فاروق طارق
اپوزیشن پارٹیوں کی 26 جون کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس نے سینیٹ کے چیئرمین کو ہٹانے اور 26 جولائی کو لاہور میں ایک بڑا جلسہ کرنے کے علاوہ کوئی اور اہم فیصلہ نہ کیا۔
عوامی رابطہ مہم چلانے کے نام پر موجودہ تحریک انصاف حکومت کے خلاف عوامی تحریک چلانے سے گریز کیا گیا اور اس بات پر کافی اختلاف رائے تھا کہ تحریک چلائی جائے یا ابھی خاموشی اختیار کی جائے۔
جمعیت علمائے اسلام کے زیر اہتمام یہ کانفرنس جو آٹھ گھنٹے تک جاری رہی‘ اس عوامی موڈ کا موثر انداز میں اظہار نہ کر سکی جو اس وقت تحریک انصاف حکومت کے مسلسل عوام دشمن اقدامات کیخلاف ملک بھر میں تیزی سے ابھر رہا ہے۔
مولانا فضل الرحمان کی جانب سے اس کے مشترکہ اعلامیہ میں مذہبی کارڈ کو بلاول بھٹو کی مخالفت کی بنیاد پر نہ کھیلا گیا۔ مولانا فضل الرحمان اسلام آباد میں فوری طور پر دھرنے کی تجویز بھی دیتے رہے جس سے اتفاق نہ کیا گیا۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں جماعتیں بار بار اس موقف کا اظہار کر رہی ہیں اس حکومت کو گرانے کی ضرورت نہیں‘ یہ خود ہی اپنے بوجھ سے گر جائے گی۔ اگرچہ دونوں جماعتوں کے مرکزی رہنماؤں میاں نواز شریف اور آصف زرداری کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے مگر یہ جماعتیں ایک عوامی تحریک چلانے سے گریزاں ہیں۔ انہیں شاید ڈر ہے کہ اگر وہ اس راہ پر چل پڑے تو حالات ان کے بھی کنٹرول میں نہ رہیں گے۔
یہ کانفرنس اس روز منعقد ہوئی جب ڈالر کے مقابلہ میں پاکستانی روپیہ ایک روز میں 3.5 فیصد اور نیچے گر گیا اور ڈالر کی قیمت 164 روپے تک جا پہنچی۔ گیس کی قیمتوں میں 190 فیصد تک اضافے کا غیر معمولی فیصلہ کیا گیا اور بجلی کی قیمت بھی مزید بڑھا دی گئی۔
معاشی طور پر عوام پر بوجھ ڈالنے کا سلسلہ رکنے کا نام ہی نہ لے رہا ہے۔ روز بروز قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور اکثر اشیائے خورد و نوش عوام کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ مگر اس معاشی بوجھ کو مرکزی نقطہ بنانے کی بجائے ابھی ’انتظار‘ کی پالیسی اپنائی جا رہی ہے۔ لگتا ہے کہ ان تلوں میں تیل نہیں ہے!
حقیقت یہ ہے کہ مروجہ سیاست کی یہ اپوزیشن حکومت کے خلاف کوئی موثر کردار ادا کرنے سے قاصر رہی ہے۔ یہ حکومت اپنے دس ماہ کے دوران جس تیزی سے غیر مقبول ہوئی ہے اس تیزی سے مقبولیت کا مظاہرہ اپوزیشن نے نہیں کیا ہے۔
پاکستانی سیاسی تاریخ میں شاید ہی کوئی اور حکومت نے اتنی تیزی سے نیو لبرل ایجنڈے پر عمل درآمد کرنے کے لئے عوام پر غیر معمولی معاشی بوجھ ڈالا ہو۔ ایک انتہائی غیر مقبول اور غیر حقیقی بجٹ پیش کیا گیا ہے جس میں 5550 ارب روپے کی ٹیکس انکم کا تخمینہ پیش کیا گیا ہے۔
بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اتنا اضافہ کبھی پاکستان کی تاریخ میں نہیں ہوا۔ اس سے مہنگائی بے قابو ہو گی۔ نان اور روٹی کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔ یہ عوام کی آمدن پر ایک بڑا ڈاکہ ہے۔ یہ مہنگائی ایک طرح کا غیرمنصفانہ اور ظالمانہ ٹیکس ہے۔
نئے مالی سال میں 2900 ارب روپے غیر ملکی قرضوں کی واپسی کے لئے دئیے جائیں گے۔ یہ آل پارٹیز کانفرنس اس ساری صورتحال کو موثر انداز میں پیش بھی نہیں کر سکی۔ کوئی حل پیش کرنا تو دور کی بات ہے۔ کیونکہ یہ ساری حاوی جماعتیں بھی نیو لبرل معاشی ایجنڈے کو اپنی معاشی ترجیحات میں ایک گائیڈ لائن قرار دیتی ہیں۔
اس آل پارٹیز کانفرنس نے بالآخر سینیٹ کے جس چیئرمین کو ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے (جو شاید صرف فیس سیونگ کے لئے کیا گیا ہے) اسے اس کانفرنس میں شریک کئی سیاسی جماعتوں نے تحریک انصاف کے ساتھ مل کر خود منتخب کیا تھا۔ یہ نقطہ آغاز تھا سابقہ مسلم لیگ کی حکومت کو ختم کرنے کا۔ اس میں پیپلز پارٹی بھی شامل تھی۔ جس نے مسلم لیگ نواز کی اس پیش کش کہ وہ میاں رضا ربانی کے مقابلے میں اپنا امیدوار کھڑا نہیں کریں گے کو رد کر دیا تھا۔ شاید اس وقت آصف زرداری کے ذہن میں تھا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ امیدوار کی انہوں نے حمایت کی تو وہ ان کی گڈ بک میں دوبارہ شامل ہو سکتے ہیں۔ مگر مقتدر حلقے تو عمران خان کا فیصلہ کر چکے تھے۔ اب اس چیئرمین کو ہٹانے کے موقع پر بھی کافی خرید و فروخت ہو گی۔ بہرحال اس کو ہٹانے کا فیصلہ خوش آئند ہے۔
یہ کانفرنس اپوزیشن کو ایک جگہ جمع کرنے کا تو باعث بنی لیکن ان کو ایک نہیں کر سکی۔ ابھی سب کی ترجیحات مختلف نظر آتی ہیں۔ یہ ابھی ایک متفقہ اپوزیشن سے کوسوں دور کی بات ہے۔ عوام میں حکومت کیخلاف بڑھتی نفرت شاید ان کو ان کی مرضی کے برخلاف جلد دوبارہ ملنے پر مجبور کر دے۔ لاہور میں 26 جولائی کا جلسہ بھی اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