فاروق سلہریا
باچہ خان یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر بشیر احمد صاحب نے یونیورسٹی کی اکیڈیمک کونسل کے اجلاس کے دوران یونیورسٹی میں پڑھنے والی طالبات، طلبا حتیٰ کہ فیکلٹی ارکان کے لئے ڈریس کوڈ جاری کیا ہے۔
طالبات کے لئے لازمی ہو گا وہ سیاہ رنگ کی عبایا پہنیں۔ سر پر سیاہ یا سفید سکارف اوڑھیں۔ کالے رنگ کے سلیپر پہنیں۔ جینز، ٹی شرٹ کو عبایا کے نیچے بھی نہیں پہن سکتیں۔ میک اپ کی بھی ممانعت ہے۔ ایڑھی والے جوتے بھی ممنوع قرار دے دئیے گئے ہیں۔ فینسی پرس پکڑ کر چلنا بھی منع کر دیا گیا ہے۔
طلبا حضرات پر بھی کچھ پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ وہ شلوار قمیض کے علاوہ کافروں کا لباس یعنی پینٹ شرٹ تو پہن سکتے ہیں مگر رنگدار مفلر منع ہے۔
فیکلٹی کے ارکان پر بھی پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ خواتین زیورات اور مرد حضرات جینز نہیں پہن سکیں گے۔
ابھی چند روز قبل خیبر پختونخواہ کی ایک اور یونیورسٹی جامعہ ہزارہ میں ڈریس کوڈ لاگو کیا گیا تھا۔ سال بھر قبل اسلام آباد کی بحریہ یونیورسٹی میں حکم جاری کیا گیا تھا کہ لڑکے اور لڑکیاں چھ انچ کا فاصلہ رکھیں۔
لگتا ہے جو کام عمران خان کے منہ بولے والد ضیا الحق نے ادھورا چھوڑا تھا وزیر اعظم صاحب اسے مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ سکولوں کو یکساں نصاب کے نام پر مدرسے بنایا جا رہا ہے، یونیورسٹیاں پی ایچ ڈی طالبان کے حوالے کی جا رہی ہیں۔
ہم نے یہ تو سنا تھا کہ خان صاحب طالبان کا اسلام آباد میں دفتر بنوانا چاہتے تھے۔یہ معلوم نہیں تھا سکول کالج اور یونیورسٹیاں ہی ان کے حوالے کر دی جائیں گی۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