پاکستان

ہیروں پر سیاہی آخر کب تک؟

پرویز ہود بھائی

ہمارے وزیراعظم جب دنیا کو اسلاموفوبیا پر بھاشن دیتے ہیں تو عالمی دنیا طنزیہ مسکراتی ہے۔ جبری طور پر مذہب تبدیل؟ مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل؟ پاکستانی پاسپورٹ کے حصول کے لئے کسی دوسرے مذہب کے پیشواپرلعنت کی شرط؟ کیا ہے یہ سب؟ درحقیقت یہ امتیازی سلوک ہمارے قانون کا حصہ بن چکا ہے۔

پاکستانی آئین غیر مسلموں کو برابر کے حقوق اور مساوی شہریت کی نفی کر رہا ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پر انسانی حقوق کی مختلف درجہ بندیوں میں پاکستان نیچے ہی نیچے جارہا ہے۔ حال ہی میں گوجرانوالہ میں ایک دلخراش واقعہ پیش آیا۔ حقارت اور نفرت دکھاتے ہوئے نوجوانوں کے ایک گروپ نے پروفیسر عبد السلام کے پوسٹر پر سیاہ رنگ چھڑکا اور فخریہ انداز میں اس کی ویڈیو بھی بنائی۔

پروفیسر عبد السلام ایک احمدی اور پاکستان کے واحد سائنس کے میدان میں نوبل انعام یافتہ تھے جن کا 25 سال پہلے انتقال ہو چکا ہے۔ سلام وہ واحد پاکستانی ہیں جنہوں نے سائنس کی دنیا میں گراں قدر کام کئے اور بڑا اثر ڈالا۔ یہ ویڈیو وائرل ہوئی اور اسے لاکھوں مرتبہ دیکھا گیا۔ اس طرح کے واقعات عام ہیں۔ وقتاً فوقتا ًکسی نہ کسی بہانے سے نفرت کا یہ لاوا ابلتا رہتا ہے۔

اس ویڈیو میں نظر آنے والے عام پاکستانی ہیں۔ کم از کم پنجاب میں ایسا سرکاری طور پر حکم نہیں تھا۔ لیکن حکومتوں کا کیا ہے؟ کیا قومی رہنما تسلیم کرتے ہیں کہ سائنسی قابلیت کو عقائد کے معاملات سے دور رکھنا چاہئے؟ فوجی اسٹیبلشمنٹ ان چیزوں کو کس طرح دیکھ رہی ہے؟ یہ سوالات نہ صرف کسی خاص فرد کی وجہ سے اہم ہیں بلکہ اس وجہ سے کہ حکومت، صنعت اور تعلیمی میدان، صرف اس صورت میں مناسب طریقے سے کام کرتے ہیں جب انفرادی صلاحیت اور قابلیت کو تسلیم کیا جائے۔ سلام کا معاملہ سائنسی تجربات میں استعمال ہونے والے”لٹمس ٹیسٹ”کی طرح ہے۔

جنرل ایوب خان نے عبد السلام کے احمدی ہونے کی کوئی پرواہ نہیں کی اور انہیں اپنا سائنسی مشیر مقرر کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اسی طرح کیا۔ مگر 1974ء میں سیاسی فائدے کے لئے اپنے اصولوں پر سمجھوتا کر لیا۔ ضیاالحق پر نظریاتی طور پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ احمدیوں سے بہت محتاط تھے لیکن وہ سیاسی طور پر بھی بہت ہوشیار تھے۔ اسی وجہ سے عبد السلام کو 1980ء میں نشان امتیاز سے نوازا گیا تھا۔ اس کے بعد حالات بدلنے لگے۔

بینظیر بھٹو عبد السلام کے معاملے سے بالکل دور رہیں۔ نوازشریف نے بھی اسی پالیسی کی پیروی کی۔ 1992ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں تقریر کرتے ہوئے نواز شریف نے فارغ التحصیل سابق طلبہ اور اساتذہ کی ایک لمبی فہرست پڑھ لی لیکن عبد السلام کا نام واضح طور پر خارج کر دیا۔

معجزاتی طور پر نواز شریف نے آخرکار پروفیسر سلام کو ایک سائنسدان کی حیثیت سے تسلیم کر ہی لیا۔ 2016ء میں سی ای آر این (یورپی نیوکلیئر ریسرچ سنٹر) کے دورے کے دوران اس سائنسی ادارے اور پاکستان کے درمیان تعاون کی ایک مفاہمت ہوئی۔ یہاں یہ مشاہدہ کیا گیا کہ نوازشریف یہ جان کر بہت متاثرہوئے تھے کہ سی ای آر این کی تحقیق کے اہم حصے یعنی ہِگز بوسن کی کامیاب تلاش میں پروفیسر سلام اور اسٹیون وینسبرگ کا کلیدی کردار تھا۔ نوازشریف کو پروفیسر سلام کے نام سے منسوب جنیوا میں واقع سڑک“ریو ڈی سلام“پر گاڑی چلانے کے لئے بھی لے جایا گیاتھا۔

یہ قدرتی بات تھی کہ کسی کو اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم سے ایک بنیادی سوال پوچھنا چاہئے تھا۔ یعنی سلام کے آبائی ملک میں ان کے نام پر کوئی قابل ذکر ادارہ کیوں نہیں تھا؟ اس ضمن میں موزوں ادارہ قومی سنٹر برائے فزکس تھا جو اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی کے کیمپس میں واقع تھا۔

