پرویز امیر علی ہود بھائی
سرکاری طور پر یہ اعلان کردیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے یکساں قومی نصاب کو کیمبرج، او اور اے لیو لز پر لاگو نہیں کیا جائیگا۔ یہ پاکستان کے امیر طبقوں کے لئے بڑی خوشخبری ہے۔ بعض ان میں سے یہ سمجھتے تھے کہ اب ان کے بچوں کی تعلیم خطرے میں پڑ جائے گی۔
وہ والدین جو ماہانہ فیس پندرہ ہزار اور پینتالیس ہزار روپے ادا کرتے تھے اب سکون کا سانس لے رہے ہیں…ہاں… پی ٹی آئی نے یکساں نظام تعلیم کی تو ضرور بات کی تھی مگر یہ محض عوام کے لئے افیون کی گولی تھی۔
ذاتی طور پر میں اس حکومتی اعلان سے خوش ہوں۔ 47 برس سے پاکستانی یونیورسٹیوں اور کالجوں کے مختلف حصوں میں طبیعیات، ریاضی اور عمرانیات کی تعلیم دینے کے بعد، میں جانتا ہوں کہ او لیول اور اے لیول کی سطح کے مصدقہ طلبہ اور مقامی بورڈز کی تجزیاتی اور استدلال کی صلاحیتوں میں واضح فرق ہے۔
میں نے بہت سے ایسے طلبہ کو بھی دیکھا ہے جو شاندار صلاحیتوں کے مالک اور عام طلبہ سے الگ ہیں۔ ان میں سے بعض طلبہ تو مقامی بورڈز کے فارغ التحصیل طلبہ سے دو نہیں چار ہاتھ آگے ہیں۔
وفاقی وزیر تعلیم جناب شفقت محمود نے اس اعلان کو ایک مختلف رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔ وہ اپنے مختلف ٹی وی انٹرویوز کے دوران کہتے ہیں یہاں کسی قسم کی کوئی منافقت نہیں۔ وہ صرف ان مہنگے سکولوں کو ان کا حق دے رہے ہیں تاکہ وہ اپنے پسندیدہ نظام تعلیم کا انتخاب کر سکیں۔
شفقت محمود مزید یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم جو مقامی نظام تعلیم رائج کریں گے اس سے او اور اے لیول کے نظام کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ جی جناب…آپ نے درست فرمایا…ضرور ایسا ہی ہو گا۔ کیا ہم سب نے کنٹینر کے اوپر عمران خان کا یہ اعلان نہیں سنا تھا کہ پاکستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیں گے۔ کبھی آئی ایم ایف کی ضرورت نہیں پڑے گی؟
آئیے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ غیر ملکی نظام تعلیم کو کون سے عوامل لوکل نظام سے ممتاز کرتے ہوئے، اعلیٰ بناتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ صرف تعلیمی نصاب کا معاملہ نہیں۔ غیر ملکی نظام تعلیم کو نشانہ بنانا ایک سیاسی چال سے زیادہ کچھ نہیں۔ سائنس اور عام علم جیسے سیکولر مضامین میں ہر نظام تقریباً ایک جیسے موضوعات کا احاطہ کرتاہے۔ فرق ان کی تعلیمی فلاسفی میں ہے۔ غیر ملکی نظام پْرفہم، استدلال اور مسئلہ حل کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہوئے لچک دکھاتا ہے۔ لیکن مقامی نظام رٹا سسٹم کے گرد گھومتا ہے۔
حکومت کا مجوزہ یکساں نظام تعلیم کیا ہے اور اس پر کیوں تحفظات بنتے ہیں؟
اس نصاب کے کچھ حصے تو بے ضرر سے لگتے ہیں۔ سیکولر مضامین کے سلسلے میں جدید مواد کو شامل کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے مگر درحقیقت یہ پرانے روایتی نصاب کی ہی ایک نئی شکل ہے۔ لفاظی کی کانٹ چھانٹ سے یہ بھی گمان ہوتا ہے کہ یہ یکساں نصاب جنرل پرویز مشرف کے 2006ء کی نصاب تعلیم پالیسی کے قریب ہے۔ جس میں نہ تو عملدرآمد کی پالیسی متعین کی گئی اور نہ ہی مالی اخراجات پر غور کیا گیا۔
