تاریخ

زین العابدین: ’وہ جو تھا اب کہیں نہیں ہے وہ‘

فاروق سلہریا

30 جنوری کے روز دوست، کامریڈ، انقلابی صحافی، مارکسی علامہ اور پاکستان کا ایک بہترین دماغ: زین العابدین ہمیشہ کے لئے جدا ہو گیا۔

زین العابدین سے پہلی ملاقات تو یاد نہیں مگر یہ 1997ء میں ہوئی تھی۔ میں روزنامہ مشرق کراچی سے وابستہ ہوا تو کراچی چلا گیا۔ مشرق کی رپورٹنگ ٹیم میں فرحان رضا اور سلیم میرے ہم عمر ہی نہیں، ہم خیال بھی تھے۔ دونوں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف، معراج محمد خان گروپ) سے وابستہ رہ چکے تھے جبکہ میں جدوجہد گروپ کا رکن تھا۔

ان دنوں کسی نوجوان اور یونیورسٹی طالب علم کا سوشلسٹ ہونا یا کہلانا اپنا مذاق اڑوانے کے مترادف ہوتا تھا۔ بایاں بازو کافی کمزور اور ہر طرف سے نظریاتی یلغار کا شکار تھا۔ کچھ پرانے لیفٹ رہنما اور کارکن بھی ہماری حوصلہ شکنی کرتے۔ ہم ان سب باتوں کی پروا کئے بغیر اس منصوبہ بندی میں لگے رہتے کہ کس طرح طلبہ اور نوجوانوں میں سوشلسٹ بنیادوں پر تنظیم سازی کی جائے۔

رفتہ رفتہ کراچی یونیورسٹی میں کچھ بنیادیں بننے لگیں۔ نوید کی قیادت میں دیکھتے ہی دیکھتے این ایس ایف کا ایک اچھا خاصہ یونٹ بن گیا اور دیگر تعلیمی اداروں سے بھی لوگ رابطہ کرنے لگے۔ مجھے اپنے کام سے جب بھی فرصت ملتی میں کراچی یونیورسٹی پہنچ جاتا۔ انہی دنوں زین العابدین سے ملاقات ہوئی۔ زین العابدین نے کراچی یونیورسٹی میں ان دنوں ریزنرز (Reasoners) کے نام سے ایک فکری حلقہ تشکیل دے رکھا تھا۔ وہ خود انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم تھے۔

شامل شمس سے، جو اب بطور صحافی ڈوچے ویلے سے منسلک ہیں، بھی جامعہ کراچی میں ہی ملے اور اس ترقی پسند گروہ کا حصہ تھے جس کے اکثر ارکان کیفے پر ملتے تھے۔ شامل شمس اپنی ترقی پسند شاعری کی وجہ سے کیمپس بھر میں بہت مقبول تھے۔ شعبہ کیمیا میں ڈاکٹر ریاض تھے جو پی ایچ ڈی کے بعد وطن لوٹے تھے اور ’انٹرنیشنل سوشلسٹ‘ کو منظم کرنے کی کوشش میں تھے۔ گویا باقی ملک کے برعکس جامعہ کراچی میں تازہ ہوا کے کچھ جھونکے محسوس کئے جا سکتے تھے۔

اس کے علاوہ کشمیری اور بلوچ طلبہ بھی کافی متحرک تھے اور یہ سب بھی ترقی پسندانہ خیالات رکھتے تھے۔ سکندر جنجوعہ اور نثار شاہ کا تعلق اور ہمدردیاں جموں کشمیر این ایس ایف سے تھیں۔ ان سے بھی یہاں دوستی ہوئی اور بعدازاں کراچی کے دیگر بہت سے دوستوں کی طرح وہ جدوجہد گروپ کا حصہ بنے۔ بعد ازاں یہ دوست لیبر پارٹی پاکستان میں شامل ہوئے۔

زین ان سب سے مختلف تھے اور یہی وجہ ہماری فوری دوستی کی بنی۔ گو فرحان، سلیم، نوید یا نثار شاہ کے برعکس زین العابدین کبھی بھی لیبر پارٹی میں شامل نہیں ہوئے مگر باقی سب لوگوں کی نسبت وہ سٹالنزم کے ناقد تھے۔

