خبریں/تبصرے

اسرائیل سے بہتر تعلقات چاہتے ہیں: اردگان

لاہور (جدوجہد رپورٹ) ترک صدر رجب طیب اردگان نے کہا ہے کہ ترکی اسرائیل کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں ہے لیکن فلسطینیوں کے بارے میں اسرائیلی پالیسی ناقابل قبول ہے۔ وہ انقرہ میں پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران پارٹی ممبران سے خطاب کر رہے تھے۔

ترکی اور اسرائیل ایک لمبے عرصے سے اتحادی تھے لیکن حالیہ برسوں میں انکے درمیان دوریاں بڑھی ہیں۔ ترکی نے متعدد بار مغربی کنارے میں اسرائیل کے قبضے اور فلسطینیوں کے ساتھ اس کے سلوک کی مذمت کی ہے۔ ترکی نے اسرائیل اور چار مسلم ممالک کے مابین حالیہ امریکی ایما پر قائم ہونے والے سفارتی تعلقات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ تاہم چند روز قبل ترکی نے اپنا سفیر، دو سال کے بعد، ایک مرتبہ پھر اسرائیل بھیج دیا۔

اردگان نے صحافیوں کو بتایا کہ ”فلسطین کی پالیسی ہماری ریڈ لائن ہے۔ ہمارے لئے اسرائیل کی فلسطین کی پالیسیوں کو قبول کرنا ناممکن ہے۔“

انکا کہناتھا کہ ”اگر اسرائیل میں اعلیٰ سطح کے مسائل نہ ہوتے تو ہمارے تعلق بہت مختلف ہو سکتے تھے۔ دونوں ممالک انٹیلی جنس کا اشتراک رکھے ہوئے ہیں۔ ہم اپنے تعلقات کو ایک بہتر نقطہ پر پہنچانا چاہتے ہیں۔“

رائٹرز کے مطابق اسرائیل کی وزارت خارجہ نے اردگان کے بیان پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

اسرائیل کی طرف سے غزہ کی سرحد پر جھڑپوں میں درجنوں فلسطینیوں کو ہلاک کرنے کے بعد ترکی اور اسرائیل نے 2018ء میں ایک دوسرے کے سفیروں کو ملک بدر کر دیا تھا۔

رواں سال اگست میں اسرائیل نے ترکی پر استنبول میں حماس کے ایک درجن اراکین کو پاسپورٹ دینے کا الزام عائد کیا تھا اور اس اقدام کو انتہائی انفرینڈلی قرار دیا تھا۔

حماس نے 2007 میں فلسطینی صدر محمود عباس کی وفادار فورسز سے غزہ پر قبضہ کیا تھا، اور اس وقت سے اس گروہ نے اسرائیل کے ساتھ تین جنگیں لڑی ہیں۔ ترکی کا کہنا ہے کہ حماس ایک جائز سیاسی تحریک ہے جس نے جمہوری انتخابات کے ذریعے اقتدار حاصل کیا۔

اسرائیل نے رواں سال چار مسلم ممالک متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش کے ساتھ باضابطہ سفارتی تعلقات استوار کیے ہیں۔ اس نے بدھ کے روز کہا کہ وہ ممکنہ ایشیامیں پانچویں مسلمان قوم کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہا ہے۔

ادھر فلسطینی امریکی ایماپر ہونیوالے ان معاہدوں کو انکے ساتھ غداری قرار دے رہے ہیں۔

Roznama Jeddojehad
+ posts