اسرائیل دوترا
اسرائیل دوترا نے بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد شام کی صورتحال کے بارے میں سوئس شامی کارکن اور ماہر تعلیم یوسف داہر کا انٹرویو کیا، جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
بشار الاسد شام سے فرار ہو چکے ہیں۔ اس واقعے نے بہت سے لوگوں کو حیران کیا اور واقعی ایک بڑی تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہے۔ کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے؟
یوسف داہر: ہیئت تحریر الشام(ایچ ٹی ایس) اور ترکی کی حمایت یافتہ شامی نیشنل آرمی (ایس این اے) نے 27نومبر کو شامی حکومت کی افواج کے خلاف ایک فوجی مہم شروع کی، جس میں شاندار کامیابیاں حاصل کیں۔ ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں ایچ ٹی ایس اور ایس این اے نے حلب اور ادلب کے بیشتر گورنریٹس کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اس کے بعد دمشق سے 210 کلومیٹر شمال میں واقع شہر حماروسی فضائیہ کی حمایت یافتہ حکومتی افواج کے خلاف شدید فوجی تصادم کے بعد ایچ ٹی ایس اور ایس این اے کے قبضے میں چلا گیا۔ حما کے بعد ایچ ٹی ایس نے حمص کا بھی کنٹرول سنبھال لیا۔
شروع میں شامی حکومت نے حما اور حمص میں کمک بھیجی اور پھر روسی فضائیہ کے تعاون سے ادلب اور حلب اور اس کے اطراف کے شہروں پر بمباری کی۔ یکم اور دو دسمبر کو ادلب پر 50 سے زیادہ فضائی حملے ہوئے۔ کم از کم 4 صحت کی سہولیات، 4 اسکول کی سہولیات، دو نقل مکانی کیمپ، اور ایک واٹر اسٹیشن متاثر ہوئے۔ فضائی حملوں سے 48,000 سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے اور خدمات اور امداد کی ترسیل میں شدید خلل پڑا۔ آمر بشار الاسد نے اپنے دشمنوں کو شکست دینے کا وعدہ کیا تھا اور کہا تھا کہ”دہشت گردی صرف طاقت کی بات کو سمجھتی ہے“، لیکن ان کی حکومت پہلے ہی ہر جگہ سے ٹوٹ رہی تھی۔
جب حکومت شہر کے بعد شہر کھو رہی تھی، سویدا اور درعا کے جنوبی گورنروں نے خود کو آزاد قرار دے دیا۔ ان کی مقبول اور مقامی مسلح اپوزیشن فورسز، جو کہ ایچ ٹی ایس اورایس این اے سے الگ اوردور ہیں، نے کنٹرول حاصل کر لیا۔ اس کے بعد حکومتی افواج دارالحکومت دمشق سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع علاقوں سے پیچھے ہٹ گئیں اور انہوں نے قنیطرہ صوبے میں اپنی پوزیشنیں چھوڑ دیں، جو گولان کی پہاڑیوں سے متصل ہے اور اس کی سرحد اسرائیل کے قبضے میں ہے۔
جیسے ہی حزب اختلاف کی مختلف مسلح افواج، جن میں ایچ ٹی ایس اور ایس این اے شامل نہیں تھیں، دمشق کے قریب پہنچیں تو حکومتی افواج ٹوٹ کر پیچھے ہٹ گئیں۔ دمشق کے مختلف مضافات میں مظاہرے شروع ہو گئے اور اسد خاندان کی تمام علامتوں کو جلانے کا عمل بڑھ گیا۔ 7اور 8 دسمبر کی درمیانی شب اعلان ہوا کہ دمشق آزاد ہو گیا ہے۔ بشار الاسد کی قسمت اور مقام ابتدائی طور پر معلوم نہیں تھے، لیکن کچھ معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ماسکو کی حفاظت میں روس میں ہیں۔
