مظفرآباد(حارث قدیر) پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں صدارتی آرڈیننس اور کالعدم قرار دی گئی عسکری تنظیموں کی سرگرمیوں کے خلاف آل پارٹیز رابطہ کمیٹی کی کال پر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ جمعہ کے روز دارالحکومت مظفرآباد، راولاکوٹ، بلوچ، منگ اور دھیرکوٹ سمیت دیگر مقامات پر احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔
دھیرکوٹ میں مظاہرین اور پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا۔ دوسری جانب گرفتاریوں کے لیے پولیس چھاپوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ کوٹلی میں آج ہونے والے احتجاج کو روکنے کے لیے پولیس کا گشت اور گرفتاریوں کے لیے چھاپوں کا سلسلہ گزشتہ شب گئے تک جاری رہا۔
ادھر قانون ساز اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کی تیاریاں بھی شروع کر دی گئی ہیں۔ امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ 3دسمبر کو اسمبلی اجلاس میں صدارتی آرڈیننس منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔ زیادہ امکان ہے کہ اسمبلی ممبران آرڈیننس کو منسوخ کرنے کے لیے ووٹ کریں گے۔
آزادی پسند اور ترقی پسند تنظیموں پر مشتمل آل پارٹیز رابطہ کمیٹی کی قیادت نے جمعہ کے روز ڈیڈ لائن پورے ہونے کے بعد مطالبات میں اضافہ کرتے ہوئے وزیراعظم چوہدری انوار الحق سے مستعفی ہونے اور اسمبلی تحلیل کرنے کا مطالبہ کر دیاہے۔
مجموعی طور پر 16 رکنی چارٹر آف اٹانومی جاری کرتے ہوئے حکومت کو 9 دسمبر تک عملدرآمد کی ڈیڈ لائن دی گئی۔ 10 دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن کو موقع پر ریاست گیر احتجاج اور بیرون ملک احتجاجی مظاہرے کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔
دھیرکوٹ میں مظاہرین پر تشدد کی مذمت کی گئی اور تمام مقدمات ختم کر کے گرفتار رہنماؤں کو فی الفور غیر مشروط رہا کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
جاری کیا گیا 16 رکنی چارٹر آف ڈیموکریسی درج ذیل ہے:
01۔ وزیراعظم چوہدری انوارالحق فی الفور اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان کریں اور خود مستعفی ہوں۔
02۔ آزاد، خودمختار اور غیر جانبدارالیکشن کمیشن قائم کیا جائے جو آئین ساز اسمبلی کے لیے انتخابات کا انعقاد کروائے،تاکہ خطے کے اندر عوام کی حقیقی نمائندہ،جمہوری اور بااختیار حکومت قائم ہو سکے،جو وسائل کو عادلانہ اور منصفانہ بنیادوں بروئے کار لا کر تعلیم، صحت، روزگار، انفراسٹرکچر سمیت مسائل کو حل کرے اور جموں کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو قومی اور بین الاقوامی محاذ پر منظم اور فتح یاب بنانے کے لیے لائحہ عمل مرتب کرے۔
03۔ پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈیننس 2024ایک کالاقانون ہے،جسے فی الفور منسوخ کیا جائے۔
04۔ کالعدم قرار دی گئی مذہبی دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی جائے اور 13ستمبر 2024ء کو راولاکوٹ میں مذہبی منافرت، فساد فی الارض پھیلانے، دہریت کے فتوے اور قتل کی دھمکیاں دینے، سرعام اسلحہ کی نمائش کر کے عوام کو دہشت زدہ کرنے والوں کے خلاف دی گئی درخواست کے مطابق ایف آئی آر درج کر کے قانونی کارروائی کی جائے۔
05۔ 13 مئی 2024 کو رینجرز کی فائرنگ سے شہید ہونے والے تین نوجوانوں کے قتل کی ایف آرآئی آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈر،رینجرز کے ذمہ داران، وزیراعظم، وزیر داخلہ اور چیف سیکرٹری کے خلاف درج کی جائے۔
06۔ 25اگست2022ء سے اب تک عوامی حقوق تحریک کے سلسلہ میں درج کیے گئے تمام مقدمات واپس لیے جائیں اور گرفتار ساتھیوں کو غیر مشروط رہا کیا جائے۔
07۔ معاہدہ کراچی، ایکٹ1974کو منسوخ کیا جائے، اور لینٹ افسران کو واپس بھیجا جائے۔
08۔ مہاجرین جموں کشمیر مقیم پاکستان کے نام پر12نشستیں اس خطے کے عوام کے حق نمائندگی اور معیشت پر ڈاکہ ہیں۔ یہ نشستیں سامراجی مرضی و منشاء کے تحت حکومتیں بنانے اور توڑنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں، اس لیے ان نشستوں کو فوری ختم کیا جائے۔
