زمان خان
لائل پور جو کہ اب فیصل آباد کہلاتا ہے بیسویں صدی کے شروع میں آباد کیا گیا تھا۔ اس شہر کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ یہاں پر زراعت کے شعبہ کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئی ایشیا کا سب سے پہلا زرعی کالج بنایا گیا (جو اب یونیورسٹی ہے) تاکہ کسانوں کو جدید کاشتکاری کے طریقے سمجھائے جائیں اور زراعت میں مشینری کے استعمال سے شناسا کروایا جائے۔
اس کے ساتھ ہی یہاں ایک فیکٹری ایریا بھی بنایا گیا جہاں پر مختلف قسم کی فیکٹریاں لگائی گئی۔ان میں سب سے اہم اور بڑی لائل پور کاٹن ملز تھی۔ یہ غالباً پنجاب میں پہلی بڑی ٹیکسٹائل مل تھی۔ شاید یہ آج کے نوجوانوں کے لئے حیران کن بات ہو کہ لائل پور ایک زمانے میں کپاس کا گڑھ تھا۔
چونکہ لائل پور ایک نیا شہر تھا اور پھر یہاں پہلے سے کوئی صنعت موجود نہیں تھی اس لئے ٹیکسٹائل مل میں کام کرنے کے لئے مزدور ہندوستان کے دوسرے شہروں خاص کر دہلی سے لائے گئے اور اس طرح مِل کے اندر اور باہر ایک ’منی دہلی‘آباد ہو گیا۔
چلتے چلتے اس بات کا ذکر بھی شاید نا مناسب نہ ہو کہ مل مالک لالہ مرلی دھر کا تعلق دہلی سے تھا اور ان کا خاندان آج بھی وہ وہاں پر کاروبار کر رہا ہے۔لیکن انہیں ثقافت اور ادب سے بہت دلچسپی تھی۔ اس لئے وہ ہر سال ایک ثقافتی ہفتہ مناتے تھے جو 1965ء تک جاری رہا۔ 1965ء کی جنگ کے بعد پاکستانی حکومت نے اسے دشمن کی جائیداد قرار دے کر قومیا لیا۔ اس کے بعد اس مل کا کیا انجام ہوا بس اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ اب اس جگہ رہائشی کالونی قائم ہے۔
مل کے باہر دنیا کی سب سے بڑی کچی آبادی وجود میں آگئی۔ اس خطے کی پہلی ٹریڈ یونین بھی یہاں پر بنی (ایک زمانے میں صبیحہ شکیل مزدور لیڈر تھیں)۔
لائل پور میں چونکہ کمیونسٹوں، ترقی پسندوں اور سامراج دشمنوں کا کافی اثر و رسوخ تھا اس لئے ہمیں آزادی سے پہلے بھی یہاں کے کسانوں اور مزدوروں کی جدوجہد کا ذکر ملتا ہے۔
1947ء میں اس شہر کی آبادی کی اکثریت غیر مسلم تھی۔ یہاں کے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر آغا عبدالحمید نے مسلم لیگ کے بعض عناصر کی خواہش کے باوجود کسی قسم کے مذہبی فسادات نہیں ہونے دئیے۔
پاکستان بننے کے بعد یہاں پر ٹیکسٹائل کی بڑی فیکٹریاں لگیں جن میں قابل ذکر سہگلوں کی کوہ نور ٹیکسٹائل ملز اور چنیوٹ برادری کی کریسنٹ ٹیکسٹائل ملز ہیں۔ یہاں صالح محمد نیازی مزدور لیڈر تھے۔
اس کے علاوہ بہت ساری ٹیکسٹائل ملیں بھی لگیں جن میں عاصمہ جہانگیر کے سسر میاں فضل احمد کی پریمیر ٹیکسٹائل ملز بھی شامل ہے۔
انڈسڑی لگنے کی وجہ سے یہاں کے عام آدمی کے روزگار کا ذریعہ ان ملوں میں مزدوری بن گیا۔ کیونکہ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے بہت سے ترقی پسند کارکن، شاعر، ادیب لائل پور میں آباد ہو گئے اور تقسیم سے پہلے بھی یہاں پر ٹریڈ یونین موجود تھی اس لئے یہاں پر مزدور تحریک بھی کافی مضبوط تھی اور اس میں ترقی پسند خیالات رکھنے والوں کا کافی اثر و رسوخ تھا۔
جب پچاس کی دہائی میں کریسنٹ ٹیکسٹائل کے مزدوروں نے اپنے مطالبات منوانے کے لئے ہڑتال کی تو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ان مزدوروں پر گولیاں چلائی گئیں۔
گو تقسیم کے بعد لائل پور میں مختلف قسم کی صنعتیں لگنی شروع ہو گئیں تھیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ کپڑا اور سوت بنانے کی فیکٹریاں اور کارخانے زیادہ سے زیادہ لگنے شروع ہو ئے۔
جنرل ایوب کے آخری سالوں اور پھر بھٹو کے دور میں پاور لومز کے چھوٹے چھوٹے یونٹ لگنا شروع ہو گئے جو وقت کے ساتھ بڑھتے گئے اور آج فیصل آباد میں سب سے زیادہ مزدور پاور لومز کی صنعت سے وابستہ ہیں۔