1970 کی دہائی سے شام پر حکمرانی کرنے والے اسد کے خاندان کے خاتمے کے تاریخی اعلان کے بعد ہم نے ملک بھر میں مقبول مظاہروں کی ویڈیوز دیکھیں، جن میں دمشق، طرطوس، حمص، حما، حلب، قمیچلی، سویدا وغیرہ شامل ہیں۔ مظاہرین میں تمام مذہبی فرقوں اور نسلوں کے افراد شامل تھے اور اسد خاندان کے مجسموں اور علامتوں کو تباہ کیا جا رہا تھا۔
بلاشبہ حکومت کی جیلوں سے سیاسی قیدیوں کی آزادی ایک بڑی خوشخبری ہے، خاص طور پر صیدنایا جیل سے قیدیوں کو رہا کیا گیا۔ اس جیل کو’انسانی ذبح خانے‘کے نام سے جانا جاتا ہے، جس میں 10سے20ہزار قیدی ہوسکتے ہیں۔ ان قیدیوں میں سے کچھ 1980 کی دہائی سے حراست میں ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ جو 2016 یا اس سے قبل حلب اور دیگر شہروں سے بے گھر ہوئے تھے وہ اپنے گھروں اور محلوں میں واپس آنے کے قابل ہوئے ہیں، اور سالوں میں پہلی بار اپنے خاندانوں کو دیکھ رہے ہیں۔
دیگر عناصر کے علاوہ، حکومت کا زوال دو اہم حرکیات کی عکاسی کرتا ہے۔
سب سے پہلے شامی حکومت کے اہم اتحادیوں کو کمزور کیا گیا ہے۔ روسی فوجی دستے 2022 سے یوکرین کے خلاف اپنی سامراجی جنگ پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں اور اس مقصد کے لیے کچھ افواج اور وسائل کی نقل مکانی جاری تھی۔ اس لیے شام میں روس کی شمولیت اب تک حالیہ برسوں میں اسی طرح کی فوجی کارروائیوں کے مقابلے میں کافی حد تک محدود رہی ہے۔ ایران اور خاص طور پر لبنانی جماعت حزب اللہ غزہ کی پٹی اور لبنان کے خلاف حال ہی میں اسرائیل کی جنگ کے بعد کافی حد تک کمزور ہوئی ہے۔ تل ابیب نے گزشتہ چند مہینوں میں شام میں ایرانی اور حزب اللہ کے ٹھکانوں پر بمباری کی مہم میں بھی اضافہ کیا ہے۔ حزب اللہ کو یقینی طور پر اپنی بنیاد کے بعد سے سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ حسن نصر اللہ سمیت اہم عسکری اور سیاسی رہنماؤں کا قتل ہوا، جنہوں نے 32 سال تک پارٹی پر حکومت کی، اور ساتھ ہی اس کا عسکری ڈھانچہ بھی نمایاں طور پر کمزور ہوا ہے۔
دوسرا، حکومت کے زوال نے اس کی ساختی کمزوری کو ثابت کیا۔ فوجی، اقتصادی اور سیاسی طور پریہ حکومت تاش کے گھر کی طرح منہدم ہو گئی۔ یہ شاید ہی حیران کن ہے کیونکہ یہ واضح نظر آرہا تھا کہ فوجی اپنی کم اجرت اور حالات کے پیش نظر اسد حکومت کے لیے لڑنے والے نہیں ہیں۔ انہوں نے ایسی حکومت کا دفاع کرنے کی بجائے بھاگنے یا نہ لڑنے کو ترجیح دی،جس کے لیے وہ بہت کم ہمدردی رکھتے تھے۔ خاص طور پر اس لیے کہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو زبردستی بھرتی کیا گیا تھا۔
