فاروق طارق
کل قومی اسمبلی میں بلاول بھٹو نے جس پرجوش طریقے سے احتجاج کیا اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ اپوزیشن کی جانب سے سپیکر ڈیسک کا گھیراؤ اس قدر شدید تھا کہ اجلاس کو ملتوی کرنے کے علاوہ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا۔
اپوزیشن نے یہ شدید احتجاج اس وقت کیا جب وفاقی وزیر علی محمد خان نے علی وزیر اور محسن داوڑ پر انتہائی سنگین الزامات لگائے اور قابل اعتراز جملے بولے۔ انہیں ملک دشمن قرار اور افواج پاکستان پر حملے کرنے والے قرار دیا اور ان دونوں کی اسمبلی رکنیت منسوخ کرنے کا مطالبہ تک کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ ایس پی طاہر داوڑ کی لاش چونکہ افغان حکام محسن داوڑ کے حوالے کرنا چاہتے تھے لہٰذا ثابت ہوا کہ محسن داوڑ افغانستان کے ایجنٹ ہیں!
حالانکہ زمینی حقائق اس الزام کے برعکس ہیں۔ 26 اکتوبر 2018ء کو پولیس افسر اور پشتو زبان کے شاعر طاہر داوڑ کو اسلام آباد کے گنجان آباد علاقے سے اغوا کیا گیا تھا۔ حکومت نے ان کی بازیابی کے لئے کوئی اقدامات نہ کیے۔ پشتون تحفظ موومنٹ نے اس مسئلے پر کافی آواز بلند کی۔ 13 نومبر 2018ء کو اغوا کے 18 دن کے بعد ان کی تشدد شدہ لاش تورخم بارڈر کے پاس افغان صوبہ ننگرہار سے ملی۔
حکومت کے طاہر داوڑ کے اغوا بارے غیر سنجیدہ روئیے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اغوا کے دو دن بعد وزیر اعظم کے معاون خصوصی افتخار درانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اغوا نہیں ہوئے بلکہ پشاور میں محفوظ جگہ پر ہیں۔
جب ان کی لاش بارڈر پر لائی گئی تو اس وقت افغان حکام نے کہا کہ وہ لاش داوڑ قبیلے کے حوالے کریں گے۔ لیکن بعد ازاں مذاکرات کے بعد لاش حکومتی نمائندوں کے حوالے کر دی گئی۔ اس واقعے کو بنیاد بنا کر اب محسن داوڑ کو افغان خفیہ ایجنسی کا ایجنٹ قرار دیا جا رہا ہے۔
مسلم لیگ ن کے خرم دستگیر نے ایس پی طاہر داوڑ کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس قتل کے حوالے سے حقائق عوام کو نہیں بتائے گئے۔ حکومت بتائے کہ ایک ایس پی کو دو صوبوں سے گزار کے افغانستان کیسے لے جایا گیا۔ طاہر داوڑ ایک بہادر افسر تھا۔ حکومت اس کے قتل پرخاموش کیوں ہے؟
علی وزیر اور محسن داوڑ وہ اراکین اسمبلی ہیں جن کے ایک پرائیویٹ بل پر حکومتی وزرا سمیت پوری قومی اسمبلی متحد ہو گئی تھی اور 26ویں آئینی ترمیم منظور ہوئی تھی۔ یہ چند ہفتے پہلے کی بات ہے۔ آج انہیں اسمبلی سے نکال باہر کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔
اس سے قبل بلاول بھٹو نے دو صفحات پر مشتمل ایک خط سپیکر کو لکھا تھا کہ علی وزیر اور محسن داوڑ کو اسمبلی کے اجلاس میں بلا کر ان کا موقف لیا جائے اور ان کے پراڈکشن آرڈر جاری کیے جائیں۔ آج سپیکر قومی اسمبلی نے انتہائی جانبدارانہ کردار ادا کرتے ہوئے کہا کہ مجھے تو کوئی خط ملا ہی نہیں! بلاول بھٹو نے اس پر کہا کہ ان کے پاس بھجوائے گئے خط کی رسید بھی موجود ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ حکومت مکمل طور پہ طاقتور اداروں کے اشاروں پر چل رہی ہے اور ہر ایک قانون اور ضابطے کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مقتدر حلقے علی وزیر اور محسن داوڑ کونشانِ عبرت بنانا چاہتے ہیں۔
تاہم کل پوری اپوزیشن اس ایشو پر متحد نظر آئی۔ اختر مینگل بھی اپوزیشن کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔ لگتا ہے علی وزیر اور محسن داوڑ کی طرف سرکاری رویے نے اپوزیشن کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ یہ سب کچھ کل کو ہمارے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔
اب یہ بات بھی واضح ہے کہ خرقمر کے واقعے میں سکیورٹی اداروں کی فائرنگ سے تین نہیں بلکہ تیرہ افراد جاں بحق ہوئے ہیں جو کسی طور مسلح نہیں تھے۔
ادھر عالمی سطح پر ’سرحدوں سے ماورا یورپی یکجہتی‘ (ESSF) نامی بین الاقوامی تنظیم نے ایک اپیل جاری کر دی ہے جس میں علی وزیر اور محسن داوڑ کی فوری رہائی اور اس واقعہ کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس پر دنیا کے نامور محققین، لکھاری، اساتذہ، اراکین پارلیمنٹ اور ٹریڈ یونین رہنما دستخط کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ یورپ کے اکثر ممالک میں اس ویک اینڈ پر احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ علی وزیر اور محسن داوڑ کی گرفتاری سے تحریک ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