اداریہ جدوجہد
لاہور موٹر وے پر جو شرمناک اور ظالمانہ واقعہ پیش آیا ہے، شہری ابھی اسی سانحے کی وجہ سے سکتے میں تھے کہ سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے عین روایتی پدرشاہانہ بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ فیصلہ بھی سنا دیا کہ واقعے کی اصل ذمہ دار ظلم و درندگی کا شکار ہونے والی خاتون خود ہیں کیونکہ انہیں موٹر وے کی بجائے جی ٹی روڈ سے سفر کرنا چاہئے تھا اور دیکھنا چاہئے تھا کہ ان کی گاڑی میں کافی ایندھن ہے یا نہیں۔
اگر سی سی پی او عمر شیخ کے بیان کو دیکھا جائے تو صاف واضح ہے کہ اس واقعے میں ملوث درندہ صفت مجرموں اور ایک اعلیٰ پولیس اہل کار کی سوچ میں کوئی خاص فرق نہیں۔ مجرموں کا عمل انسانیت سے عاری ہے جبکہ پولیس افسر کا بیان انسانیت سے عاری ہے۔
پاکستان کیا دنیا بھر میں خواتین حقوق کی بات کرنے والے لوگ بار بار یہ بتا چکے ہیں، ثابت کر چکے ہیں کہ عورت کے خلاف زیادتی اس کے کپڑوں، رات دیر سے گھر سے نکلنے یا میک اپ کی وجہ سے نہیں ہوتی۔
جب لاہور میں تین بچوں کی ماں ظلم کا شکار ہو رہی تھی، عین اس وقت بھارت کے دارلحکومت دلی میں ایک چھیاسی سالہ دادی دن دیہاڑے اپنے گھر کے باہر ایک وحشی انسان کی درندگی کا شکار بن گئیں۔
عورت کو ریپ کرنے کی سوچ پدر سری نظام میں اپنی جڑیں رکھتی ہے۔ اس سوچ کا ایک اظہار یہ ہے کہ اس کے جسم کو ’مردانہ وار‘ فتح کیا جائے۔ اس سوچ کا دوسرا رخ یہ ہے کہ جب کسی عورت کے ساتھ کوئی ظلم ہو تو اسے ہی قصور وار قرار دے دیا جائے۔ سی سی پی او عمر شیخ نے جو بیان دیا عمومی طور پر دائیں بازو کا بیانیہ ایسا ہی ہوتا ہے۔
ویسے بھی وکٹم (جرم کا شکار ہونے والے) کو مورد الزام ٹھہرانا طاقت ور گروہوں اوربے حس افراد کا محبوب مشغلہ ہے۔ پاکستان میں تو اس طرح کی سوچ کو ایک طرح سے سرکاری سطح پر پروان چڑھایا گیا ہے۔ دوسری جانب طاقتور گروہ، حلقے، افراد اور مرد قانون سے ماورا ہیں۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ مظلوم اور محکوم شہریوں کے خلاف تشدد بڑھتا جا رہا ہے۔ ریاست طاقتور کے ساتھ کھڑی ہے۔ سماجی اور معاشرتی سوچیں بھی عمومی طور پر سی سی پی او عمر شیخ کی ہم خیال ہیں۔
ایک چھوٹا سا سی سی پی او عمر شیخ بہت سے مردوں اور عورتوں کے اندر موجود ہے جو کھل کر نہ سہی، دبے لفطوں میں یہی کچھ دہرا رہا ہے جوسی سی پی او عمر شیخ نے فرمایا ہے (اخلاقیات کے بہت سے سی سی پی او تو کھل کر فیس بک اور ٹوئٹر پر عمر شیخ والا موقف پہلے سے ہی پیش کر رہے تھے)۔
سی سی پی او صاحب اس بیانئے کی مدد سے اپنی ناکامی چھپا رہے ہیں۔ اگر گاڑی میں پیٹرول ختم ہو گیا تھا تو بھی موٹر وے پولیس کو معاملے کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے فوراً پہنچنا چاہئے تھا۔
باقی لوگ جو اس بیانئے کی حمایت میں سامنے رہے ہیں انہیں مسئلہ مجرموں سے نہیں، اس بات سے ہے کہ خواتین گھر سے باہر کیوں نکلتی ہیں (ان حضرات کو یہ تک معلوم نہیں کہ عورتیں گھر سے نہ نکلیں تو ملک کا نظام بند ہو جائے)۔
یہ واقعہ محض ایک واقعہ نہیں۔ خطرہ ہے کہ اس واقعہ نے لاہور جیسے شہر میں بھی خواتین کی نقل و حرکت کو محدود کر دینا ہے۔ ایک طرف خواتین خوف کا شکار ہو جائیں گی، دوسری جانب گھر کے سربراہ حضرات کو بھی موقع مل جائے گا کہ وہ اس واقعہ کو ان کی نقل و حرکت محدود کرنے کے لئے استعمال کریں۔
اس مایوس کن صورت حال سے نپٹنے کا راستہ یہ ہے کہ عورت تحریک اور ترقی پسند قوتیں اسی طرح سڑکوں پر نکلیں جس طرح 2012ء میں دہلی میں خواتین اور مرد لاکھوں کی تعداد میں نکلے تھے۔
سی سی پی او عمر شیخ اور ان کے ہم نوا افراد کے بیانئے کو بھی شکست دینے کی ضرورت ہے۔ ریاست سے بھی مطالبہ کیا جائے اور ریاست کو مجبور کیا جائے کہ وہ خواتین کی حفاظت اور بہبود کے لئے اقدامات اٹھائے۔ مصیبت یہ ہے کہ جہاں ریاست کا سارا زور تنقیدی اور تعمیری سوچ رکھنے والوں کو غائب کرنے پر لگتا ہو وہاں دن دیہاڑے ریپ کرنے والوں کو بھی کھلی چھٹی مل جاتی ہے۔
ہم اس ظلم کا شکار بننے والی خاتون اور ان کے خاندان سے بھی یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ انہیں نہ صرف انصاف ملنا چاہئے بلکہ اس خاندان کی بحالی کے لئے ریاستی سطح پر اقدامات ہونے چاہئیں۔ پاکستان کی سڑکیں، عوامی مقامات، کھیت، فیکٹریاں، سکول، یونیورسٹیاں، دفتر اور بازار…دن ہو کہ رات…ہر عورت اور ہر بچے کے لئے محفوظ ہونے چاہئیں۔