی صورتحال مزید بڑھے گی۔
ابوظہبی میں پاکستانی سفارتخانے نے ویزوں پر پابندی کے دعوؤں کی تردید کی ہے۔ تاہم یو اے ای میں پاکستان کے سفیر فیصل ترمذی نے ویزا مسترد ہونے میں غیر معمولی اضافے کو تسلیم کیا ہے۔
پاکستان کو گزشتہ دو سالوں کے دوران ایک تاریخی برین ڈرین کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بگڑتے ہوئے معاشی اور سیاسی حالات ہنر مند اور غیر ہنر مند کارکنوں کو بیرون ملک جانے پر مجبور کر رہے ہیں۔
بیرون ملک بھی منڈی کی ضرورتوں کے مطابق قابلیت کے فقدان کی وجہ سے معیاری روزگار کے حصول سمیت دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