مستقبل کے لیے بہت سارے چیلنجز ہیں، لیکن کم از کم امید واپس آگئی ہے۔ ماضی میں ایچ ٹی ایس اورایس این اے کی پالیسیوں کو دیکھا جائے تو انہوں نے جمہوریت کی گنجائش کو ترقی دینے کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ وہ بالکل اس کے برعکس آمرانہ رہے ہیں۔ ایسی قوتوں پر بھروسہ نہیں کیا جانا چاہیے۔ جمہوری اور ترقی پسند مطالبات کے لیے لڑنے والے مقبول طبقات کی صرف سیلف آرگنائزیشن ہی اس گنجائش کو پیدا کرے گی اور حقیقی آزادی کی طرف راستہ کھولے گی۔ اس کا انحصار جنگی تھکاوٹ سے لے کر جبر، غربت اور سماجی عدم استحکام تک بہت سی رکاوٹوں پر قابو پانے پر ہوگا۔
آپ کی کتاب ’شام بغاوتوں کے بعد‘حال ہی میں برازیل میں شائع ہوئی ہے۔ کیا آپ ہمیں اس کتاب کے بارے میں تھوڑا سا بتا سکتے ہیں، کیونکہ یہ 2011 کی عرب بہار کے درمیان شام میں ہونے والے واقعات کو دیکھنے والے بہترین مارکسی کاموں میں سے ایک ہے۔
یوسف داہر: آپ کے ان الفاظ کا شکریہ۔ کتاب کا مقصد حکومت کی دفاعی صلاحیت اور ابتدائی عوامی بغاوت کی ناکامیوں کو سمجھنے کی کوشش کرنا تھا۔ ساتھ ہی ان رد انقلابی عوامل پر بھی گہری نظر ڈالنا تھا جو بغاوت کو باہر اور اندر سے کمزور کر رہے ہیں۔ کلیدی تاریخی پیش رفتوں کے سرسری تذکرے کے ساتھ میں نے متعدد علاقائی اور بین الاقوامی اداکاروں کے ساتھ ایک پرامن بغاوت کو تباہ کن جنگ میں تبدیل کرنے کی وجوہات پر توجہ مرکوز کی۔
اس نئی صورتحال کے درمیان تنازعات میں اہم گروہ کون سے ہیں؟ آپ شامی اپوزیشن کے اہم اداکاروں کو کس طرح بیان کریں گے جنہوں نے ابھی اسد حکومت کا تختہ الٹ دیا ہے؟
یوسف داہر: ایچ ٹی ایس کی قیادت میں ایک فوجی مہم میں حلب، حما، حمص اور دیگر علاقوں کا کامیاب قبضہ کئی طریقوں سے اس تحریک کے کئی سالوں میں سیاسی اور عسکری دونوں لحاظ سے ایک زیادہ نظم و ضبط اور زیادہ منظم تنظیم میں تبدیل ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔ اب یہ ڈرون تیار کر سکتے ہیں اور ملٹری اکیڈمی چلا سکتے ہیں۔ایچ ٹی ایس پچھلے کچھ سالوں میں جبر اور شمولیت کے دونوں طریقوں کے ذریعے فوجی گروہوں کی ایک مخصوص تعداد پر اپنی بالادستی مسلط کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ ان پیش رفتوں کی بنیاد پر اس نے خود کو اس حملے کے لیے تیار کیا۔
یہ اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں ایک نیم ریاستی اداکار بن گئی ہے۔ اس نے شامی سالویشن گورنمنٹ(ایس ایس جی) کے نام سے ایک حکومت قائم کی ہے، جو ایچ ٹی ایس کی سول انتظامیہ کے طور پر کام کرتی ہے اور خدمات فراہم کرتی ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں ایچ ٹی ایس اور ایس ایس جی کی طرف سے اپنی حکمرانی کو معمول پر لانے کے لیے علاقائی اور بین الاقوامی طاقتوں کے سامنے خود کو ایک عقلی قوت کے طور پر پیش کرنے کے لیے واضح آمادگی ظاہر کی گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں کچھ این جی اوز کو تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال جیسے اہم شعبوں میں کام کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ جگہ ملی ہے، جن میں ایس ایس جی کے پاس مالی وسائل اور مہارت کی کمی ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے زیر اقتدار علاقوں میں کوئی بدعنوانی موجود نہیں ہے۔ اس نے آمرانہ اقدامات اور پولیسنگ کے ذریعے اپنی حکمرانی کو نافذ کیا ہے۔ ایچ ٹی ایس نے خاص طور پر دبایا ہے یا محدود سرگرمیوں کو بھی وہ اپنے نظریے کے خلاف سمجھتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایچ ٹی ایس نے خواتین اور خاص طور پر کیمپ کے رہائشیوں کی حمایت کرنے والے کئی منصوبوں کو اس بہانے سے روک دیا کہ یہ صنفی مساوات کے خیالات کو فروغ دیتے ہیں، جو اس کی حکمرانی کے خلاف تھے۔ ایچ ٹی ایس نے سیاسی مخالفین، صحافیوں، کارکنوں، اور ان لوگوں کو بھی نشانہ بنایا اور حراست میں لیا جنہیں وہ ناقدین یا مخالفین کے طور پر دیکھتے تھے۔
ایچ ٹی ایس کو اب بھی امریکہ سمیت کئی طاقتوں نے ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر درجہ بند کر رکھا ہے۔وہ اب پہچان حاصل کرنے کی کوشش میں اپنی ایک زیادہ معتدل تصویر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ اب ایک معقول اور ذمہ دار کردار ہے۔ یہ تبدیلی2016 میں القاعدہ کے ساتھ اس کے تعلقات کے ٹوٹنے اور شام کے قومی فریم ورک کے اندر اس کے سیاسی مقاصد کی ازسرنو تشکیل کے بعد ارتقاء پذیر ہوئی ہے۔ اس نے القاعدہ اور نام نہاد اسلامک اسٹیٹ سے منسلک افراد اور گروہوں کو بھی دبایا ہے۔
فروری 2021 میں ایک امریکی صحافی کے ساتھ اپنے پہلے انٹرویو کے دوران ایچ ٹی ایس کے رہنما ابو محمد الجولانی، یا احمد الشعراء (اصل نام) نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ان کے زیر اقتدار علاقے بیرون ملک کارروائیوں کا اڈہ نہیں بنیں گے، یہ اعلان کیا کہ جس خطے پر ان کا کنٹرول ہے وہ ”یورپ اور امریکہ کی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں ہے۔“ بین الاقوامی منظر نامے پر خود کو ایک جائز بات کرنے والے کے طور پر بیان کرنے کی اس کوشش میں انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں گروپ کے کردار پر زور دیا۔ اس تبدیلی کے حصے کے طور پر ایچ ٹی ایس نے کچھ علاقوں میں عیسائیوں اور دروز کی واپسی کی اجازت دی ہے اور ان کمیونٹیز کے کچھ رہنماؤں کے ساتھ رابطے قائم کیے ہیں۔
حلب پر قبضے کے بعد ایچ ٹی ایس نے خود کو ایک ذمہ دار کردارکے طور پر پیش کرنا جاری رکھا۔ مثال کے طور پر ایچ ٹی ایس کے جنگجوؤں نے فوری طور پر بینکوں کے سامنے ویڈیوز پوسٹ کیں اور یہ یقین دہانی کروائی کہ وہ نجی املاک اور اثاثوں کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے شہریوں اور اقلیتی مذہبی برادریوں، خاص طور پر عیسائیوں کے تحفظ کا وعدہ بھی کیا، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس کمیونٹی کی قسمت کا بیرون ملک قریب سے جائزہ لیا جاتا ہے۔