مجوزہ یکساں نظام تعلیم کی رو سے پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ عام سکولوں کو بھی مدارس طرز پر چلایا جائے گا۔ جس کے نتائج خطرناک ہونگے۔ دونوں ہی اقسام کے طلبہ ایک ہی نصاب اور کتب پڑھیں گے۔ اسی طرح ایک ساتھ امتحان دیں گے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی کو ایک ہی وقت میں دو ٹرینوں پر سوار ہونے پر مجبور کیا جائے جس میں سے ایک کراچی جا رہی ہو اور دوسری سمجھ لیں کوئٹہ۔
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کس ٹرین کے انجن اور بوگیاں اچھی حالت میں ہیں اور کس کی خراب۔ اہم بات تو یہ ہے کہ منزلیں مختلف ہیں۔ جدید تعلیم دینے والے سکولوں کا اولین مقصد، ڈاکٹر، انجینئر، تاجر، سائنسدان وغیرہ پیدا کرنا ہے، تحقیقاتی عنصر کو فروغ دینا ہے اور طلبہ کو سوالات کے لئے اکسانا ہے تاکہ وہ تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کر سکیں۔ اسی طرح ان سکولوں کے امتحانات طلبہ کی تصوراتی تفہیم کی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔
دوسری جانب مدرسے کے طالبعلم کوصرف ایک خاص دائرے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ رٹا اور غیر فعال ذہنیت کو اہم مانا جاتا ہے جبکہ سوالات اور تنقیدی استدلال کو ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ کوئی مدرسے کا طالبعلم اپنے استاد سے کوئی سخت سوال کر کے تو دکھائے…! اسکی خیر نہیں۔
اؤل تو مدارس میں سائنس کاکوئی لینا دینا نہیں…جہاں ہے…وہاں بھی کچھ حوصلہ افزا حالات نہیں۔ ایک بڑے مذہبی ٹی وی چینل میں ایک معلم کا لیکچر دیکھنے کا اتفاق ہوا جو اپنے طالبعلموں کوبتا رہا تھا کہ…سورج زمین کے گرد چکر لگاتا ہے…اور کسی دوسرے راستے پر نہیں جاتا…یہ حیران کن تھا…کیا سکھایا جا رہا ہے طلبہ کو؟
سیکولر سکولوں اور مدارس کو ضم کرنے کی ایک کوشش پہلے ہی ناکام ہوچکی ہے۔ جدید دور کے ترقی پسند مسلمان رہنماؤں جیسے مصر کے محمد علی اور ترکی کے کمال اتاترک نے ایک صدی قبل اس بات کا کھوج لگا لیا تھا۔ سعودی عرب اور خلیجی ممالک اس کی پیروی کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھانپ لیا ہے کہ اکیسویں صدی میں دنیاوی کامیابی ان طلبا کے لئے مشکل ہے۔ جو 11 ویں صدی میں نظام الملک کے نظام تعلیم کو رول ماڈل سمجھتے ہیں۔
حکومت کی پالیسی بعینہ ایسی ہی ہے۔ یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ اس طرح مدارس اور سکولوں کو ایک کر نا آسان ہے اور وہ بھی بغیر جامع منصوبے اور آزمائشی ٹیسٹ کے۔ یقینی طور پر اس طرح کے فرسودہ تجربات کی بھاری قیمت ادا کرنا ہو گی۔ غیر ملکی نظام تعلیم اور سرٹیفکیشن کے حامل پاکستانی طلبہ کو نکال کرہمارے باقی طلبہ عالمی تعلیمی کارناموں کی فہرست میں سب سے آخر میں ہیں۔
