راولا کوٹ (نامہ نگار) بین الاقوامی میڈیا اداروں نے بھی پاکستان میں ’سیلف سنسرشپ‘ کا راستہ اپنا لیا ہے۔ پاکستانی میڈیا پر پابندیوں کا شکار صحافیوں کیلئے دروازے ان اداروں میں بھی بند ہونا شروع ہو چکے ہیں۔
’انڈپینڈنٹ اردو‘نے معروف اینکر پرسن اور کالم نگار سید طلعت حسین، صحافی و کالم نگار عفت حسن رضوی اور معروف کارٹونسٹ صابر نذر کو مزید شائع کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
پیر کے روز سب سے پہلے سید طلعت حسین نے اپنا انڈیپنڈنٹ میں شائع ہونے والا ایک کالم ٹویٹر پر شیئر کرتے ہوئے اطلاع دی کہ یہ انکا اس ادارے کے ذریعے شائع ہونے والا آخری کالم ہے۔ طلعت حسین نے لکھا کہ ”یہ اس ویب سائٹ کیلئے میرا آخری کالم ہے۔ یہ بھی اب ’مثبت رپورٹنگ‘ کرانا چاہتے ہیں۔“
پیر کے روز ہی عفت حسن رضوی نے بھی یہ اطلاع ٹویٹر کے ذریعے ہی دی کہ انڈیپنڈنٹ نے انکا کالم مزید شائع کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ”انڈیپنڈنٹ اردو کی جانب سے کہا گیا ہے کہ نامعلوم وجوہات کی بنا پر 3 برسوں سے ہفتہ وار چھپنے والا میرا کالم مزید جاری نہیں رہ سکتا۔ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا!“
پیر کے روز ہی معروف کارٹونسٹ صابر نذر نے بھی اپنے فیس بک پیج کے ذریعے اپنے فالوورز کو یہ اطلاع دی کہ انہیں بھی انڈیپنڈنٹ اردو نے کارٹون کی اشاعت سے انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ”مجھے انڈیپنڈنٹ اردو کی طرف سے کہا گیا ہے کہ میرے کارٹون اب شائع نہیں ہونگے، جیسے طلعت حسین اور عفت حسن رضوی کو کہا گیا ہے۔“
یاد رہے کہ ملکی نجی میڈیا پر عائد سنسرشپ کی وجہ سے متعدد معروف و غیر معروف صحافیوں اور اینکروں کو نوکریوں سے فارغ کر دیا گیا تھا۔ سنسرشپ کا شکار ہونے والے ان صحافیوں نے ڈیجیٹل میڈیا کا رخ کرتے ہوئے اپنے یوٹیوب چینل بنا کر اپنی صحافتی خدمات سرانجام دینا کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
تاہم کچھ صحافی ایسے بھی ہیں جو ملکی نجی میڈیا سے فارغ کئے جانے کے بعد برطانیہ، امریکہ، سعودی عرب اور جرمنی سمیت دیگر ملکوں کے میڈیا اداروں کے ساتھ منسلک ہو گئے تھے۔ اب لگتا ہے کہ پاکستان میں کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے بھی سیلف سنسرشپ یا حکومت کی طرف سے مسلط کردہ سنسرشپ کو خوش آمدید کہنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