میں جدوجہد گروپ کے رکن کے طور پر جب کراچی میں متحرک ہوا تو سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ میرے رابطے میں آنے والے تمام نوجوان ساتھی ماضی میں ماؤ وادی یا سٹالن وادی تنظیموں کا حصہ رہے تھے اور لیون ٹراٹسکی کے نظریات کو شدت سے رد کرتے تھے۔

ایسے میں زین العابدین سے ملاقات بہت دلچسپ رہی۔ غالباً ڈاکٹر ریاض کی دوستی کا اثر تھا کہ وہ ٹراٹسکی کے نظریات سے واقفیت حاصل کر چکے تھے مگر اس سے بھی اہم بات یہ تھی کہ وہ بہت تنقیدی نقطہ نظر رکھتے تھے۔ بائیں بازو کے پرانے حلقوں اور نظریات میں جو تقلید اور جامد پن کا عنصر پایا جاتا تھا، ان کا تنقیدی رویہ اسے برداشت نہیں کر سکتا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ وہ کسی ٹراٹسکی اسٹ گروہ کا بھی متحرک رکن نہیں بن سکے۔ اکثر سمجھا جاتا تھا کہ وہ ’پارٹی انیمل‘ نہیں ہیں۔ شائد ایسا نہیں تھا۔ مصیبت یہ تھی کہ بائیں بازو کے گروہوں کی اندرونی لائف اُن کے تنقیدی روئیے سے میل نہیں کھاتی تھی۔ وہ لیبر پارٹی کے قریب آئے۔ ایک مرتبہ لاہور بھی تشریف لائے مگر کبھی شامل نہیں ہوئے۔ سال بھر کراچی میں گزارنے کے بعد میں لاہور واپس چلا آیا البتہ اس کے بعد سیاسی کام کے سلسلے میں کراچی اکثر جانا ہوتا اور زین العابدین سے ملاقات بھی ہوتی رہتی۔

2006ء میں میں نے دی نیوز راولپنڈی میں کام شروع کر دیا۔ ایک روز دی نیوز کراچی سے کال آئی۔ دوسری جانب زین العابدین تھے۔ انہوں نے دی نیوز کراچی میں، ادارتی سیکشن میں، کام شروع کر دیا تھا۔ کچھ سال بعد وہ ادارتی صفحات کے مدیر بنا دئیے گئے۔

میں نے ان کی دعوت پر پھر سے دی نیوز کے ادارتی صفحات پر کالم لکھنا شروع کر دیا (ان سے پہلے مدیر نے مجھ پر پابندی لگا رکھی تھی)۔ اسی دوران میں نے دیگر دوستوں کے ساتھ مل کر ہفت روزہ وئیو پوائنٹ آن لائن جاری کیا۔ میں اور میرے دیگر تین ساتھی جو وئیو پوائنٹ نکال رہے تھے، سب کے سب طالب علم یا نیم بے روزگار تھے۔ میں نے بھی لندن میں پڑھائی شروع کر دی تھی۔ وئیو پوائنٹ کے اخراجات پورے کرنے کے لئے میری آمدن کا ایک ذریعہ دی نیوز سے ملنے والا کالموں کا معاوضہ تھا۔ زین العابدین کو اس بات کا علم تھا۔ ان کی وجہ سے میرے کالموں کا معاوضہ پہلے دوگنا پھر شائد تین گنا ہو گیا۔

2013ء میں پی ایچ ڈی کے فیلڈ ورک کے لئے کراچی گیا تو زین العابدین نے گھر میں دعوت رکھی۔ ڈاکٹر ریاض، سرتاج خان اور ایک آدھ اور دوست بھی شریک ہوئے۔ کرائے کے اسی گھر پر ایک دفعہ مذہبی جنونیوں نے بھی حملہ کر دیا۔ اس حملے کے بعد، دیگر دوستوں کی طرح، میں نے زین العابدین سے یہ گھر چھوڑ کر نئی جگہ منتقل ہونے کا مشورہ دیا۔ وہ نہیں مانے۔ ان کا استدلال تھا: ”رہنا تو کراچی میں ہی ہے“۔

اس ملاقات کے بعد نہ کراچی جا سکا نہ بالمشافہ ملاقات ہو سکی مگر فیس بک، واٹس ایپ یا ای میل پر رابطہ رہتا۔

دو سال قبل جب روزنامہ جدوجہد کا آغاز ہوا تو زین سے اس پراجیکٹ بارے تفصیلی گفتگو ہوئی۔ وہ بہت پرجوش بھی تھے اور خوش بھی کہ بائیں بازو کا ایک اخبار روزانہ کی بنیاد پر شائع ہو گا۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ نے لکھنا بھی ہے۔ ”ہاں ہاں“ کہتے ہوئے زوردار قہقہ لگایا۔

