لاہور (روزنامہ جدوجہد) ’ریڈیکل سوشلسٹ‘ہندوستان میں بائیں بازو کی تنظیم ہے۔ گذشتہ روز بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا سنگِ بنیاد رکھنے کے موقع پر ریڈیکل سوشلسٹ نے جو مذمتی بیان جاری کیا، اسے قارئین ِجدوجہد کے لئے ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
”5 اگست کا دن انڈیا کی تاریخ میں اک ایسے دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا کہ جب شاونسٹ اور جارحانہ قوم پرستی نے اپنی انتہائی فسطائی شکل میں پہلی انڈین جمہوریہ کا گلا گھونٹ دیا۔
اس میں شک نہیں کہ آزادی کے بعد ملک کا آئین اور سیاسی طریقہ کار ایک ہندوانہ اور برہمن وادی رجحان رکھتا تھا۔ یہ مگر ایک رجحان تھا۔ دیگر بھی بہت سے رجحان موجود تھے مگر آر ایس ایس اور اس کی پالی ہوئی ’سیاسی و ثقافتی‘ جماعتوں نے اس رجحان کو مرکزی اور غالب رجحان بنا دیا۔
یہی وجہ ہے کہ ایک طرف تو بی جے پی قوم پرستی کی چیمپئین بنی ہوئی ہے،دوسری جانب کانگرس اور دیگر بورژوا جماعتیں اصولی بنیادوں پر بی جے پی کے خلاف نہ تو مذاحمت کر پا رہی ہیں نہ ہی کریں گی۔ سیکولر اصولوں کی پاسداری کی بجائے کانگرس رام پر حق جتانے کے لئے بی جے پی سے مقابلے میں لگی ہے۔
5 اگست کی تاریخ رام مندر پر بھومی پوجا کے لئے جان بوجھ کر مقرر کی گئی۔ سال پہلے 5 اگست کو انڈیا کے اپنے سابقہ طریقہ کار (گو وہ طریقہ کار بھی اتنا جمہوری نہ تھا) جموں کشمیر کی رہی سہی خود مختاری بھی چھین لی گئی۔ ریاست کو دو حصوں میں بانٹ کر مرکز کے تابع کر دیا گیا۔ ان صوبوں کے ہندوستان میں انضمام کے نام پر ریاست کو ایک مکمل نو آبادی کی شکل دے دی گئی کیونکہ نئے انتظام کے تحت ریاست کی زمین اور قدرتی وسائل پا ماضی کے بر عکس، قبضے کا راستہ کھل گیا ہے۔
ساتھ ہی ساتھ شیخ عبداللہ کے دور میں جو تھوڑی بہت ترقی پسند اصلاحات نافذ کی گئی تھیں، ان کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ یاد رہے، کشمیر پورے ایک سال سے مطلق العنانیت کی گرفت میں ہے جبکہ سپریم کورٹ نے کشمیر بارے حکومتی دعووں کو تسلیم کر لیا ہے۔گویا ریاست کے سب ادارے اس مسئلے پر متفق ہیں۔
5 اگست کی تاریخ مقرر کر کے اشاروں کنایوں میں جو پیغام دیا گیا ہے بخوبی سب سمجھ رہے ہیں۔ مندر ایک ایسے عدالتی حکم کے تحت بنایا جا رہا ہے جس میں سپریم کورٹ نے تسلیم کیا تھا کہ بابری مسجد کو مجرمانہ انداز میں گرایا گیا۔اس کے باوجود حکومت سے کہا گیا کہ وہ ٹیکس دہندگان کے پیسے سے اکثریتی فرقے کے لئے عبادت گاہ تعمیر کرے۔ اس عدالتی فیصلے کا ہر جملہ سیکولرازم کے اصولوں کی نفی تھا۔
5 اگست کی تاریخ مقرر کر کے مرکزی حکومت نے یہ پیغام بھی دیا ہے کہ اس کے اقدامات میں ایک تسلسل ہے۔مسلم اکثریتی کشمیر میں زبردستی کی نقل مکانی کے ذریعے دہائیوں سے جاری جدوجہد کو دبانے کی کوشش کی گئی ہے۔ قوم کی شناخت کو شرمناک انداز میں جارحانہ ہندتوا سیاست کی شکل دے دی گئی ہے۔ ہندتوا سیاست بھی کون سی؟ جس پر برہمن وادی اور شمالی انڈیا والی ہندتوا کا رنگ چڑھا ہوا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ لوگ جبر اور استحصال کے خلاف لڑتے رہیں گے مگرگذشتہ دہائیوں کا سبق یہی ہے کہ جب تک انڈیا کشمیر کے حق کے لئے نہیں لڑے گا انڈیا میں بھی جمہوریت،انصاف اور ترقی ممکن نہیں۔ محنت کش، مزدور، کسان، دلت،آدیواسی، خواتین، محکوم، پسے ہوئے طبقے، مظلوم جنیڈر اور کسی بھی قسم کے جبر کا شکار لوگ…ان سب کو متحد ہونا ہو گا۔
ان سب کو بورژوا اوربرہمن وادی ہندتوا سیاست کے چنگل سے نکلنا ہو گا۔ انہیں اس چکر سے نکلنا ہو گا کہ کوئی ایک بڑا دشمن ہے جس سے لڑنے کے لئے ہمیں طبقاتی استحصال اور مختلف طرح کا جبر کرنے والوں کو بھلا دینا چاہئے۔
1975-77ء میں لگائی جانے والی ایمرجنسی کے بعد سے بورژوا جماعتوں اور ان کے راستے پر چلنے والے اصلاح پسند لیفٹ نے یہی کیا ہے اور اس کا نتیجہ ہم سب بھگت رہے ہیں۔ ہماری جدوجہد طویل ہو گی۔ اس کے راستے میں کوئی شارٹ کٹ نہیں۔ 5 اگست کو ہندتوا نے جو فتح حاصل کی اس کا مقابلہ ایک اتحاد تشکیل دے کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ یہ اتحاد تب ہی بن سکتا ہے جب ہر مخصوص جبر کو اس کے سیاق و سباق کے ساتھ سمجھا جائے۔ مقابلے کے لئے ضروری ہے کہ متحدہ محاذ بنایا جائے اور تمام بورژوا سیاسی جماعتوں کو رد کر دیا جائے۔
بربریت کا واحد متبادل سوشلزم ہے۔ بورژوا جمہوریت کے اس جھنڈے کو تھامنے کی ضرورت نہیں ہے جسے بورژوازی نے خود پھینک دیا ہے۔ انڈین حالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہاں ایک مزدور انقلاب کے لئے جدوجہد کی ضرورت ہے۔ یہ جدوجہد تب ہی ممکن ہے جب سب محکوموں اور استحصال زدہ لوگوں کی آواز بنا جائے۔