فاروق طارق
محسن داوڑ نے کل میران شاہ میں دھرنے کے اختتام کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم یہ دھرنا عید تک ملتوی کر رہے ہیں۔ انہوں نے بعد میں اپنی گرفتاری ایک سوشل میڈیا بیان جاری کرنے کے بعد پیش کر دی۔
گرفتاری پیش کرنے سے قبل انہوں نے اپنے مختصر بیان میں کہا کہ وہ خود کو اپنے عوام کی خاطر فوج کے حوالے کررہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان مشکل دنوں میں‘ میں اپنے لوگوں کو مزید امتحان میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ حالات مزید کشیدہ نہ ہوں اس لئے رضاکارانہ گرفتاری دے رہا ہوں۔
محسن داوڑ کو گرفتاری کے بعد جسمانی ریمانڈ پر سی ٹی ڈی کے حوالے کردیا گیا ہے۔ انہیں پشاور منتقل کیا جائے گا۔
محسن داوڑ کی رضاکارانہ گرفتاری کے بعد سارے مین سٹریم میڈیا نے شور مچا دیا کہ محسن داوڑ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ گویا وہ کہیں چھپا ہوا تھا۔ کوئی یہ نہیں بتا رہا تھا کہ اس نے خود گرفتاری دی ہے۔
سیاسی پیش رفت
اس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے سپیکر کے نام ایک چبھتا خط تحریر کر کے علی وزیر اور محسن داوڑ کو جمعہ کے روز قومی اسمبلی کے سامنے پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے سپیکر سے مخاطب ہو کے کہا کہ آپ جس ایوان کے کرتا دھرتا ہیں اس کا ایک رکن 26 مئی سے گرفتار ہے اور اب رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کی گرفتاری کی بھی اطلاعات آرہی ہیں۔ قومی اسمبلی کے قانون 105 کے تحت متعلقہ حکام کسی بھی رکن کی گرفتاری کی اطلاع سپیکر کو فوراً دینے کے پابند ہیں۔
بلاول بھٹو نے مزید لکھا کہ ”مجھے معلوم نہیں آیا قانون کے مطابق سپیکر کو علی وزیر اور محسن داوڑ کی گرفتاری کی بابت آگاہ کیا گیا ہے۔“ ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے رکن نویدقمر نے پہلے جب علی وزیرکی گرفتاری کا معاملہ اٹھایا تو اسے نظرانداز کردیا گیا۔
دریں اثنا پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما منظور پشتین نے ایک وفد کے ہمراہ سینیٹ کی کمیٹی برائے قومی یگانگت سے ملاقات کی۔ سینیٹر محمد علی سیف نے کہا کہ آج کی ملاقات میں ایک دس رکنی کمیٹی کی تشکیل کا فیصلہ ہوا ہے جس میں پانچ ممبران کا تعلق پی ٹی ایم سے ہو گا اور پانچ کا تعلق سینیٹ سے ہو گا۔ یہ کمیٹی مستقبل کے واقعات پر گہری نظر رکھنے اور ایک مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینے کے لئے کام کرے گی۔
تضادات کا شکار سرکاری موقف
ادھر کارپوریٹ میڈیا کی مدد سے سرکاری مشینری بدستور علی وزیر اور اس کے ساتھیوں کو ملک دشمن، شرپسند ہیں، دہشت گرد اور بیرونی ایجنٹ وغیرہ قرار دینے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے۔
تاہم لاتعداد لوگوں کے لئے سوشل اور متوازی میڈیا تصویر کا دوسرا رُخ پیش کر رہا ہے۔ اپوزیشن کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے سرکاری موقف اور طرز عمل کی مخالفت کی ہے۔ اسی طرح جو بھی مضمون یا تبصرہ کسی عالمی شہرت یافتہ اخبار میں شائع ہوتا ہے وہ حکومتی نقطہ نظر کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔
یہ بات ہضم کرنا ذرا مشکل ہے کہ کل تک علی وزیر اور محسن داوڑ کے ایک پرائیویٹ بل پر آئین کی 26ویں ترمیم تمام اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کی۔ اس وقت تو عمران خان بھی ان کی تعریفیں کر رہا تھا۔ مگر اب یکا یک ان دونوں کو شرپسند، غدار اور نہ جانے کیا کیا کہا جا رہا ہے۔
درحقیقت اس سارے ایشو پر سرکاری نقطہ نظر خود اپنے اندر تضادات کا شکار نظر آ رہا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ تمام تر کمرشل میڈیا حکومتی پراپیگنڈہ کا ترجمان بنا ہوا ہے‘ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی کہانی کو بہتر طور پر فروخت نہیں کر پا رہے ہیں۔
یکجہتی مہم
سوشل میڈیا پر علی وزیر کی مقبولیت میں کئی گنا اضافہ نظر آ رہا ہے۔ اس کے بارے میں لوک سجاگ کی ایک مختصر ویڈیو کو لاکھوں لوگ اب تک دیکھ چکے ہیں۔
اسی طرح ’چینج ڈاٹ آرگ‘ ویب سائٹ پر ”علی وزیر کو انصاف دو“ کے عنوان سے شائع ہونے والی پٹیشن پر چند گھنٹوں میں پانچ ہزار سے زائد افراد دستخط کر چکے ہیں۔
دنیا بھر میں پاکستانی سفارتخانوں میں بھی ایسی قراردادیں جمع کروائے جانے کی اطلاعات ہیں۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر ایک کمپئین جاری ہے جس میں دنیا کے مختلف ممالک سے ترقی پسند نوجوان، سیاسی کارکنان اور ٹریڈ یونین رہنما علی وزیر کی تصاویر اور پلے کارڈ تھامے اظہارِ یکجہتی کر رہے ہیں۔