فاروق سلہریا
یہ مضمون پہلی مرتبہ 2005ء میں دی نیوز میں شائع ہوا۔ اسے معمولی رد و بدل کے ساتھ اردو ترجمے میں پیش کیا جا رہا ہے۔
گیارہ ستمبر کے فوری بعد عالمی میڈیا میں اکثر اسامہ بن لادن کا خوفناک حد تک خوب صورت چے گویرا سے مقابلہ کیا جاتا تھا۔ یہ موازنہ چے کے ساتھ انتہائی زیادتی تھی۔ یہ اس لئے زیادتی کی بات نہیں تھی کہ چے کی کیپ بن لادن کی پگڑی سے زیادہ مسحور کن ہے۔ بہت سے ایشیائی اور افریقی ممالک میں پگڑی احترام کی علامت ہے۔ پگڑی بھی اتنی ہی مسحور کن ہے جتنی کہ کیپ یا ہیٹ۔ کوئی لباس کسی بھی کلچر سے تعلق رکھتا ہو، وہ کسی دوسرے کلچر کے لباس سے کمتر نہیں۔
سرمایہ داری نے امیج کو بھی تجارت بنا دیا ہے۔ عالمی کارپوریٹ میڈیا نے پگڑی اور داڑھی کو القاعدہ سٹائل بنیاد پرست اسلام کی علامت بنا کر رکھ دیا ہے۔
قصہ مختصر، چے اور بن لادن کا موازنہ پگڑی اور کیپ کی وجہ سے زیادتی قرار نہیں دیا جا رہا۔
چے کا بن لادن سے موازنہ اس لئے زیادتی ہے کہ چے کی سامراج مخالفت اور بن لادن کی ’امریکہ دشمنی‘ کا آپس میں کوئی موازنہ اور جوڑ نہیں۔
چے کی سامراج مخالفت سے مراد ہے: قومی آزادی، عورتوں کی آزادی، جمہوریت، سماجی و معاشی ترقی، اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کا خاتمہ اور ان کا تحفظ، محکوم قوموں کے لئے حق خود ارادیت۔ گویا سامراج مخالفت سے مراد ہے آزادی۔ تمام محکوموں کی ہر طرح کے جبر سے آزادی۔
اس کے برعکس بن لادن یا آیت اللہ خمینی کی ’سامراج دشمنی‘ میں اُن آزادیوں کو تو بالکل برداشت نہیں کیا جاتا جن کے لئے چے گویرا لڑتا رہا۔ سامراج مخالفت تو علامت ہی آزادی کی ہے۔ آپ اپنی آزادی کا تحفظ کرتے ہیں اور دوسروں کی آزادی کا احترام۔ آپ آزادی کی ہر جدوجہد سے عملی یکجہتی کرتے ہیں۔ اس لئے سامراج مخالفوں کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ بیک وقت جابر بھی ہوں اور محکوم بھی، ظالم بھی ہوں اور مظلوم بھی۔
اسامہ بن لادن جس ’سامراج دشمنی‘ کا پوسٹر بوائے ہے اس کا تضاد ہی یہ ہے کہ وہ ایک محاذ پر امریکہ کے خلاف تو مظلوم بن کر لڑتی ہے مگر اپنے اپنے ملک میں سامراج سے بھی زیادہ بے رحم اور جابرانہ ثابت ہوئی ہے۔
اس ’سامراج دشمنی‘ کے نظارے ہم طالبان کے دور میں افغانستان میں، خمینی اور اس کے جانشینوں والے ایران کے علاوہ داعش کی اسلامی ریاست میں دیکھ چکے ہیں۔ سوات کا ذکر بھی کیا جا سکتا ہے جہاں مولوی فضل اللہ کے ’انقلابی سپاہی‘بے گناہ عورتوں اور اے این پی کے کارکنوں کی لاشیں چوک میں لٹکا دیا کرتے تھے۔
ان سب ممالک یا علاقوں میں عورتوں کو برقعوں میں قید کر دیا گیا [داعش کے کیس میں غیر مسلم عورتوں کا درجہ لونڈی کا تھا] جبکہ اقلیتوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ لوگوں کے پاس نہ روٹی رہی نہ عزتِ نفس۔
یہ بھی ایک کھلا راز ہے کہ بعض مولوی حضرات اور سامراج میں موجودہ دشمنی در اصل دو سابق عاشقوں میں ناراضی والا معاملہ ہے۔ ایک دور تھا مولوی اور امریکہ مل کر مسلم دنیا سے حقیقی سامراج مخالف قوتوں کے خلاف سر گرم عمل تھے۔ یہ وہ دور تھا جب مسلم دنیا میں سامراج مخالفت کی علامت سیکولر قوم پرست، سوشلسٹ اور کمیونسٹ تھے: مصر میں جمال عبدلاناصر، انڈونیشیا میں سائیکارنو، ایران میں مصدق، عراق میں قاسم، لیبیا میں [ابتدائی طور پر قذافی]، فلسطین میں پی ایل او اور پاکستان میں بھٹو۔
