لاہور (جدوجہد رپورٹ) ملک بھر کے پبلشرز، بڑے بک سٹورز، اکیڈیمکس، طلبہ نمائندوں، وکلا، انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی کے دیگر اہم اداروں بشمول انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان نے ’تحفظ بنیاد اسلام بل‘ پر مندرجہ ذیل مشترکہ بیان جاری کیا ہے۔ دستخظ کنندگان میں ’روزنامہ جدوجہد‘ بھی شامل ہے:
”پاکستان بھر میں ناشر، کتب فروش، مصنفین، وکلا، طلبہ تنظیمیں، اساتذہ کی تنظیمیں، انسانی حقوق کے گروہ اور سماجی تنظیمیں 23 جولائی 2020ء کو پنجاب اسمبلی کی جانب سے منظور ہونے والے ’تحفظِ بنیاد اسلام بل‘ پر تشویس کا شکار ہیں۔
ہماری رائے میں یہ بل آزادی اظہار اور تنقیدی سوچ پر ایک حملہ ہے۔ اس کے نتیجے میں صوبہ پنجاب میں پرننٹنگ اور پبلشنگ انڈسٹری تباہ و برباد ہو جائے گی۔ اس شعبے سے ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ اس بل کے سیکشن 7کے تحت ایک سرکاری افسر، ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز (ڈی جی پی آر) کو یہ اختیار مل جائے گا کہ وہ کسی بھی پبلشنگ ادارے، کتاب گھر یا پرنٹنگ پریس پر چھاپہ مار کر ایسا مواد قبضے میں لے سکتا ہے جو انتظامیہ کے خیال میں ’قابل اعتراض‘ ہو گا۔ ڈی جی پی آر کے عملے کو یہ اختیار بھی ہو گا کہ وہ تحریری مواد کے حوالے سے ’پوچھ گچھ، تفتیش اور جائزہ لے سکیں‘۔
سیکشن8(3) میں کہا گیا ہے کہ ڈی جی پی آر کو یہ اختیار حاصل ہے اگر کوئی کتاب’قومی مفاد، ثقافت یا مذہبی و فرقہ وارانہ ہم آہنگی‘ کے لئے نامناسب ہو تو وہ اس ’کتاب کو درآمد کرنے، چھاپنے یا شائع‘کرانے کی اجازت نہ دے۔ سب سیکشن 8(4) کے مطابق متحدہ علما بورڈ کے پاس بھی، مذہبی کتب کے حوالے سے، یہی اختیار ہو گا۔
یہ بات واضح ہے کہ بظاہر قانون کی شکل میں پیش کیا جانے والا یہ بل جس کا مقصد اسلام کی حفاظت ہے، دراصل آزادی اظہار پر حملہ ہی نہیں بلکہ آزادی اظہار کے لئے دی گئی آئینی ضمانتوں کی بھی نفی کرتا ہے۔ ہمیں یہ بھی تشویش ہے کہ ڈی جی پی آر یا متحدہ علما بورڈ کے پاس نہ تو یہ عملی صلاحیت موجود ہے نہ ہی دانشوارانہ اہلیت کہ وہ تمام کتابوں کے مسودے جانچ سکیں۔
اصولی طور پر ہم اس بات کے بھی خلاف ہیں کہ کسی کتاب کو فروخت کرنے یا شائع کرنے سے قبل ہم ڈی جی پی آر یا متحدہ علما بورڈ سے اجازت لیں۔ اسی طرح ہم اس بات کے خلاف ہیں کہ ڈی جی پی آر کو اس بل کے تحت یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ دفتر وں اور کتاب گھروں پر چھاپے ماریں۔ جمہوریت میں اس قسم کے اختیارات کی کوئی گنجائش نہیں۔
