پاکستان

سینیٹ الیکشن: لڑائی میں فاتح کوئی ہو، ہار محنت کشوں کی ہوئی ہے!

حارث قدیر

پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے انتخابات کے نتائج نے جمہوریت کے نام پر سرمائے کی آمریت اور کالے دھن کی فتح کے جھنڈے گاڑھنے کے ساتھ ساتھ ’ڈیپ اسٹیٹ‘ کے کندھوں پر سوار ’تبدیلی سرکار‘ کی کشتی میں ایک گہرا شگاف ڈال دیا ہے۔ صوبوں میں نتائج توقعات سے کچھ مختلف نہ تھے لیکن اسلام آباد کی جنرل نشست پر سامنے آنے والے نتائج جہاں غیر متوقع تھے وہاں عمران حکومت کے مستقبل پرسوالیہ نشان بھی لگا گئے ہیں۔

عمران خان کی سربراہی میں تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں کی حکومت کا دعویٰ تھا کہ وہ ایوان بالا میں بھی اکثریت حاصل کر لے گی لیکن ایوان زیریں (قومی اسمبلی) میں حاصل اکثریت بھی جاتی رہی۔ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف اور اتحادیوں کو توقع تھی کہ انکے امیدوار حفیظ شیخ کو 185 ووٹ مل جائیں گے جبکہ اپوزیشن اتحاد کے امیدوار کو بظاہر 160 رائے دہندگان کی حمایت حاصل تھی۔ نتائج سامنے آنے کے بعد تحریک انصاف اور اتحادیوں نے مجموعی طو رپر اپنے 16 ووٹ کھو دیئے اورمحض 164 ووٹ حاصل کر سکے جبکہ اپوزیشن اتحاد کے امیدوار نے توقع سے 9 ووٹ اضافی لیکر 169 ووٹ حاصل کرتے ہوئے فتح اپنے نام کی۔

قومی اسمبلی میں سینیٹ کیلئے ہونیوالی ووٹنگ میں وزیراعظم عمران خان، چیئرمین کشمیر کمیٹی شہریار آفریدی اور وزیر ماحولیات زرتاج گل اپنا ووٹ درست طریقے سے کاسٹ نہیں کر سکے، جس کی وجہ سے انکا ووٹ مسترد ہو گیا، قومی اسمبلی کے 4 مزید ممبران کے ووٹ بھی مسترد قرار پائے جن کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ بھی تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی کے ہی ووٹ تھے۔ ووٹ مسترد ہونا یہ واضح کر رہا ہے کہ عوام سے ووٹ حاصل کرنے والے خود اتنی اہلیت بھی نہیں رکھتے کہ اپنا ووٹ درست طریقے سے کاسٹ کر سکیں۔

موجودہ سینیٹ الیکشن نے اس نظام میں انصاف کے اداروں کے کردار کو بھی خوب بے نقاب کیا ہے۔ خفیہ رائے شماری سے متعلق سپریم کورٹ میں کیس سے متعلق فیصلہ ہو یا دوہری شہریت سے متعلق جھوٹا بیان حلفی جمع کروانے والے وفاقی وزیر فیصل واوڈا کا ایک ہی روز میں بطور ممبر اسمبلی ووٹ کاسٹ کرنا، قومی اسمبلی سے استعفیٰ دینا اور اسی روز اسلام آباد ہائی کورٹ کا 2 سال سے لٹکے ہوئے نااہلی کے ریفرنس کوخارج کرنے کا فیصلہ ہو، چند گھنٹوں میں پارلیمان، عدلیہ اور الیکشن کمیشن نے اس قدر پھرتی دکھائی کہ سالوں مقدمات کی تاریخوں پر عدالتوں کے چکر لگانے والے کروڑوں محنت کشوں کی اس نظام انصاف سے لگی ہر امید ریت کی دیوار کی طرح زمین بوس ہو گئی۔

حکمران جماعت کو قومی اسمبلی میں شرمناک شکست ہونے کے بعد وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ قومی اسمبلی میں حکمران جماعت اور اتحادیوں کو عددی اکثریت حاصل کرنے میں جہاں مشکلات کا سامنا ہے وہاں سینیٹ میں بھی مجموعی طور پر حکمران اتحاد کے پاس 47 نشستیں ہیں جبکہ اپوزیشن اتحاد 53 نشستوں کے ساتھ عددی اکثریت کے ساتھ موجود ہے۔