لگ بھگ چار دہائیوں تک عوام کے سامراج مخالف شعور اور جذبات کا اظہار ان رہنماؤں کی شکل میں ہوتا رہا۔
یہ رہنما بھی آسمان سے نہیں آ ٹپکے تھے۔ یہ سب ایک انقلابی عہد کی پیداوار تھے۔ انڈونیشیا کی کمیونسٹ پارٹی (کے پی آئی) ساٹھ کی دہائی میں کمیونسٹ بلاک سے باہر دنیا کی سب سے بڑی اشتراکی جماعت تھی۔ یہ کے پی آئی کی پشت پناہی تھی کہ سائیکارنو نے بندونگ کانفرنس کرانے کی جرات کی تھی۔
قاسم نے بھی اگر بغدادمعاہدے سے علیحدہ ہونے کا اعلان کیا تو اس لئے کہ انہیں عراقی کمیونسٹ پارٹی کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ ان دنوں عراقی کمیونسٹ پارٹی عرب دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی۔
مصدق نے برطانوی سامراج سے ٹکر لے کر ایران کا تیل قومی ملکیت میں لیا تو اس لئے کہ انہیں ملک کی سب سے منظم اور عوامی جماعت طودہ (کمیونسٹ پارٹی) کی حمایت حاصل تھی۔
پاکستان میں شہریوں نے عوامی تحریک کی صورت میں جنرل ایوب کو رسوا کر کے ایوانِ اقتدار سے رخصت کیا اور ووٹ کی طاقت سے سوشلزم کا نعرہ لگانے واے بھٹو کو ایوان اقتدار میں پہنچا دیا۔ اسی عوامی اعتماد کی بنیاد پربھٹو نے نسبتاً آزادانہ خارجہ پالیسی بھی بنائی، نیشنلائزیشن کی اور دو دفعہ زرعی اصلاحات کا ڈول ڈالا۔
(ان سب رہنماؤں اور سیاسی جماعتوں پر تنقید بھی موجود ہے جس کی تفصیل پھر کسی وقت سہی)
مسلم دنیا کی اس قیادت کو راستے سے ہٹانا ضروری تھا کیونکہ اس نے سرد جنگ کے دوران اس عالمی ڈھانچے کا انجر پنجر ہلا دیا تھا جو کلونیل ازم اور سامراج نے دو سو سال لگا کر اس خطے میں کھڑا کیا تھا۔
مصدق کو 1953ء میں ایک خونی بغاوت کے ذریعے ہٹایا گیا۔ سی آئی نے یہ بغاوت شاہ ایران، اشرافیہ اور آیت اللہ حضرات کی مدد سے منظم کی۔ اس دور میں سی آئی اے نے آیت اللہ حضرات کو پانچ ملین ڈالر دئے تا کہ وہ پرتشدد گڑ بڑ منظم کرا سکیں۔ یوں سی آئی اے کی سرپرستی میں شاہ کو تخت پر ملک واپس لا کر بحال کیا گیا۔
ساٹھ کی دہائی میں انڈونیشیا اور عراق میں، لگ بھگ بیک وقت، خون کی ہولی کھیلی گئی۔ ایڈونیشیا میں فوج نے مولویوں کے ساتھ مل کر، سی آئی اے کی سرپرستی میں، کے پی آئی کے دس لاکھ ارکان اور حامیوں کا خون کیا۔ سی آئی اے نے ناموں کی فہرستیں فراہم کیں۔
عراق میں بعث پارٹی (جی ہاں صدام حسین والی بعث پارٹی) نے 1963ء اور پھر 1967-68ء کے دوران، سی آئی اے کی آشیر باد سے کمیونسٹوں کا قتل عام کیا۔ عراق میں چونکہ ملاں حضرات کی کوئی سماجی و سیاسی بنیاد اُن دنوں موجود نہ تھی اس لئے بعث پارٹی کے ساتھ اشتراک کیا گیا۔
مصر میں انور سادات نے ناصر عہد کی اصلاحات ہی ختم نہیں کیں بلکہ مصری لیفٹ کو ختم کرنے کے لئے اخوان المسلمین اور اسلامی جہاد کی سرپرستی شروع کی [مارا بھی انہی کے ہاتھوں گیا]۔
