حارث قدیر
پاکستان کے معروف صحافی اور اینکر پرسن حامد میر نے انکشاف کیا ہے کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے سے متعلق قومی اتفاق رائے ایک ’میس‘ میں بیٹھ کر کیا گیا۔ اب آزاد کشمیر (پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر) کو بھی صوبہ بنائے جانے اور لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد بنائے جانے پر بھی قومی اتفاق رائے کسی کی ’میس‘ میں بیٹھ کر قائم کرنے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔ سیاستدان پارلیمنٹ میں بیٹھ کر قومی اتفاق رائے قائم کرنیکی بجائے کسی کی ’میس‘ میں بیٹھ کر قومی اتفاق رائے قائم کرتے ہیں۔
یہ انکشافات انہوں نے دو روز قبل جماعت اسلامی کے زیر اہتمام منعقدہ ایک قومی کشمیر کانفرنس سے خطاب کے دوران کئے۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ ”میں کھل کر بات کرنا چاہتا ہوں، اگر کسی کو اختلاف ہو تو معاف فرما دیں۔ اگر معاف نہیں کر سکتے تو پھر جو مرضی ہے کرتے رہیں۔ میں سیمیناروں میں کشمیر پر تقریریں کر کر کے تنگ آ چکا ہوں۔“
انکا کہنا تھا کہ ”5 اگست 2019ء سے 3 دن قبل اسلام آباد میں ایک بہت اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا تھا۔ اس اجلاس میں وزیراعظم فاروق حیدر کو بتا دیا گیا تھا کہ اگلے 3 روز میں مقبوضہ جموں کشمیر (بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر) میں کیا ہونے والا ہے۔ اس اجلاس میں آرٹیکل 370 اور 35 اے کی بھی بات ہوئی۔ فاروق حیدر نے اس صورتحال کو کاؤنٹر کرنے کیلئے جو تجاویز دیں وہ تسلیم نہیں کی گئیں۔ فاروق حیدر سے گزارش ہے کہ انکی حکومت اب ختم ہونے والی ہے، اب آپ اصلی کشمیری بنیں اور قوم کو بتا دیں کہ اس اجلاس میں کون کون موجود تھا اور آپ کو کس نے کیا بتایا اور آپ نے کیا جواب دیا تا کہ پتہ چلے کہ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا بلکہ ہمارے ارباب اختیار کو پہلے سے سب کچھ پتہ تھا کہ بھارت کے عزائم کیا ہیں اور 370 اور 35 اے معطل ہونے والا ہے۔“
انکا کہنا تھا کہ ”پی ڈی ایم نے 20 ستمبر 2020ء کو ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں کشمیر سے اظہار یکجہتی کیا گیا لیکن ایک اور شق میں گلگت بلتستان کے حوالے سے جو بات ہوئی اس سے لگ رہا تھا کہ وہ بھی ایک ’ڈکٹیٹڈ‘ قسم کا وعدہ ہے جو شامل کیا گیا ہے، کیونکہ آئین کا آرٹیکل 257 اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کرتا ہے۔ حکومت مشرف دور سے آؤٹ آف باکس حل تلاش کر کے قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ پی ڈی ایم دو بڑی جماعتوں نے بھی گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے وعدے پر الیکشن مہم چلا کر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی دھجیاں بکھیریں اور موجودہ حکومت نے بھی ایسا ہی کیا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو حکومت اور اپویشن کی دو بڑی پارٹیوں نے قراردادوں سے وہ کر دیا ہے جو دشمنوں نے کیا۔ دونوں نے بیرونی ایجنڈے کے تحت پریشر کے آگے سرنڈر کیا ہے۔“
اپنے خطاب میں انکا مزید کہنا تھا کہ ”افسوس کی بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی مسئلہ کشمیر پر قائم ہوئی تھی، ذوالفقار علی بھٹو کا ایوب خان سے معاہدہ تاشقند پر اختلاف ہوا تھا، لیکن وہ بھی فخر سے کہتے ہیں کہ ہمارے منشور میں شامل ہے کہ گلگت بلتستان کو صوبہ کا درجہ دینگے۔“
انہوں نے کہا کہ ”اب آزاد کشمیر (پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر) کا الیکشن آ رہا ہے، اس میں ایک طرف تو ہارس ٹریڈنگ شروع ہونے والی ہے۔ ’آزادکشمیر‘کو بھی صوبہ بنانے کی کوشش اسی الیکشن کے ذریعے سے شروع ہو گی۔ جب یہاں بھی اس طرح کی بات کریں گے تو قراردادیں کہاں جائیں گی؟“
انکا کہنا تھا کہ ”سارا جھگڑا یہ ہے کہ ایک قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ ’آزادکشمیر‘ کو صوبہ بنانے پر اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ ایک ’میس‘ میں سب کو بلا کر پہلے جی بی پر اتفاق رائے ہو گیا تھا۔ بجائے اس کے کہ پارلیمنٹ میں قومی اتفاق رائے ہو یہ جا کر کسی کی ’میس‘ میں اتفاق رائے کرتے ہیں۔ ایک اور اتفاق رائے کروانا مقصد ہے، جو مشرف دور میں ایک فارمولہ تھا کنٹرول لائن کو مستقل بنانے کا، اب اس پر اتفاق رائے کروانا ہے تا کہ یہ مسئلہ ہی ختم کیا جائے۔“
انہوں نے ایک اور انکشاف کیا کہ ”پی ڈی ایم کی ایک اہم جماعت کے بیک ڈور مذاکرات ناکام ہوئے ہیں۔ اس لئے یہ جھگڑا شدید ہو گیا ہے۔ پانچ فروری کو جلسے میں پی ڈی ایم کی قیادت یہ بتا دے کہ ان سے کس نے یہ کہا کہ لائن آف کنٹرول کو مستقل بارڈر بنانے پر اتفاق رائے کیا جائے۔“
حامد میر کے انکشافات نے عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر سے متعلق ہونے والی تبدیلیوں اور پاکستان اور بھارت کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات کیلئے پس پردہ مذاکرات اور اتفاق رائے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یہ بھی واضح کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو ختم کرنے کے حوالے سے دونوں ملک ایک دوسرے سے نہ صرف متفق ہیں بلکہ بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کو بھارتی مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کرنے کے بعد پاکستانی زیرانتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں کو بھی الگ الگ نیم صوبائی حیثیت دیتے ہوئے اس معاملہ کو ہمیشہ کیلئے دن کئے جانے کی درپردہ کوششیں جاری ہیں۔