پاکستان

بولتے کیوں نہیں میرے حق میں، آبلے پڑ گئے زباں میں کیا

لاہور (جدوجہد رپورٹ) گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ طویل سیاسی قید کاٹنے والے مقبول رہنما، جو نو سال سے پابند سلاسل ہیں، کی بہن شگفتہ خانم گفتو نے ان کی رہائی کے لئے مندرجہ ذیل اپیل اپنے فیس بک پر جاری کی ہے:

”کتنا مشکل ہوگا وہ عرصہ اُس ماں کے لیے جس کا لختِ جگر پچھلے 9 سالوں سے پابندِسلاسل ہے۔ کامریڈ بابا جان کی والدہ پچھلے 9 سالوں سے حکومت، ریاست اور عدلیہ کے اعلیٰ عہدیداروں سے اپنے بے قصور بیٹے کے لیے انصاف کی امید لگا کے بیٹھی ہیں۔ بے گناہ لختِ جگر کے ساتھ ہونے والے ظلم نے ماں کو شدید تکلیف پہنچائی ہے۔ پچھلے 7 دنوں سے وہ شدید بیمار ہیں۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ شدید ڈپریشن کی وجہ سے طبیعت بہت خراب ہوئی ہے اور ان کو ذہنی سکون کی سخت ضرورت ہے۔ میں بابا جان کی بہن آج گلگت بلتستان سمیت پاکستان اور دنیا بھر کے انسان دوست اور انسانی حقوق کے علمبرداروں اور اہل گلگت بلتستان سے اپیل کرتی ہوں کی وہ اس ماں کے بے گناہ بیٹے کو انصاف فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اپنے آپ کو غیور اور باغیرت قوم کے بیٹے کہنے والو میرے گلگت بلتستان کے تمام لوگو کیوں خاموش ہو؟ کیا قصور ہے بابا جان کا…کس کو قتل کیا ہے؟ کس پر حملہ کیا ہے؟ انصاف اور حق کی بات کرنے والو! آج کیوں منہ بند ہیں آپ سب کے…تم تو کہتے ہو ڈوگرہ کو بھگانے والے غیرت مند آباؤ اجداد کی اولاد ہو…آج کیوں بابا جان کے لیے آپ کی غیرت نہیں جاگتی؟ یہ سوالات ایک بیگناہ اور بے قصور قیدی جو پچھلے 9 سالوں سے گاہکوچ جیل میں بندہے، اس کی ماں اور بہن کے سوالات ہیں…یہ قیدی اِس قوم اور عام عوام کے لیے بند ہے۔ اپنی ذات یا اپنے گھر کے لیے نہیں۔ میری اپیل ہے کہ اب ہمارے بھائی کے لیے آواز اٹھائیں۔ بے گناہ بابا جان کو حکمرانوں کی قید سے چھڑا کر اس کے ماں باپ کے پاس لانے میں اپنا کردار ادا کریں۔“

ذیل میں ہم بائیں بازو کے معروف رہنما اور جدوجہد ادارتی بورڈ کے رکن فاروق طارق کے ایک پرانے مضمون کا اقتباس پیش کر رہے ہیں جس میں وہ اپنے پرانے ساتھی بابا جان بارے بتاتے ہیں:

بابا جان کون ہے؟

بابا جان ایک نوجوان سیاسی رہنما ہیں جو لیبر پارٹی پاکستان میں 2003ء میں شمولیت سے قبل پیپلز سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے رہنما تھے۔ لیبر پارٹی میں شمولیت کے بعد بابا جان نے گلگت بلتستان میں پروگریسو یوتھ فرنٹ کو مقبول بنا دیا۔ جب لیبر پارٹی پاکستان نے 2012ء میں دیگر دو پارٹیوں سے مل کے عوامی ورکرز پارٹی کی بنیاد رکھی تو وہ اس کے نائب صدر منتخب ہوئے۔

باباجان پروگریسو یوتھ فرنٹ کے پلیٹ فارم سے بھاشا ڈیم مخالف تحریک میں پیش پیش رہے۔ وہ اور ان کے ساتھیوں نے اس غرض سے جب ایک احتجاجی مظاہرہ کیا تو پارک ہوٹل گلگت کے سامنے ان پر پولیس نے بہیمانہ تشدد کیا اور کئی افراد کو کینٹ تھانے کے حوالات میں بند رکھا۔ مگر بابا جان اور ان کے ساتھیوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔

2005ء کی فرقہ وارانہ کشیدگی میں انہوں نے لیبر پارٹی کی مدد سے گلگت میں امن کانفرنس کی بنیاد رکھی اور لوگوں کو پیغام دیا کہ وہ امن کا دامن تھامے رکھیں اور فسادات کی بجائے مل کر اپنے حقوق کے لئے کام کریں۔

2005ء میں ہی وہ گلگت بلتستان کی قوم پرست اور ترقی پسند جماعتوں کے اتحاد جی بی ڈی اے میں شامل ہوئے اور متعدد جلسے جلوسوں میں اپنی پرجوش تقریروں کی وجہ سے نوجوانوں میں مقبول ہوگئے۔ سینکڑوں نوجوانوں نے ان کی تنظیم جوائن کی۔