البتہ چند ایک انجینئرز اورزیر تربیت سائنسدان بس کامیاب ہیں۔ ذرا پاکستان کی بیرون ملک افرادی قوت کے اعداد و شمار پر تو نظر دوڑائیں۔ زیادہ تر غیر ہنر مند یا نیم ہنر مند مزدور طبقہ ہے۔ جی آئی زیڈ اور آئی ایل اوکے مطابق پاکستان نے باہرصرف تین فیصد اعلیٰ سطح کے انجینئرز، ڈاکٹرز، منیجرز اور اساتذہ وغیرہ پیدا کئے ہیں جبکہ 97 فیصد مزدور، گھریلوملازم، ڈرائیور، ترکھان اور الیکٹریشن وغیرہ ہیں۔
عوامی تعلیم کے میدان میں مدرسوں کو لانے کی بے تابی میں پی ٹی آئی کی حکومت تعلیمی معیارگرا رہی ہے۔ اس طرح پاکستان کے قومی مفادات کو نقصان بھی پہنچا رہی ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بعض مدارس نے نائن الیون کے بعد کے عرصے میں اصلاحات کے خلاف سخت مزاحمت کی تھی۔
درحقیقت بعض مدارس نے عسکریت پسندی کو جنم دیا۔ ان حقائق کی کسی نے بھی آج تک تردید نہیں کی۔ یادر ہے کہ امریکی دباؤ کی وجہ سے مشرف کی حکومت نے اصلاحاتی منصوبے بنائے تھے۔ وہ سب فلاپ ہوگئے۔ بیشتر مدرسوں نے اپنی حکومت کی فریادوں کو مسترد کر دیا تھا کیونکہ اس سے ان کی طاقت اور اجارہ داری کے خاتمے کا اندیشہ تھا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مدارس نے کیوں نیا نصاب تعلیم کا منصوبہ من و عن قبول کر لیا ہے؟
سب سے پہلے۔ ۔ ایف اے ٹی ایف کی وجہ سے پاکستان کی سرحدوں پر بدلی ہوئی صورتحال نے غیر ریاستی جنگجوؤں کی مالی ضرورت کے ساتھ ساتھ ان کی مالی اعانت میں بھی بہت حد تک کمی کردی ہے۔ دوسرا یہ کہ…حکومت مدرسہ تعلیم کو نظریاتی طور پر ناگزیر قرار دے رہی ہے۔ اس نصاب پالیسی کے آنے کے بعد سرکاری اسکول پہلے کے مقابلے میں زیادہ مذہبی مواد کی تعلیم دیں گے۔
درحقیقت ان کے لئے یہ گھاٹے کا سودا ہرگز نہیں۔ ۔ قارئین مدرسہ کی مختلف ویب سائٹوں پر شائع ایس این سی دستاویزات کو نصاب کے ساتھ موازنہ کرکے جانچ سکتے ہیں۔ مدارس کی غربت کا چکر ان کی مرضی سے ختم ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 25 ہزار مدارس ہیں۔ اور ڈھائی لاکھ کے قریب عام سکول ہیں۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ ہم کم ٹینک، ہوائی جہاز خریدیں یا چھوٹے منصوبوں سے کام چلائیں اور بچنے والا سرمایہ نئے ریگولر سکولوں کی مد میں لگائیں۔ جہاں غریب افراد کے بچوں کے لئے مفت معیاری تعلیم مہیا کی جائے؟
یہ حقیقت میں ان غربا کے لئے تازہ ہوا کا جھونکا ہوگا۔
بے سمت، تربیتی پہلوؤں سے عاری یا دوسرے لفظو ں ”کلاس لیس“تعلیمی نظام آئیڈل نہیں۔ دنیا کے کچھ حصوں میں تجربات ضرور کئے جاتے ہیں۔ اندازے اور مفروضوں پر بھی کام ہوتا ہے مگر ایسی حکومت (جو تمام بچوں کے لئے کھیل کے میدان برابر کرنے میں سنجیدہ ہے)کو یکساں نصاب تعلیم جیسے شوشے نہیں چھوڑنے چاہئیں۔ اس کے بجائے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر جدید نظام تعلیم کو فروغ دیا جائے۔
اسکولوں کا نظام، انفراسٹرکچر بہتر بنایا جائے۔ طلبہ کی صلاحیتوں کو جانچنے اور نکھارنے کی غرض سے معیاری امتحانی نظام لایا جائے۔
جدید معیاری نصاب بنا کر تربیت یافتہ اساتذہ کے حوالے کیا جائے۔ ساتھ ہی بہترین درسی کتب لاگو کی جائیں۔ بدقسمتی سے ان تمام امور کا پاکستان میں شدید فقدان ہے۔
بشکریہ: سپر لیڈ