اسی طرح ایچ ٹی ایس نے کردوں اور اسلامی اقلیتوں جیسے اسماعیلیوں اور دروزوں کے اسی طرح کے تحفظ کا وعدہ کرتے ہوئے متعدد بیانات دیے ہیں۔ انہوں نے علویوں کے حوالے سے ایک بیان جاری کیا جس میں ان سے حکومت سے علیحدگی اختیار کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ تاہم یہ بات کہے بغیر کہ ایچ ٹی ایس ان کی حفاظت کرے گی یا ان کے مستقبل کے بارے میں کچھ واضح طور پر نہیں کہا گیا۔ اس بیان میں ایچ ٹی ایس نے علوی برادری کو شامی عوام کے خلاف حکومت کا ایک آلہ کار بھی قرار دیا ہے۔
آخر میں الجولانی نے کہا ہے کہ حلب شہر کا انتظام مقامی اتھارٹی کرے گی، اور آنے والے ہفتوں میں تمام فوجی دستے بشمول ایچ ٹی ایس مکمل طور پر شہر سے نکل جائیں گے۔ یہ واضح ہے کہ الجولانی مقامی، علاقائی اور بین الاقوامی طاقتوں کے ساتھ فعال طور پر روابط قائم کرنا چاہتے ہیں۔
تاہم، یہ اب بھی ایک کھلا سوال ہے کہ آیا ایچ ٹی ایس ان بیانات پر عمل کرے گی یا نہیں۔ ایچ ٹی ایس ایک آمرانہ اور رجعت پسند تنظیم رہی ہے جس کا اسلامی بنیاد پرست نظریہ ہے، اور اب بھی اس کی صفوں میں غیر ملکی جنگجو موجود ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں میں ادلب میں اس کی حکمرانی اور سیاسی آزادیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں بشمول قتل اور مخالفین کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے خلاف بہت سے مقبول مظاہرے ہوئے ہیں۔
مذہبی یا نسلی اقلیتوں کو برداشت کرنا یا انہیں نماز پڑھنے کی اجازت دینا کافی نہیں ہے۔ اہم مسئلہ ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں حصہ لینے والے مساوی شہری کے طور پر ان کے حقوق کو تسلیم کرنا ہے۔ عام طور پر الجولانی کے بیانات یقین دلانے والے نہیں بلکہ اس کے بالکل برعکس ہیں،جیسے کہ وہ کہتے ہیں ”وہ لوگ جو اسلامی طرز حکمرانی سے ڈرتے ہیں یا تو اس کے غلط نفاذ کو دیکھ چکے ہیں یا اسے صحیح طور پر نہیں سمجھتے۔“
ترکی کی حمایت یافتہ ایس این اے مسلح گروہوں کا اتحاد ہے،جوزیادہ تر قدامت پسند اسلامی سیاست کرتے ہیں۔ اس کی بہت بری شہرت ہے اور یہ انسانی حقوق کی متعدد خلاف ورزیوں کی مجرم تنظیم ہے، خاص طور پر ان کے زیر کنٹرول علاقوں میں کرد آبادیوں پر مظالم کے لیے شہرت رکھتی ہے۔ انہوں نے خاص طور پر 2018 میں عفرین پر قبضے کے لیے ترکی کی زیر قیادت فوجی مہم میں حصہ لیا، جس کے نتیجے میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ شہریوں کو جبری بے گھر ہونا پڑا، جن میں سے اکثریت کردوں کی تھی۔
موجودہ فوجی مہم میں ایک بار پھر ایس این اے بنیادی طور پر کردوں کی زیرقیادت شامی دفاعی فورسز (ایس ڈی ایف) کے زیر کنٹرول علاقوں اور کردوں کی بڑی آبادی والے علاقوں کو نشانہ بنانے میں ترکی کے مقاصد کی تکمیل کررہی ہے۔ مثال کے طور پرایس این اے نے شمالی حلب کے شہر تل رفعت اور شہبا کے علاقے پر قبضہ کر لیا ہے، جو پہلے ایس ڈی ایف کے زیرِ انتظام تھا۔ اس حملے کے نتیجے میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ شہریوں کو جبری نقل مکانی کرنا پڑی اور کرد افراد کے خلاف انسانی حقوق کی بہت سی خلاف ورزیاں ہوئیں، جن میں قتل اور اغوا ء بھی شامل ہیں۔ اس کے بعد ایس این اے نے منبج شہر پرایک فوجی حملے کا اعلان کیا، اس حملے میں بھی اسے ترک فوج کی حمایت حاصل تھی۔ یہ شہرایک لاکھ شہریوں کا گھر ہے اور ایس ڈی ایف کے زیر کنٹرول ہے۔