افغانستان کی کہانی تو قارئین کو معلوم ہی ہو گی: اسامہ بن لادن کو سی آئی اے نے ڈاکٹر نجیب کی حکومت ختم کرنے کے لئے ریکروٹ کیا تھا۔ ویسے موجودہ نسل کے لئے شائد یہ بات کسی علمی بم دھماکے سے کم نہ ہو کہ آخری ملک جہاں سوشلسٹ انقلاب آیا وہ ایک مسلمان ملک یعنی افغانستان تھا۔ افغانستان کو اس سرکشی کی سزا یہ ملی کہ سامراج نے مذہبی جنونیوں کے ساتھ مل کر اس ملک کو آگ اور خون میں جھونک دیا۔ یہ سزا چالیس سال ہو گئے، ختم ہونے میں نہیں آ رہی۔
گویا جگہ جگہ سامراج اور مولویوں کا اتحاد بنا ہو اتھا [سنی بنیاد پرستی کی آماجگاہ اور خلیج میں سعودی عرب اسرائیل سے بھی پرانی داشتہ ہے]۔
جب سوشلسٹ اور کمیونسٹ جماعتیں اور قوم پرست قیادتیں راستے سے ہٹا دی گئیں تو خمینی، ملا عمر اور بن لادن سامنے آ گئے۔
ان ’سامراج دشمنوں‘ کی ’سامراج دشمنی‘ ہے کیا؟
امریکی سفارت خانے کو یرغمال بنا لو، ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں بم پھوڑ دو، مہاتما بدھ کے مجسمے گرا دو۔ اس قسم کے اقدامات سے وائٹ ہاؤس یا ٹیں ن ڈاؤننگ اسٹریٹ کے رہائشیوں کو تھوڑی دیر سر میں درد تو ضرور ہوتا ہے لیکن اس درد سر کا اس خوف سے کوئی موازنہ نہیں جس میں سامراج اس وقت مبتلا ہوا تھا جب جمال عبدالناصر نے نہر سویز کو قومی ملکیت میں لیا تھا، مصدق نے تیل کو نیشنلائز کیا تھا، سائیکارنو نے بندونگ کانفرنس بلائی تھی یا بھٹو نے ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے سے انکار کر دیا تھا [واضح رہے راقم ایٹمی پروگرام کے سخت خلاف ہے]۔
مسلم دنیا ہی نہیں، تیسری دنیا میں کہیں بھی اس قسم کی سامراج مخالفت سامنے آتی ہے تو سامراج کے پیٹ میں شدید مروڑ اٹھنے لگتا ہے۔ اس لئے کاسترو، شاویز یا مورالس بھی ناقابل برداشت ہیں۔ ڈاکٹر الاندے تو جان سے گئے۔ اتفاق سے ان کے خلاف جس دن سی آئی کی سرپرستی میں چلی کی فوج نے خونی بغاوت کی اس دن بھی گیارہ ستمبر تھا۔
ایسی سامراج مخالفت جو تیل کو قومی ملکیت میں لینے کی بات نہ کرے (اسامہ بن لادن نے کبھی سعودی تیل امہ کی ملکیت میں دینے کی بات کی نہ کبھی جنوب ایشیا سے آئی لیبر کے استحصال پر اعتراض کیا)، زرعی اصلاحات نہ کرے، مزدوروں کو ٹریڈ یونین میں منظم نہ کرے اور عورت کی آزادی کے خلاف پدر شاہی سے نہ لڑے، ایسے سامراج مخالفوں سے سامراج کو کوئی خطرہ نہیں۔
مذہبی جنونیوں کی سامراج مخالفت کا مطلب ہے مزدوروں، کسانوں کی تنظیموں کی تباہی، اقلیتوں اورعورتوں پر جبر، میڈیا اور سول سوسائٹی کی تباہی۔ سامراج بھی تو یہ سب کچھ چاہتا ہے کیونکہ جہاں ٹریڈ یونین نہ ہوگی، شہری بے بس اور حقوق سے محروم ہوں گے، ایسے ملک سامراجی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لئے جنت ہوتے ہیں۔ خوب لوٹ مار کرو، کوئی روکنے ٹوکنے اور بولنے والا نہیں۔
مذہبی جنونیوں نے مسلمان ملکوں میں مردوں اور عورتوں کو مذہب کے نام پر گونگا، بہرا اور لولا لنگڑا بنا کر مسلم دنیا کو سامراجی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لئے جنت بنا دیا ہے۔ مذہبی جنونی سعودی عرب کے ہوں یا ایران کے، دونوں نے سامراج کے گماشتے کا کردار ادا کیا ہے۔ اس لئے اگر کبھی بظاہر یہ’سامراج مخالفت‘ کرتے نظر بھی آتے ہیں تو ان کی سامراج دشمنی در حقیقت احمقوں کی سامراج مخالفت ہے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