این سی پی 1980ء کی دہائی میں پروفیسر عبد السلام اور پی ایچ ڈی طالب علم ریاض الدین (1930-2013ء) نے مشترکہ طور پر تشکیل دیا تھا۔ ریاض الدین بھی ایک معروف طبعیات دان تھے جو بعد میں این سی پی کے بانی ڈائریکٹر بھی بنے۔ اگرچہ اس دور میں مایوس کن حد تک کم فنڈنگ کی گئی۔ تاہم اس کی دوبارہ شروعات 1999ء میں قائد اعظم یونیورسٹی کے مستعار لئے گئے کیمپس سے ہوئی۔ این سی پی کا اصل مقصد ایک منی آئی سی ٹی پی (بین الاقوامی مرکز برائے نظریاتی طبیعات) بننا تھاجو کہ پروفیسر سلام نے اطالوی شہر ٹریسے میں قائم کیا تھا۔ آئی سی ٹی پی (جس کا نام اب عبدالسلام – آئی سی ٹی پی رکھ دیا گیا ہے) نے جدید علمی، سائنسی افکار کو خوشگوار اور فکری طور پر متحرک ماحول دیتے ہوئے دنیا بھر سے ہزاروں محققین کی میزبانی کی ہے۔

یہ ادارہ بین الاقوامی تعاون اور سائنسی تحقیقات کے لئے وسیع مواقع فراہم کرتا ہے۔ پروفیسر سلام کی 20 ویں برسی کے بعد، اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے این سی پی کا نام تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ قارئین کو یاد دلانے کے لئے کہ اس وقت کیا ہوا تھا۔ میں 2018ء میں شائع ہونے والے اپنے آرٹیکل کا حوالہ دینا چاہوں گا۔ 29 دسمبر، 2016ء کو، پاکستان کے صدر نے، وزیر اعظم پاکستان کی سفارش کردہ ایک سمری پر اپنے دستخط کئے جس کی رو سے قائد اعظم یونیورسٹی میں موجود نیشنل سنٹر فار فزکس کا نام تبدیل کر کے ”عبد السلام سنٹر فار فزکس“ رکھا جانا تھا۔

اس سے قبل، وزیر مملکت برائے تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت نے 26 دسمبر 2016ء کو سمری کی جانچ پڑتال کر کے اس کی منظوری دی تھی۔ اس کے بعدطے شدہ طریقے کے مطابق این سی پی کے نام کی تبدیلی کیلئے اس سمری کو قائد اعظم یونیورسٹی بھیج دیا گیا۔

ملکی اعلیٰ قیادت بشمول صدر مملکت اور وزیراعظم کی دستخط شدہ یہ سمری قائد اعظم یونیورسٹی کو موصول ہوئی جسے آگے این سی پی کو بھی بھیج دیا گیا تاہم ڈرامائی طور پر اسے مسترد کر دیا گیا۔ ایک جدید ریاست کے لئے ماتحت عہدیداروں کا جان بوجھ کر اور کھلے عام اعلیٰ اتھارٹی کے احکامات کو تسلیم نہ کرنا شاز و نادر ہی ہوتا ہے مگر حقیقت میں ایسا ہی ہوا۔ وزیر اعظم اور صدر کے براہ راست احکامات ردی کی ٹوکری میں پھینک دیئے گئے۔ یوں نیشنل سنٹر فار فزکس کا نام تبدیل نہ کیا جاسکا۔ واضح رہے کہ یہ مذہبی تعصب کی بڑی مثال تھی۔

میرے خیال میں سیاسی قیادت پوری طرح سے سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ این سی پی کا کردار کیا ہے۔ اب پاک فوج کے اسٹریٹجک پلانز ڈویژن کی مالی اعانت میں، این سی پی اعلیٰ سکیورٹی اداروں کے ریٹائرڈ افسران کے لئے جنت سے کم نہیں۔ مارگلہ پہاڑیوں کے دامن میں عالیشان رہائش گاہوں میں اچھی زندگی گزار ی جارہی ہے۔ وہ صرف خود کو ہی جوابدہ ہیں کسی بھی حکومت کو نہیں۔

خار دار تاروں اور مسلح محافظوں کے حصار میں قلعہ نما یہ جگہ اب کائنات کی نوعیت پر تحقیق کرنے والے کسی اعلیٰ سوچ کے حامل ماہر طبیعات کی میزبان نہیں ہے۔ سلام جن سائنسی امور پر قابل عزت ٹھہرے انہیں پھر آسانی سے دھتکار دیا گیا۔ وہ شاید سب سے عمدہ مثال تھے مگر وہ تنہا نہیں۔ پاکستان کی دھرتی کسی بھی غیر مذہب کے افراد کو قبول نہیں کرتی۔

(بشکریہ: سپر لیڈ: https://thesuperlead.com/)

Pervez Hoodbhoy
+ posts

پرویز ہودبھائی کا شمار پاکستان کے چند گنے چنے عالمی شہرت یافتہ سائنسدانوں میں ہوتا ہے۔ اُن کا شعبہ نیوکلیئر فزکس ہے۔ وہ طویل عرصے تک قائد اعظم یونیورسٹی سے بھی وابستہ رہے ہیں۔