ایچ ٹی ایس اور ایس این اے کے درمیان اختلافات بھی ہیں۔ ایچ ٹی ایس کوایس این اے کے برعکس ترکی سے نسبتاً خود مختاری حاصل ہے۔ ایس این اے ترکی کے زیر کنٹرول ہے اور اس کے مفادات کو پورا کرتی ہے۔ دونوں قوتیں مختلف ہیں، الگ الگ اہداف کا تعاقب کرتی ہیں، اور ان کے درمیان تنازعات ہیں، حالانکہ اس لمحے کے لیے ان کوپس پشت رکھا گیا ہے۔ مثال کے طور پرایچ ٹی ایس فی الحال ایس ڈی ایف کا مقابلہ کرنے کی کوشش نہیں کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ ایس این اے نے ایچ ٹی ایس کے خلاف ایک تنقیدی بیان شائع کیا، جس میں ایس این اے اراکین کے خلاف ’جارحانہ رویے‘پر تنقید کی گئی۔ دوسری جانب ایچ ٹی ایس نے مبینہ طور پرایس این اے کے جنگجوؤں پر لوٹ مار کا الزام لگایا۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے، جنوب میں مسلح اپوزیشن گروپوں میں مختلف قسم کی مقامی مسلح افواج شامل ہیں۔ مثال کے طور پر درعا میں بہت سے سابقہ گروپ ہیں جنہوں نے فری سیریئن آرمی کے لیبل کے تحت کام کیا۔
ملک کے شمال اور مشرق میں تمام علاقوں کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے ایس ڈی ایف کے پاس جو وزن ہے اس کے پیش نظر آپ کردوں کے مسئلے کے بارے میں ہمیں کیا بتا سکتے ہیں؟
یوسف داہر: جن حرکیات کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے، ان کے ساتھ ساتھ دیگر نے شام کے شمال کو شام میں کردوں کے مسئلے کے مضمرات کے ساتھ شامل کیا ہے۔ ایس این اے نے سب سے پہلے شمالی حلب میں ایس ڈی ایف کے زیر کنٹرول علاقوں پر حملے کیے اور پھر 8 دسمبر کو ترک فوج، فضائیہ اور توپ خانے کی مدد سے ایس ڈی ایف کے زیر کنٹرول شہر منبج میں داخل ہوئے۔
دوسراایس ڈی ایف نے دیر الزور گورنری کے زیادہ تر حصے پر قبضہ کر لیا ہے، جو پہلے شامی حکومت کی فورسز اور ایران نواز ملیشیاؤں کے زیر کنٹرول تھا۔ وہ ایچ ٹی ایس اور ایس این اے کے خلاف لڑنے کے لیے دوسرے علاقوں میں دوبارہ تعیناتی کے لیے اس علاقے سے دستبردار ہو گئے تھے۔ اس کے بعدایس ڈی ایف نے شمال مشرق کے وسیع حصّوں پر اپنا کنٹرول بڑھا لیا جو پہلے حکومت کے زیر تسلط تھے۔
ایس ڈی ایف کے زیر کنٹرول علاقے خطرات کی زد میں ہیں۔ اب حکومت کے زوال کے ساتھ ترکی کا اثر شام میں اور بھی زیادہ اہم ہے،اور غالباً اسے ملک کا اہم علاقائی کرداربنا دیتا ہے۔ انقرہ ایس ڈی ایف کا مقابلہ کرنے اور اسے کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایس ڈی ایف پر کرد ڈیموکریٹک یونین پارٹی (پی وائے ڈی) کے مسلح ونگ کا غلبہ ہے، جو ترکی کی کرد پارٹی، کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کی ایک سسٹر آرگنائزیشن ہے۔ اسے انقرہ، امریکہ اور یورپی یونین نے دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔
ترکی کے دو اور اہم مقاصد ہیں۔ سب سے پہلے اس کا مقصد ترکی میں موجود شامی پناہ گزینوں کی جبری واپسی کو انجام دینا ہے۔ دوسرا، وہ خود مختاری کے لیے کردوں کی خواہشات سے انکار کرنا چاہتے ہیں اور خاص طور پر شمال مشرقی شام میں کرد زیر قیادت انتظامیہ کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ شمالی اور مشرقی شام کی خود مختار انتظامیہ (جسے روجاوا بھی کہا جاتا ہے) ترکی کے اندر کردوں کی خود ارادیت کے لیے ایک مثال قائم کرے گی، جو ترک حکومت کے لیے ایک خطرہ ہے۔
درحقیقت عربوں اور کردوں کے درمیان ملک کی مرکزی نسلی تقسیم سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ ترقی پسند قوتوں کو اس تقسیم پر قابو پانے اور ان آبادیوں کے درمیان یکجہتی قائم کرنے کے لیے عرب شاؤنزم کے خلاف واضح جدوجہد کرنی چاہیے۔ یہ 2011 میں شامی انقلاب کے آغاز سے ہی ایک چیلنج رہا ہے اور ملک کے عوام کو صحیح معنوں میں آزاد کرنے کے لیے اس کا مقابلہ اور ترقی پسندانہ انداز میں حل کرنا ہوگا۔
جمہوریت، سماجی انصاف اور مساوات کے لیے شام کے انقلاب کی اصل خواہشات کی طرف لوٹنے کی اشد ضرورت ہے۔شام میں ہونے والی پیش رفت پر بین الاقوامی جغرافیائی سیاست کا کیا اثر پڑا ہے، مثال کے طور پر روسی سامراج کو یوکرین اور فلسطین اور لبنان میں جاری نسل کشی کے خلاف اپنی توانائیاں لگانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ شام میں جو کچھ ہوا ہے اس کے سب سے زیادہ ممکنہ فوری اثرات کیا ہیں؟
یوسف داہر: روس اور ایران دونوں نے ابتدائی طور پر حکومت کی حمایت کا وعدہ کیا تھا، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔حکومت کے کنٹرول سے باہر کے علاقوں پر روسی بمباری کے باوجود باغیوں کی پیش قدمی کو روکا نہیں جا سکا۔
شام میں دونوں طاقتوں کو بہت کچھ کھونا ہے۔ ایران کے لیے شام حزب اللہ کو ہتھیاروں کی منتقلی اور لاجسٹک کوآرڈینیشن کے لیے اہم ہے۔ یہ دراصل حکومت کے خاتمے سے پہلے افواہ تھی کہ لبنانی جماعت نے حمص میں حکومت کے فوجی دستوں کی مدد کے لیے”نگرانی کے دستے“کی ایک چھوٹی سی تعداد اور 2ہزارفوجیوں کو قصیر شہر بھیج دیا تھا۔ یہ لبنان کی سرحد کے ساتھ شام میں اس کے مضبوط گڑھوں میں سے ایک ہے۔ تاہم جیسے جیسے حکومت گر رہی تھی، اس نے اپنی فوجیں واپس بلا لیں۔
