فاروق طارق
خادم حسین رضوی کا جنازہ لاہور کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ ہوا ہے، جس میں شرکت کے لئے لاکھوں افراد پورے پاکستان سے لاہور پہنچے۔
اس اجتماع سے ہی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے والے بڑے پیمانے پر عوامی بنیادیں حاصل کر چکے ہیں۔ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ تحریک لبیک کو اسٹیبلشمنٹ کی حمائیت حاصل رہی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ اس سلسلہ میں گو مگو کی صورتحال سے بھی دوچار رہی۔ جب 2019ء میں تحریک لبیک نے ان کے اپنے لائے ہوئے عمران خان کی زندگی تنگ کی تو اسے ریاستی جبر کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ مگر اب دوبارہ ان کو پرموٹ کیا گیا۔
اسلام آباد میں ان کو دھرنے کرنے میں اگرچہ کچھ دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا مگر پھر ان کے ساتھ معاہدہ کیا گیا اور عزت کے ساتھ رخصت کیا گیا۔
اب خادم حسین کی اچانک وفات پر ان کی بیماری کو بھی ایک سیکرٹ بنا دیا گیا ہے۔ ان کی تنظیم کو پورا موقع دیا گیا کہ وہ ریاست کی بھرپور مدد سے جتنے لوگوں کو لانا چاہیں لے آئیں۔
ایک جانب حکومت پشاور میں اپوزیشن کے جلسے پر بار بار یہ ڈر پیدا کر رہی ہے کہ اس سے کرونا پھیلے گا۔ مگر لاہور میں اس جنازے میں لاکھوں کے اجتماع پر حکومتی اہل کاروں کی جانب سے ایک دفعہ بھی نہیں کہا گیا کہ اس قسم کے اجتماع سے کرونا پھیل سکتا ہے۔
اس کے برعکس ان کو جنازے کے انتظامات میں پوری حکومت کی مدد حاصل تھی۔ یعنی ایک مذہبی اجتماع سے کرونا نہیں پھیلے گا۔ ایک سیاسی اجتماع سے پھیلے گا۔
کرونا یہ تو نہیں دیکھتا کہ یہ مذہبی اجتماع ہے یا سیاسی۔
حکومت کے دوغلہ پن کا اظہار اس جنازہ کی طرف رویہ سے کیا جا سکتا ہے۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ سماج پہلے سے کئی گنا زیادہ مذہبی انتہا پسندی کی جانب جھک چکا ہے۔ یہ ایک سنجیدہ چیلنج ہے۔ تحریک انصاف جو گیم کر رہی ہے اس سے اسے پہلے سے کہیں زیادہ سیاسی نقصان ہو گا۔ جو بھی انتہا پسندی کو فروغ دیتا ہے، حتمی طور پر یہ انتہا پسندی اسی کے گلے پڑتی ہے۔