آمیش حسن عسکری
فرحان اختر نے ’دل چاہتا ہے‘ جیسی فلم اس وقت ڈائریکٹ جب ان کی عمر بیس سال سے کچھ اوپر تھی۔ اس فلم نے بالی وڈ میں فلم سازی کے معیارات کو یکسر بدل کے رکھ دیا۔ فرحان اختر کی بہن زویا اختر اگرچہ ہدایتکاری کی دنیا میں ذرا دیر سے وارد ہوئیں لیکن انھوں نے ہندی سینما میں کئی عشروں سے چلی آ رہی روایات سے بغاوت کی۔
ان کی سب سے بڑی بغاوت اپنی فلموں میں مسلمان کرداروں کی عکاسی ہے۔ اس سے پہلے کہ زویا اختر کی فلموں کے مسلمان کرداروں پر مزید کچھ کہا جائے، یہ کہنا بالکل مناسب ہو گا کہ زویا اختر کا شمار گنتی کے ان چند ہدایت کاروں میں ہوتا ہے جنھوں کمرشل اور آرٹ فلم کی تقسیم کو ختم کر کے رکھ دیا ہے۔
راج کمار ہیرانی، انوراگ کشپ اور زویا اختر نے موضوعات اور کرداروں کے تنوع اور دلچسپ کرداروں کے ذریعے یہ بات واضح کر دی ہے کہ ایک آرٹ فلم عوامی قبولیت کی سند بھی پا سکتی ہے اور کمرشل فلم کے ذریعے بھی حساس موضوعات کو پردے پر دکھایا جا سکتا ہے۔
زویا اختر کی فلموں کے مسلمان کردار ہندی سینما کے عمومی مزاج سے یکسرمختلف ہیں۔ سات یا آٹھ دہائیوں پرانی اس فلمی صنعت میں مرکزی کردار کا مسلمان ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر ہو گا بھی تو یا تو وہ اوودھ کا نواب ہوگا، طوائف یو گی یا کوئی رحم دل قسم کا ایک چاچا ہو گا جو ہیرو یا ہیرووئن پر کوئی خاص مہربانی کرتا نظر آ رہا ہو گا۔ پاکیزہ، مغلِ اعظم اور دیوار جیسی فلموں کے مسلمان کردار دیکھ لیجیے۔
مسلمان مرد ہو گا ہو تو کوئی نواب ہو گا، عورت ہے تو کوئی طوائف ہوگی…یا فلم’دیوار‘ کا رحیم چاچا ہو گا۔ مسلمان کردار وہیں نظر آئے گا جہاں کوئی مذہبی حوالہ دکھانا مقصود ہو۔ پچھلے کچھ عرصے سے مسلمان ہیرو کی ضرورت تب پیش آتی تھی جب کسی دہشت گرد کو دکھانا ہوتا تھا۔ سیکولر بھارت کی فلمی صنعت میں مسلمان ہیرو جو اپنے مذہب کے علاوہ کسی اور وصف سے پہچانا جائے خال ہی نظر آئے گا لیکن زویا اختر نے لگ بھگ ایک صدی پرانی اس ریت کو بدل کے رکھ دیاہے۔
’زندگی نہ ملے گی دوبارہ‘ دیکھئے۔ تین دوستوں کی کہانی ہے جو اسپین میں ایک ایڈونچر ٹرپ پہ جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک کردار عمران ہے۔ نام ہی سے اس کا مذہب واضح ہے لیکن فلم میں اس کے مذہب کو کہیں بھی موضوع نہیں بنایا گیا۔ وہ ایک چھچھورا جوان ہے جو ہر آتی جاتی لڑکی پر قسمت آزمانے کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ ایک بار تو اس نے اپنے ہی دوست ارجن کی گرل فرینڈ سے چکر چلا لیا۔
عمران کا المیہ یہ ہے کہ بچپن ہی میں اس کا باپ اس کی ماں کو چھوڑ کے چلا گیا تھا۔ جب جوان ہوا تو اسے پتہ چلا کہ اس کا اصل باپ سپین میں کہیں رہتا ہے۔ عمران کے اس چھچھورے پن کے پیچھے باپ کی کمی کو محسوس کرنے والا ایک انتہائی حساس نوجوان ہے۔ اس کردار کو فرحان اختر نے نہایت باریکی سے نبھایا ہے۔
اس ضمن میں دوسرا اہم کردار فلم’دل دھڑکنے دو‘ کی فرح کا ہے۔ یہ کردار انوشکا شرما نے ادا کیا۔ فرح ایک کروز میں ڈانس کرتی ہے۔ انگلینڈ میں پلی بڑھی، اردو، ہندی روانی سے بولتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی انڈین یا پاکستانی خاندان سے ہے۔ ڈانس کے جنون نے اسے چھوٹی عمر ہی میں گھر چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ کروز میں اس کی ملاقات کبیر مہرا سے ہوتی ہے اور دونوں کا تعلق شروع ہو جاتا ہے۔
زویا اختر نے پردے پر حقیقی کرداروں کو دکھایا ہے۔ یہ ایسے کردار ہیں کہ ان کا مذہب کہیں بھی ان کو ڈیفائن نہیں کرتا۔ اس روش کے دو اہم کردار فلم’گلی بوائے‘کے مراد اور سفینہ ہیں۔ مراد کچی آبادیوں میں پلنے والا ایک دلت مسلمان ہے جس نے غربت اور پسماندگی میں آنکھ کھولی اور وہ اپنے اندر ہر وقت پلنے والے غصے کے اظہار کے لئے ریپ گانے لکھتا اور گاتا ہے۔ سفینہ مراد کے بچپن کی محبت ہے۔ سفینہ مراد کو دل و جان سے چاہتی ہے اور اپنے اور مراد کے درمیان حائل ہر طاقت کو کچل دینا جانتی ہے۔ ایک بار تو اس نے ایک ایسی لڑکی کی دھلائی کی جو مراد اور اس کے درمیان رکاوٹ بن رہی تھی۔
سفینہ کا کردار عالیہ بھٹ نے نبھایا۔ سفینہ کے مذہب کو اسی قدر موضوع بنایا گیا کہ اسے سکارف اوڑھے دکھایا گیا ہے لیکن پھر سوال یہ ہے بھارتی فلموں میں کب کوئی ایسی ہیروئن نظر آئی جو سکارف پہنتی ہو؟
یہ سارے کردار حقیقی ہیں اور بھارت میں مسلمانوں کی سٹیریوٹائپنگ کے خلاف ایک اہم سنگ میل ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ہندتوا ثقافت کے میدان میں وارد ہو چکا ہے ایسے کردار نہایت باریکی سے ایک سیاسی پیغام چھوڑجاتے ہیں۔ اس کا کریڈٹ زویا اختر کو جاتا ہے۔