جنرل ایوب کے خلاف تحریک میں پاکستانی مزدوروں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس عرصے میں علاقے کے مزدوروں نے کئی فیکٹریوں کا کنٹرول بھی سنبھالا۔
گو بھٹو کے آخری دور میں ٹریڈ یونین بہت کمزور ہو چکی تھی مگر جنرل ضیا الحق نے اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلے ملتان کے مزدوروں کو نئے سال کے موقع پر گولیوں کا تحفہ دیا اور مزدوروں کو یہ واضح پیغام دے دیا کہ وہ محنت کشوں کی کسی قسم کی تحریک کو برداشت نہیں کرے گا۔
1970ء کے الیکشن میں فیصل آباد میں محنت کش عوام نے پاکستان پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا۔ پیپلز پارٹی شہر کی ساری قومی اور صوبائی سیٹیں جیت گئی۔ یہ مزدور تحریک کے ابھار کا دور تھا۔اسی دور میں ایک فیکٹری مالک کو قتل بھی کر دیا گیا تھا۔
لیکن پیپلز پارٹی نے سب سے پہلے برسراقتدار آکر لائل پور کے ہر دلعزیز رہنما ایم این اے مختار رانا (المشہور ’قبضہ کرانا‘) کو مارشل لا کے تحت سزا دلوا کر نااہل قرار دے دیا۔
آج کے فیصل آباد میں جہاں لاکھوں مزدور چھوٹی بڑی صنعتوں میں کام کرتے ہیں اور لائل پور میں سینکڑوں چھوٹی بڑی فیکٹریاں ہیں مگر حیران کن بات یہ ہے کہ محکمہ لیبر کے پاس صرف 92 ٹریڈ یونینیں رجسٹر ہیں اور محکمہ لیبر کے اعداد و شمار کے مطابق صرف ساڑھے تین لاکھ مزدور کام کرتے ہیں! ان میں 481 اینٹیں بنانے کے بھٹے بھی شامل ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ فیصل آباد میں لاکھوں پاور لومز ہیں اور ان میں دسیوں لاکھ مزدور کام کرتے ہیں مگر یہاں پر ان کو کوئی سہولیات میسر نہیں ہیں اور آئے دن انہیں اپنے مطالبات منوانے کے لئے ایجی ٹیشن کرنی پڑتی ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ ان کا یہ ہے کہ حکومت نے ہر مزدور کی کم از کم تنخواہ پندرہ ہزار روپے ماہانہ مقرر کی ہے (گواس تنخواہ میں کوئی گھرنہیں چل سکتا) مگر فیکٹری مالکان یہ تنخواہ بھی دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
اس کے علاوہ حکومت نے آٹھ گھنٹے کا دن مقرر کیا ہے مگر مالکان بارہ بارہ گھنٹے روزانہ کام لیتے ہیں۔ حکومت کے قوانین کے مطابق ایک مزدور چار پاور لومز پر کام کرے گا مگر مالکان چھ اور آٹھ پاور لومز پر کام لیتے ہیں۔
پاور لومز کے ورکروں کو کام کرنے کے لئے کوئی اچھا اور صحت مند ماحول میسر نہیں ہے۔ان مزدوروں کو کوئی طبی سہولیات اور میڈیکل الاؤنس نہیں ملتا۔ یہ مزدور سوشل سکیورٹی کی سہولیات سے محروم ہیں کیونکہ مالکان ان کے سوشل سکیورٹی کارڈ نہیں بننے دیتے۔
اس شعبے کی کوئی پنشن اور بڑھاپا الاؤنس نہیں ہے۔مالک اپنی مرضی سے جب چاہتا ہے مزدور کو نکال دیتا ہے۔ نوکری کا کوئی تحفظ نہیں ہے۔ یہی حال بھٹہ مزدوروں کا ہے۔
پاور لومز ورکرز اپنے مطالبات منوانے کے لئے آئے دن ہڑتال کرتے ہیں اور راستے بند کرتے ہیں جس کے بعد وقتی طور پر مقامی انتظامیہ حرکت میں آجاتی ہے اور مل مالکان اور ٹریڈ یونین کے نمائندوں کو بلا کر گفت و شنید کے بعد ایک معاہدہ کروا دیتی ہے۔ مگر جب مزدور کام پر واپس جاتے ہیں تو مالکان اپنے عہد سے منحرف ہو جاتے ہیں اور معاہدے کی شرائط پر عمل کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ یہ چوہے بلی کا کھیل کافی عرصے سے جاری ہے۔
یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ آج پاکستان میں مزدور تحریک بہت ہی کمزور ہے۔ جسے منظم اور مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ محنت کشوں کی مسائل حل کروائے جا سکیں۔