شام کے صوبہ لطاکیہ میں روس کا حمیمیم ایئربیس اور ساحل پر طرطوس میں اس کی بحری تنصیب روس کے لیے مشرق وسطیٰ، بحیرہ روم اور افریقہ میں اپنے جغرافیائی سیاسی اثر و رسوخ پر زور دینے کے لیے اہم مقامات رہے ہیں۔ ان اڈوں کے کھو جانے سے روس کی حیثیت کو نقصان پہنچے گا کیونکہ شام میں اس کی مداخلت کو ایک مثال کے طور پر استعمال کیا گیا ہے کہ وہ کس طرح اپنی سرحدوں سے باہر ہونے والے واقعات کو شکل دینے اور مغربی ریاستوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے فوجی طاقت کا استعمال کر سکتا ہے۔ ہم دیکھیں گے کہ شام میں اقتدار میں آنے والی نئی قوتوں اور روس کے درمیان کیا ہوگا۔بصورت دیگر یہ بتانا ابھی مشکل ہے کہ حکومت کے زوال کا علاقائی اور سامراجی حرکیات پر کیا اثر پڑے گا۔ امریکہ اور مغربی ریاستوں کے لیے اب بنیادی مقصد ڈیمیج کنٹرول ہے تاکہ خطے میں پھیلنے والی افراتفری کو روکا جا سکے۔ حکومت کے خاتمے کے بعد امریکی حکام نے اعلان کیا کہ وہ مشرقی شام میں تقریباً 900 فوجیوں کی صورت اپنی موجودگی برقرار رکھیں گے، اور دولتِ اسلامیہ کے دوبارہ سر اٹھانے کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات کریں گے۔ ان کے بقول انھوں نے شام کے مختلف علاقوں پر بمباری کی جو داعش کو نشانہ بناتے ہیں۔
ان کی طرف سے اسرائیلی حکام نے اعلان کیا کہ”اسد حکومت کا خاتمہ ممکنہ طور پر افراتفری پیدا کرے گا،جس میں اسرائیل کے خلاف فوجی خطرات پیدا ہوں گے۔“ مزید برآں اسرائیل نے 2011 میں انقلاب کی کوشش تک واپس آنے تک شام کی حکومت کے خاتمے کی کبھی حمایت نہیں کی۔ جولائی 2018 میں اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے بشارالاسد کے ملک کا کنٹرول واپس لینے اور اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیل نے جنوبی شام اور دارالحکومت دمشق میں ہتھیاروں کے ڈپوؤں پر بمباری کی ہے اور گولان کی پہاڑیوں کے شام کے زیر کنٹرول علاقوں میں حملہ کیا ہے۔
علاقائی عرب ریاستیں واضح طور پر موجودہ صورتحال سے مطمئن نہیں ہیں، کیونکہ وہ گزشتہ چند سالوں میں حکومت کے ساتھ معمول پر آنے کے عمل میں داخل ہوئے تھے۔
ترکی کا بنیادی مقصد شام میں اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کو مستحکم کرنا اور شمال مشرق میں کرد زیر قیادت رواجاسے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔ ترکی کے اعلیٰ سفارت کار نے دراصل 8 دسمبر کو کہا تھا کہ ترک ریاست شام میں باغیوں کے ساتھ رابطے میں ہے، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ اسلامک اسٹیٹ اور خاص طور پر پی کے کے دمشق حکومت کے زوال کا فائدہ اٹھا کر اپنا اثر و رسوخ نہ بڑھا سکے۔
ایک اضافی اثر ایران کے علاقائی اثر و رسوخ کا کمزور ہونا ہے، اور اسی طرح حکومت کے زوال کے ساتھ لبنان میں حزب اللہ کاکمزور ہونا ہے۔ یہ تہران اور اس کے لبنانی اتحادی کے لیے ایک اہم دھچکا ہے۔
تاہم مختلف طاقتوں کا ایک مشترکہ مقصد ہے کہ شام اور خطے میں آمرانہ استحکام کی ایک شکل مسلط کی جائے۔ یقینا اس کا مطلب علاقائی اور سامراجی طاقتوں کے درمیان اتحاد نہیں ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے اپنے اور اکثر مخالف مفادات ہوتے ہیں، لیکن وہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں عدم استحکام نہیں چاہتے۔