ہمارے رائے میں یہ بل پہلے سے مشکلات کا شکار پبلشنگ انڈسٹری پر ایک زبردست حملہ ہے۔ یاد رہے، اس صنعت کا بڑا حصہ بھی پنجاب ہی میں ہے۔ ایک ایسے صسوبے میں کہ جہاں کتاب گھر سٹیشنری سٹورز میں بدل رہے ہیں جبکہ ناشرین کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے، وہاں صوبائی حکومت کا فرض بنتا ہے کہ اس صنعت کی مدد کرنے کے لئے مقامی طور پر سستا کاغذ فراہم کرے، مقامی ناشرین اور کتاب فروشوں کی حوصلہ افزائی کرے، لائیبریوں سے کہا جائے کہ وہ مقامی طور پر شائع ہونے والی کتابیں خریدیں، مقامی مصنفین یا ناشرین کے کام کو ملکی و عالمی سطح تک پہنچانے کے لئے عوامی اجتماعات کا اہتمام کرے۔
اس کے برعکس پنجاب حکومت نے ایک ایسا بل منظور کر دیا ہے جس کے نتیجے میں کتب بینی کا رہا سہا کلچر بھی ختم ہو جائے گا۔ پنجاب میں پبلشنگ کی صنعت کے لئے یہ ممکن نہیں رہ گیا کہ وہ نصابی کتب کے علاوہ کچھ شائع کرے اور یہ نیا بل تو اس انڈسٹری کا خاتمہ ہی کر دے گا۔
گو یہ بل اب بحث کے لئے اسمبلی کو واپس بھیج دیا گیا ہے مگر بطور ناشرین، کتب فروش، مصنفین، اکیڈیمکس، وکلاء، طلبہ، اور انسانی حقوق کے کارکنان۔ ۔ ۔ ہم ارکان اسمبلی کو یہ واضح پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم اس بل کو کسی شکل میں قبول نہیں کریں گے۔ اگر ارکان اسمبلی شیعہ برادی کے تحفظات کو دور بھی کر دیں، تو بھی اس بل کی جابرانہ کردار کم نہیں ہو گا جو اس کی7(1),7(2) 8(1),8(2),8(3),8(4),8(12) والی شقوں میں موجود ہے۔
ان کا مقصد ہے کہ ترقی پسند اور تنقیدی آوازوں کو دبا دیا جائے اور ناشرین کو بے روزگار بنا دیا جائے۔ اگر یہ بل ختم نہ کیا گیا تو ہمارا جمہوری حق ہے کہ احتجاج کریں اور اس بل کی آئینی حیثیت کو چیلنج کریں تا کہ ہم آزادی اظہار کا دفاع کر سکیں“۔
دستخط کنندہ:
فولیو بکس (پبلشر، لاہور)
وین گارڈ بکس (پبلشر، لاہور)
ریڈنگز (بک سٹور، لاہور)
مسٹر بکس (بک سٹور، اسلام آباد)
بکس اینڈ بینز (بک سٹور، لاہور)
فکشن ہاوس (پبلشر، لاہور)
جمہوری پبلیکیشنز(پبلشر، لاہور)
سانجھ پبلیکیشنز(پبلشر، لاہور)
علمی بک ہاوس (بک سٹور، لاہور)
مشعل بکس(پبلشر، لاہور)
ڈوگر پبلشرز(پبلشر، لاہور)
اوراق پبلیکیشنز(پبلشر، راولپنڈی)
بیکن بکس(پبلشر، ملتان)
مکتبہ دانیال (پبلشر، کراچی)
ویلکم بک پورٹ(بک سٹور، کراچی)
گوشہ ادب(پبلشر، کوئٹہ)
روشنی پبلیکیشنز (پبلشر، حیدر آباد)
شاہ لطیف کتاب گھر (پبلشر، حیدر آباد)
ہمساری میگزین(پبلشر، حیدر آباد)
انڈس اکیڈمی (پبلشر، حیدر آباد)
مندرجہ ذیل تنظیموں نے بھی مندرجہ بالا بیان پر دستخط کئے ہیں:
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان
حقوق خلق مومنٹ
ڈیموکریٹک کمیشن فار ہیومن ڈویلپمنٹ
نیشنل کمیشن فار جسٹس اینڈ پیس
پروگریسو اکیڈیمکس کولیکٹو، لاہور
پروگریسو اکیڈیمکس کولیکٹو، کراچی
اثر ریسورس سنٹر
سنٹر فار سوشل جسٹس
عورت مارچ، لاہور
افکار تازہ
ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ
ویمن ایکشن فورم
پاکستان کسان رابطہ کمیٹی
روزنامہ جدوجہد آن لائن
وائس پی کے
پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو
آتھرز الائنس
لاہور ایجوکیشن اینڈ ریسرچ نیٹ ورک