09۔ مہاجرین جموں کشمیر مقیم پاکستان کے نام پرسرکاری ملازمتوں میں مختص19فیصد سے زائد کوٹہ فوری ختم کیا جائے۔
10۔ نیشنل گرڈ اسٹیشن کا قیام عمل میں لایا جائے۔ جموں کشمیر میں پیدا ہونے والی بجلی مقامی ضرورت کے مطابق اس گرڈ میں محفوظ رکھی جائے۔ باقی ماندہ بجلی اور پانی کے پاکستان میں استعمال کے لیے اس خطے کے عوام کے ساتھ معاہدے کیے جائیں۔
11۔ حکمران اشرافیہ،ججوں اور بیوروکریٹوں کی مراعات کو ختم کر کے بچنے والی رقم عوامی فلاحی منصوبوں پر خرچ کی جائے۔
12۔ تمام فلور ملز اور گندم ٹرانسپورٹ کے نظام کو ریاستی تحویل میں لے کر آٹا فراہمی کے لیے ڈیجیٹل نظام قائم کیا جائے، تاکہ کرپشن کا خاتمہ ہو اور سستا آٹا ساری آبادی کو میسر آسکے۔
13۔ جموں کشمیر بینک کو شیڈول کیا جائے اور خطے میں قائم نجی بینکوں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے 25فیصد ڈپازٹس ریاست کے اندر سرمایہ کاری کے لیے قرضوں کی صورت میں خرچ کریں۔
14۔ گرین ٹورازم کے نام پر فوج کو سیاحتی زمینیں دینے کا منصوبہ ترک کیا جائے اور عوامی شراکت داری سے سیاحتی مقامات کو ترقی دی جائے۔ غیر ملکی سیاحوں کو بغیر شرائط جموں کشمیر کے تمام علاقوں تک رسائی دی جائے۔ اس مقصد کے لیے تینوں ڈویژنل صدر مقامات پر ایئرپورٹ فعال کیے جائیں۔
15۔ بیرون ملک مقیم کشمیریوں کی جانب سے ارسال کیا جانے والے غیر ملکی زرمبادلہ پر پہلا حق اس خطے کے لوگوں کا ہے۔ اس زرمبادلہ کے استعمال سے انڈسٹری قائم کی جائے اور زراعت، باغبانی اور سیاحت کے شعبہ میں سرمایہ کاری کر کے مقامی سطح پر روزگار کے ذرائع پیدا کئے جائیں۔
16۔ طلبہ یونین کے الیکشن شیڈول کا اعلان کیا جائے اور تمام شعبہ جات کے محنت کشوں کو ٹریڈ یونین کا حق دیا جائے۔
قبل ازیں پاکستانی زیرانتظام جموں کشمیر کی حکومت نے ’پیسفل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈیننس 2024‘ قانون ساز اسمبلی کے اگلے اجلاس میں پیش کرنے کی تحریک کر دی۔
قانون ساز اسمبلی کا اگلا اجلاس اگلے ہفتے شروع ہونا ہے۔ اجلاس باضابطہ طور پر ابھی طلب نہیں کیا گیا۔ تاہم اسمبلی سیکرٹریٹ نے منگل 3 دسمبر کو اجلاس کے انعقاد کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔
زیادہ امکان یہی ہے کہ 3 دسمبر کو اسمبلی میں صدارتی آرڈیننس پیش کیا جائے گا اور ممبران اسمبلی نے اگر اس کے حق میں ووٹ دیا تو یہ آرڈیننس مستقل قانون بن جائے گا۔تاہم اگر ممبران اسمبلی اس آرڈیننس کو مسترد کرتے ہیں تو یہ آرڈیننس ختم ہوجائے گا۔
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ یہ آرڈیننس اس خطے میں نافذ عبوری آئین ایکٹ1974ء کی عین روح کے مطابق ہے۔ ایکٹ1974 میں ہونے والی تیرہویں ترمیم کے مطابق جموں کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے نظریے پر یقین نہ رکھنے والی کسی سیاسی جماعت کو سیاسی سرگرمیاں کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ نہ ہی ایسی تنظیموں کی رجسٹریشن کی جا سکتی ہے۔ ایک 1974 میں ہی پابندی عائد کی گئی ہے کہ آزادی اظہار ریاست کی جانب سے عائد کی گئی معقول پابندیوں کے اندر رہ کر ہی ممکن ہے۔ ان معقول پابندیوں میں نظریہ الحاق پاکستان، قومی سلامتی کے ادارے، پاکستان اور جموں کشمیر کی مظفرآباد حکومت کی سالمیت سمیت دیگر کچھ امور کی مخالفت میں بات کرنے پر پابندیاں شامل ہیں۔
اس صدارتی آرڈیننس کے خلاف اس خطے کی اکثریتی آبادی کی نمائندہ قوتوں نے احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔ سیاسی قیادتوں نے بھی اسے مسترد کر کے کالا قانون قرار دیا ہے۔ طلبہ تنظیموں اور ملازم تنظیموں نے بھی اسے کالا قانون قرار دیا ہے۔
اب قانون ساز اسمبلی کے عوامی نمائندے کہلانے والے ممبران کا یہ امتحان ہے کہ وہ عوام کی اجتماعی رائے کا احترام کرتے ہیں یا کسی ان دیکھی قوت کی رائے کے احترام میں اس آرڈیننس کو باضابطہ قانون بنانے کے لیے ووٹ دیتے ہیں۔