حارث قدیر
پیٹر جیکب کہتے ہیں کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارا آئین مذہبی اکثریت کی بنیاد پر بالادستی قائم کرتا ہے۔
وہ نیشنل کمیشن فار جسٹس اینڈ پیس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں اور گزشتہ کئی سال سے انسانی حقوق کے سرگرم کارکن کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ آج کل وہ جبری طور پر مذہب کی تبدیلی کے واقعات سے متعلق ایک مہم چلا رہے ہیں۔ انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر ’روزنامہ جدوجہد‘ نے پیٹر جیکب کا انٹرویو کیا ہے جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
پاکستان میں انسانی حقوق کی عمومی صورتحال سے متعلق کیا کہیں گے؟
پیٹر جیکب: انسانی حقوق کے حوالے سے بہت زیادہ چیلنج ہیں، کئی نوعیت کی پامالیاں ہو رہی ہیں۔ ایسی پامالیاں بھی ہیں جو بہت قدیمی ہیں اور نظام سے تعلق رکھتی ہیں۔ کچھ ادارہ جاتی مسائل ہیں جو ریاستی ڈھانچے میں موجود ہیں، کچھ انتظامی نوعیت کی پامالیاں ہیں اور کچھ واقعات و رجحانات ایسے ہیں جو انسانی حقوق کی بڑی منظم پالیسیوں کا باعث بنتے ہیں۔ ہمیں پورا بھروسہ ہے کہ اگر سماج کو اپنا آپ سدھارنے کا موقع دیا جائے، اظہار رائے، انجمن سازی، تحریر و تقریر اور اجتماع کی آزادیاں رہیں تو سماج اپنے آپ کو سدھار سکتا ہے۔ گورننس کا نظام زوال کا شکار ہے، انصاف کا نظام بھی کمزور ہے جو بڑا چیلنج ہے۔
کیا انصاف کی فراہمی کی وجہ سے ان مسائل کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے؟
پیٹر جیکب: اس وقت ہمارے قانونی معیارات اور ضابطے اس قابل ہیں کہ روایتی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکی جا سکتی ہیں۔ ایڈمنسٹریشن آف جسٹس کا پہلو بہت کمزور ہے۔ ہمارا نظام حرکت میں نہیں آتا اور عدالتی نظام میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ تقرریاں میرٹ پر نہیں ہوتیں، لاہور ہائی کورٹ کے ججوں کی تقرریوں کی تجویز کو ہی مثال لے لیا جائے تو اس میں ایک بھی خاتون کا نام تجویز نہیں کیا گیا، میرٹ کے حوالے سے بھی خدشات موجود ہیں۔ ججوں کی تقرریوں کا معیار ضروری ہے، اس کے علاوہ مقدمات میں تاخیر، تفتیش کا درست اور بروقت نہ ہونا بھی انصاف کا خون کرتا ہے۔ ان مسائل کو حل کرنا ہو گا۔
مذہبی اقلیتیوں کے حقوق کے حوالے سے پاکستان میں حالات کس طرح کے ہیں؟
پیٹر جیکب: مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی پامالی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ریاست کے بندوبست میں انہیں خارج کر دیا گیا ہے۔ انہیں الگ شناخت دیکر یوں سمجھا گیا کہ انکے حقوق کا تحفظ ہو گیا ہے۔ مذہب، علاقہ، صنف سمیت دیگر اعتبار سے شناخت تسلیم کرنا تو درست اقدام ہیں لیکن اس کے بعد بھی کچھ راست اقدامات کرنا ہوتے ہیں۔ مذہبی شناخت کی بنیاد پر اکثریت کی بالادستی ہمارا آئین قائم کرتا ہے۔ فیصلہ سازی کی بجائے مذہبی شناختی کی بنیا دپر بالادستی قائم کر کے باقیوں کو دوسرے درجے کا شہری قرار دے دیا گیا ہے۔ ان مسائل کی وجہ سے کچھ ایسے گروہ پیدا ہو گئے ہیں جو بلاسفیمی، مذہب کی تبدیلی سمیت دیگر اقدامات کے ذریعے مذہبی اقلیتوں کے حقوق پامال کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔
جبری مذہب کی تبدیلی کا مسئلہ کس نوعیت کا ہے اور اس سے متعلق ہونیوالی کانفرنس اور مہم پر روشنی ڈالیں؟
پیٹر جیکب: مذہب کی جبری بنیادوں پر تبدیلی کے واقعات تواتر سے ہو رہے ہیں۔ پہلے تو اس معاملے پر انفرادی کیس یا پسند کی شادی کی گرد پڑی ہوئی تھی۔ ہم نے گزشتہ سات سالوں کے دوران 162 کیسوں کے نمونے سٹڈی کئے تو پتہ چلا کہ یہ سندھ تک محدود واقعات نہیں ہیں، پنجاب میں سندھ سے بھی زیادہ، 52فیصد، کیس ہیں۔ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور اسلام آباد میں بھی کیس سامنے آئے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ کیلاش وادی کی بچیاں بھی اس ظلم کا نشانہ بنتی ہیں۔ 162 کیسوں میں 46 فیصد بچیوں کی عمریں 18 سال سے کم جبکہ 37 فیصد کی عمریں 15 سال سے بھی کم ہیں۔ اس طرح کے اعداد و شمار سامنے آنے کے بعد ہم نے مناسب سمجھا کہ اس پر ایک عالمی سطح کی کانفرنس ہونی ضروری ہے تاکہ انسانی حقوق کے ماہرین اور کارکنان کے ساتھ بیٹھ کر ذمہ داران کو اس معاملے کا حل تجویز کیا جا سکے۔ 8 دسمبر کو لاہور میں ہونیوالی اس کانفرنس میں زیادہ لوگوں نے آن لائن شرکت کی۔
ایک سیکولر معاشرے کے قیام اور مذہبی انتہا پسندی ختم کئے بغیر اقلیتوں کو تحفظ مل سکتا ہے؟
پیٹر جیکب: یہ بات درست ہے (کہ سیکولر معاشرے کے قیام اور مذہبی انتہا پسندی ختم کئے بغیر) ایسے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ اصل میں ہم نے کسی بھی نظام کے ماڈل کو اس کی روح کے مطابق نہیں اپنایا۔ اسلام کا نعرہ بھی لگایا گیا اور جمہوریت کا نعرہ بھی تواتر سے لگایا گیا۔ یہ بھی درست ہے کہ ہر ایک سماج کا اپنا ارتقا اور پرورش ہوتی ہے۔ 70 سال جو کام ہو چکا ہے اس میں اب ضروری ہے کہ کچھ ہنگامی نوعیت کی تبدیلیاں کی جائیں۔
ریاست کی از سر نو تشکیل ہونی چاہیے۔ سیکولر اور مذہبی ریاست کے علاوہ بھی تجربات موجود ہیں۔ پاکستان کے خمیر میں ایک چیز شامل ہے کہ مذہبی شناخت کے اعتبار سے مطالبہ کیا گیا۔ ایسا سماج جو اکثریت کو اکاموڈیٹ کرنے پر آجائے تو ایسے لوگ ضد پکڑ لیتے ہیں۔ جس طرح بنگلہ دیش کے آئین میں تبدیلی کر کے رجعت پسندی اور انتہا پسندی کی حوصلہ شکنی کی گئی وہ ماڈل موجود ہے، اس کے علاوہ بھی کچھ ممالک میں ایسے تجربات کئے گئے ہیں جن کو اپنایا جا سکتا ہے۔
اس طرح کے تجربات کی ضرورت ہے، اداروں کی ضرورت ہے۔ ایک طبقہ پیدا کیا گیا ہے جو افراد اور جماعتوں پر مشتمل ہے اور ریاست کے ڈھانچے میں اس طرح جگہ بنا چکا ہے کہ جو بھی اقتدار میں آتا ہے وہ ان سے خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ سیکولرازم کو بہت زیادہ بدنام کر دیا گیا ہے، کسی اور پیرامیٹر میں بھی کشادگی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے تو ابتدائی طور پر وہ بھی کافی ہو گی۔