وہ سوست ڈرائی پورٹ سے میر فیملی کو بے دخل کرانے کی تحریک میں بھی پیش پیش رہے۔ اس دوران وہ جلسے جلوس کرتے رہے۔ انہوں نے ہنزہ کے لئے قانون ساز اسمبلی میں اضافی نشستوں کی بات 2001ء سے کرنی شروع کی تھی جس کے لئے انہوں نے متعدد بار احتجاجی مظاہرے کئے اور ان پر مقدمات بھی بنتے رہے۔

4 جنوری 2010ء کو سانحہ عطا آباد جھیل ہوا۔ بابا جان نے عطا آباد جھیل کے متاثرین بارے ایک مہم چلائی کہ منصفانہ طور پر ان کے نقصان کو پورا کیا جائے۔ جب پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیرِ اعلیٰ کے خلاف عطا آباد جھیل متاثرین نے احتجاج کیا تو پولیس نے علی آباد میں گولی چلا کر باپ بیٹے کو شہید کر دیا۔

بابا جان نے اس پولیس گردی کے خلاف ایک زبردست مہم چلائی اور ذمہ داران کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان کو گرفتار کرنے کی بجائے بابا جان کے خلاف دہشت گردی کے الزامات لگا کر کئی مقدمات درج کیے گئے اور پھر ان کو گرفتار کر لیا گیا۔

13 مہینے جیل میں گزارنے کے بعد باباجان ضمانت پر رہا ہوئے۔ ان کی رہائی پر نوجوانوں نے جشن منایا اور پاکستان بھر میں موجود گلگت بلتستان کے نوجوانوں اور ترقی پسند جماعتوں نے ان کی جدوجہد کو سلام پیش کیا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر انہوں نے نوجوانوں کی سیاسی تر بیت کے لئے جگہ جگہ خصوصی نشستوں کا اہتمام کیا۔ وہ اس مقصد سے گلگت بلتستان کے کونے کونے میں گھومتے رہے اور پاکستان کے دیگر شہروں میں موجود گلگت بلتستان کے نوجوانوں سے بھی رابطہ کیا۔

وہ اپنے سوشلسٹ اور غریب پرور نظریات کی وجہ سے نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرنے میں کامیاب ہوئے اور آج بھی گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں ان کے چاہنے والے نوجوان بڑی تعداد میں موجود ہیں‘ جو ان کی آواز پر لبیک کہتے ہیں۔

2013ء میں گندم کی سبسڈی کی بحالی کے لئے جب عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان بنی تو بابا جان کو ضلع ہنزہ نگر کی ذمہ داری مل گئی۔ انہوں نے وہاں تاریخی مظاہروں کا انعقاد کیا اور عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریک میں پیش پیش رہے۔ جس کے نتیجے میں حکومت نے سبسڈی بحال رکھی۔ 2014ء میں ان کی ضمانت منسوخ ہوئی اور وہ دوبارہ جیل چلے گئے۔ اس دوران انسداد دہشت گردی کی عدالت نے تین مقدمات میں مجموعی طور پر ان کو 71 سال کی سزا سنائی۔ وہ اس وقت بھی جیل میں سزا کاٹ رہے ہیں اور اپنی سزا کے فیصلے کے خلاف عدالت عالیہ میں اپیل دائر کر رکھی ہے جو زیر ِسماعت ہے۔

جب 2015ء میں ہنزہ کی سیٹ پر انتخاب ہوا تو بابا جان نے جیل سے انتخاب میں حصہ لیا اور دوسرے نمبر پر رہے۔ جب اسی سیٹ پر دوبارہ ایک ضمنی انتخاب ہوا تو بابا جان ایک انتہائی پاپولر امیدوار کے طور پر ابھرے۔ اس دوران اس انتخاب کو بار بار ملتوی کیا گیا تا کہ بابا جان یہ سیٹ جیت نہ لے۔ پھر جب ان کی مقبولیت کو ختم نہ کیا جا سکا تو سپریم کورٹ کے ذریعے ان کی معطل سزا کو بحال کرا دیا گیا کہ وہ انتخاب میں حصہ نہ لے سکیں۔

بابا جان کی رہائی کے لئے دنیا کے 45 ممالک میں احتجاج یا پارلیمانی قراردادیں پیش ہو چکی ہیں۔ وہ ایک سیاسی قیدی ہیں جن کی رہائی کا مطالبہ اقوام متحدہ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی کر چکی ہے۔ ان کی رہائی کی ایک پٹیشن پر 2017ء سے اب تک دنیا بھر کے ہزاروں دانشوروں، ممبران پارلیمنٹ، پروفیسروں، سیاسی رہنماؤں، ٹریڈ یونینوں اور نوجوانوں نے دستخط کیے ہیں۔ ان میں نوبل انعام جیتنے والے لوگ بھی شامل تھے اور نوم چومسکی اور طارق علی بھی۔

ان کی سپریم کورٹ میں ریویو پٹیشن کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ پورے ملک کے ترقی پسند افراد ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

Roznama Jeddojehad
+ posts