ہم دونوں کو معلوم تھا کہ زین العابدین لکھنے کے معاملے میں ’کنجوس‘ہیں۔ وہ کالم بہت کم لکھتے تھے۔ گو ادارتی فرائض اور صحت کے مسائل کے باعث انہیں لکھنے کا وقت بھی کم ملتا لیکن کم لکھنے کی ایک وجہ شائد یہ بھی تھی کہ وہ تب ہی لکھتے جب وہ سمجھتے کہ انہیں موضوع پر عبور حاصل ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان جیسا پڑھا لکھا دانشور پاکستانی صحافت تو کیا پاکستانی اکیڈیمک حلقوں میں بھی کم کم ہی ہو گا۔ بیس بائیس سال پہلے بھی جب کراچی یونیورسٹی میں ان سے ملاقات ہوتی تو ان کے ہاتھ میں کتاب ضرور دکھائی دیتی۔ میں نے ایک بار انہیں سویڈن کے ایک سکالر بارے بتایا جس نے کارل مارکس کی سوانح حیات لکھی تھی۔ اگلے پندرہ منٹ مجھے انہوں نے مارکس کی ایسی پانچ چھ سوانح حیات بارے بتایا جنہیں میں شائد اگلے دس سال تک پڑھنے کا وقت نہ نکال سکوں۔ ان سے ملنے والا ہر انسان سوچنے لگتا تھا کہ زین العابدین نے اس ایک عمر، ایک زندگی میں اتنا وسیع مطالعہ کیسے کر رکھا ہے۔

ان کی کتب بینی ہی مشہور نہیں تھی، اپنے علم کی مدد سے وہ حالات کا مارکسی انداز میں بھر پور تجزیہ کرتے۔ سامعین انہیں دم بخود سنتے۔ اس کی ایک وجہ ان کی مسحورکن شخصیت بھی تھی۔ ان کی بھاری بھر کم آواز اس شخصیت کا شائد اہم ترین جزو تھی۔ آپ زین العابدین سے مل کر آتے تو کئی دن تک ان کی آواز کانوں میں گونجتی۔

جاذب نظر شخصیت کے باوجود لائم لائٹ سے ہمیشہ دور رہے۔ امیج (Image) کی شرمناک حد تک اُوور پراڈکشن کے اس دور میں کسی دوست کے پاس ان کی کوئی تصویر نہیں۔ اپنے فیس بک پر بھی انہوں نے اپنی تصویر نہیں لگا رکھی تھی۔ اپنے کالموں کے ساتھ بھی تصویر لگانے سے گریز کرتے۔ میں نے کچھ سال پہلے سوشل میڈیا کی جمالیات بارے ایک کالم انہیں بھیجا جس کا عنوان تھا: ’می، مائی سیلف، مائی سیلفی‘۔

عموماً میری ای میل کا جواب دینے میں دو تین دن لگا دیتے تھے۔ اس بار، دو لفظی، فوری جواب: ”واہ، واہ“۔ جتنی جلدی جواب آیا، مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے کالم بھی نہیں پڑھا تھا، صرف کالم کے عنوان نے ان کے دل کے تار چھیڑ دئیے تھے: نرگسیت ان کو برداشت نہیں تھی۔

دس دن قبل ان کی کولیگ زیب برقی نے ان کی صحت بارے فیس بک پر پوسٹ کیا۔ انہیں ہسپتال داخل کرا دیا گیا۔ ایک دفعہ انہیں ایمرجنسی سے واپس منتقل کیا گیا تو امید بندھی۔ دو دن کے بعد واپس آئی سی یو میں شفٹ کر دیا گیا۔ اب کی بار وہ زندہ واپس نہیں آئے۔

ہمارے مشترکہ دوست شامل شمس نے اپنے فیس بک کی وال پر جو لکھا وہ زین العابدین کے بے شمار دوستوں کی ترجمانی تھی:

اب رگوں میں مری بچا ہے جو خوں
مالِ مڑگاں و آستیں ہے وہ
پڑ گیا چین، دل ہوا یک سو
وہ جو تھا اب کہیں نہیں ہے وہ
نالہ ہا، شور ہا، تپیدن ہا
میرے ہوتے کفن گزیں ہے وہ

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