فاروق سلہریا
پچھلے پندرہ بیس سال میں منصور آباد نامی محلہ سرگودھا شہر کا ایک مہنگا اور تجارتی علاقہ بن گیا ہے۔میں اس محلے میں پلا بڑھا اور میرا خاندان یہاں پچھلے چالیس سال سے رہ رہا ہے۔ 80ء کی دہائی میں یہ محلہ ایک نیم گاؤں تھا۔چاروں طرف کھیت تھے اور ایک جانب مالٹوں کا باغ تھا جو تیس چالیس ایکڑ پر پھیلا ہوا تھا۔
پھر کچھ تو آبادی کا اندھا دھند دباؤ اور کچھ مشرف دور کا پراپرٹی بُوم… زمین کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ مرکزی سڑک کے گرد گھر پلازوں میں بدلنے لگے۔ انٹرنیشنل برانڈ بھی پہنچنے لگے۔ اس کی ایک مثال تو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی دکان تھی۔ سچ پوچھیں تو اس کے آنے پر میں تھوڑا خوش بھی ہوا کہ چلو ثقافتی سامراج کی کچھ شکلوں کو برداشت بھی کیا جا سکتا ہے۔
لیکن کھیت، باغ اور ہاکی کرکٹ کے میدان اب سیمنٹ اور سریے کا جنگل بن چکے ہیں۔ شور کا عذاب الگ سے ہے۔کوڑے کے ڈھیر تو لازمی سی بات ہیں۔
پچھلے سال البتہ جب میکڈونلڈز نے میرے گھر سے سو گز دور لگ بھگ دو کنال رقبے پر بچے کھچے چند درختوں پر کلہاڑا چلایا تو محلے کے پرانے مکین اداس ہوگئے۔ غصہ بھی آیا مگر کوئی تحریک سامنے نہ آئی۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ محلے میں بہت سے لوگ یہ سوچ کر بھی خوش تھے کہ میکڈونلڈز بن جانے سے جائیداد کی قیمتیں اور اوپر چلی جائیں گی۔
نئی نسل کے من چلے یہ کہتے پائے گئے کہ اب میکڈونلڈز کھانے کے لئے موٹر وے جانے کی ضرورت نہیں (جو شہر سے سو کلومیٹر کا سفر ہے)۔گویا بیگانگی کی ہزار قسمیں ہیں۔
خیر درختوں کو برباد کر کے میکڈونلڈز اب آباد ہے۔ میرے محلے میں دس مرلے کا پلاٹ دس دس کروڑ میں بھی بک رہا ہے۔دوسری جانب حالت یہ ہے کہ محلے میں صاف پانی کا ایک بھی فلٹریشن پلانٹ نہیں۔ جو تھا خراب پڑا ہے۔ وہ جو ٹراٹسکی نے کہا تھا نا ”غیرہموار اور مشترک ترقی۔“ ہمار ا محلہ اس کی مثال بنا ہوا ہے۔
زیرِ نظر ایک تصویر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ میکڈونلڈز کے سائے میں ہمارے محلے کا موچی آج بھی اکیسویں صدی سے کوئی ہزار دوہزار سال کے فاصلے پر کھڑا ہے۔
اگلی تصویر میں آپ گدھا گاڑی پر لدی پانی کی بالٹیاں دیکھ سکتے ہیں۔ بالکل میکڈونلڈز کی دیوار کے ساتھ۔ یہاں پانی کے چند نلکے (ہینڈ پمپ) لگے ہیں۔ ہمارا ایک محلے دار یہاں سے پانی اِن بالٹیوں میں بھر کے لوگوں کے گھروں میں پہنچاتا ہے۔ پانی کا کبھی لیبارٹری ٹیسٹ ہوا تو سمجھ میں آئے گا کہ اس محلے میں نئی نئی بیماریاں کیوں پھیل رہی ہیں: یہ نلکے ایک سیوریج والی نالی کے پاس ہیں۔
یہاں یہ بات دہرانے کی ضرورت نہیں کہ سرگودھا میں ملک کا سب سے بڑا اور اہم فضائی اڈہ بھی ہے۔ شاہینوں کے سالارِ اعلیٰ اور ان کے بچوں کو ایک دن میکڈونلڈز کھانے کا شوق چڑھا۔ پھر کیا تھا سکیورٹی کے نام پر گھنٹوں ٹریفک بند۔
اسے محض اتفا ق سمجھیں کہ میکڈونلڈز کا یہ آؤٹ لیٹ پاک فضائیہ سے لیز لی گئی زمین پر بنایا گیا ہے اس لئے اسے قومی سلامتی کی علامت بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔
پیارے قارئین! آپ بجا طور پہ یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ ناکے بندیوں یا محلے کے خراب فلٹریشن پلانٹ میں میکڈونلڈز کا کیا قصور۔
اسے پاکستانی حکمرانوں کی بے شرمی، نالائقی اور بے غیرتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ عوام کو روٹی اور صاف پانی تو دے نہیں سکتے مگر عوام کو کوکا کولا کے ساتھ میکڈونلڈز کے برگر کھانے کا پورا موقع فراہم کرتے ہیں (بشرطیکہ پیسے جیب میں ہوں)۔
لیکن کچھ شرم تو میکڈونلڈز کو بھی آنی چاہئے۔ جس محلے سے روز لاکھوں روپے امریکہ منتقل ہوتے ہیں وہاں پینے کا صاف پانی تک نہیں ہے۔
کہنے کا مطلب ہے… خیر چھوڑئیے۔ ففتھ جنریشن وار فیئر کے اس دو رمیں قومی سلامتی سے جڑے برگروں پر زیادہ تبصرہ نہیں کرنا چاہئے…
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