پاکستان کے ایوان بالا کے اراکین کا انتخاب ہمیشہ ہی بڑے پیمانے پر اراکین اسمبلی کے ووٹوں کی خرید و فروخت کی ایک منڈی کی شکل اختیار کرتا آیا ہے۔ کالے دھن کی بھرمار، ریاست کی مداخلت اور خرید و فروخت کے اس کھیل میں حکمران طبقات کا ہر حصہ اور پارٹی ایک ہی طریقے پر عمل پیرا رہی ہے۔ حالیہ الیکشن میں حکمران جماعت نے اس خرید و فروخت کو جس قدر اچھالا ہے اسی قدر اس خرید و فروخت کا حصہ بھی رہی ہے۔ ماضی میں فاٹا کی نشستوں پر بڑی بولیاں لگا کرتی تھیں، اس مرتبہ یہ اعزاز بلوچستان اور خیبر پختونخوا کو حاصل ہوا۔ جس کی واضح مثال بلوچستان سے آزاد امیدوار کا کامیاب ہونا اور تحریک انصاف کے 7 اراکین اسمبلی کی موجودگی کے باوجود ایک بھی امیدوار نامزد نہ کرنا ہے، اسی طرح اے این پی 2 اراکین اسمبلی کے ساتھ ایک سینیٹر منتخب کرنے میں کامیاب ہوئی اور خیبرپختونخوا میں خواتین کی نشستوں پر اپوزیشن اپنے پورے ووٹ نہیں حاصل کر سکی، اقلیتی نشست پر پی ٹی آئی اضافی ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ گزشتہ سینیٹ الیکشن میں اراکین اسمبلی کی بھاری رقوم حاصل کرنے کی ویڈیوز ہوں یا چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے انتخاب کا معاملہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کایہ سب سے بڑا ایوان اس ملک میں ہمیشہ سرمائے کے سامنے سرنگوں اور ریاست کی مداخلت کی وجہ سے ’ضمیر فروشوں کی منڈی‘کا آئینہ دار رہا ہے۔

حالیہ سینیٹ الیکشن میں خرید و فروخت کا جتنا چرچا ہے اس سے زیادہ ریاست کی مداخلت، اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے ساتھ کسی ممکنہ ڈیل اور عمران خان حکومت کی حد سے زیادہ نااہلی کا کردار ہے۔ سینیٹ انتخابات سے قبل کچھ تجزیہ نگار اس طرف اشارے کر رہے تھے کہ اندرون خانہ ریاست کی دھڑے بندیوں میں شدت کو کم کرنے کیلئے ’بیک ڈور ڈپلومیسی‘ کا سلسلہ جاری ہے۔ اپوزیشن اتحاد کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کی ممکنہ کامیابی، بطور چیئرمین سینیٹ انتخاب اور ’مائنس عمران خان‘ حکومت کے ساتھ موجودہ سیٹ اپ کے پانچ سال پورے کروائے جانے پرمبینہ ’اتفاق‘کی خبریں بھی گردش کر رہی تھیں۔

حصے داری کی اس لڑائی میں کون کس پر فتح حاصل کرتا ہے، کس حد تک اتفاق ہوپاتا ہے، تضادات کس نوعیت سے نیا اظہار کریں گے، یہ سب باتیں ابھی قبل از وقت ہیں۔ اگر وقتی طور پر کسی ممکنہ ’اتفاق‘ کی کیفیت بن بھی جاتی ہے تو یہ تادیر نہیں رہ پائے گی۔ بحران اس قدر گہرا ہے کہ کسی بھی نوعیت کا ’وقتی اتفاق‘ اس دھڑے بندی میں موجود تضادات کی شدت میں مزید اضافہ کرے گا اورپہلے سے زیادہ بھیانک انداز میں اظہار بھی کرے گا۔

حصہ داری کی اس لڑائی میں ریاست کے مختلف دھڑوں میں ہونیوالا اتفاق ہو یا اختلاف، کسی ایک دھڑے کی فتح ہو یا شکست، محنت کشوں کی اذیتوں، دکھوں اور تکالیف میں مزید اضافہ ہی ہوتا جائے گا۔ حکمران طبقات کی دھڑے بندیاں، اختلافات اور لڑائی جس قدر گہری اور شدید ہو، اس نظام کو برقرار رکھنے، عالمی سامراجی اداروں کی لوٹ مار اور بحران کا تمام تر بوجھ اس خطے محنت کشوں کے کندھوں پر ڈالتے ہوئے انکی ہڈیوں سے عرق تک نچوڑ لینے کی پالیسیوں پر سب کا اتفاق ہے۔ مہنگائی کے طوفان، بیروزگاری میں مسلسل اضافے، علاج کی سہولتوں کے فقدان، پینے کے صاف پانی کی ناپیدگی، افراسٹرکچر کی بوسیدگی سمیت اس ملک میں بسنے والے 95 فیصد سے زائد انسانوں کے دکھوں اور تکالیف سے نہ کسی کو غرض ہے اور نہ ہی اس جانب کسی کی توجہ ہے۔ اس لئے اس نظام میں حکمرانوں کے کسی بھی دھڑے کی فتح ہو، شکست ہمیشہ محنت کش طبقے کی ہو گی۔

اس نظام کے اندر رہتے ہوئے کوئی بھی اقتدار میں آجائے، نہ تو اس بحران کا خاتمہ ممکن ہے، نہ ہی سویلین بالادستی، آمرانہ و نیم آمرانہ طرز حکومت سے اس ملک کا کوئی ایک بھی مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ آمریت اور جمہوریت اصل میں کسی نظام کو چلانے کے طریقے ہیں، مسئلہ اس نظام کا ہے جو تعفن زدہ اور بوسیدہ ہو چکا ہے۔ سینیٹ انتخابات میں اپوزیشن اتحاد کی فتح کا جشن، حکومت کے خلاف احتجاج اور حکمران تحریک انصاف اور اتحادیوں کے کرپشن اور احتساب کے شور سے بھرپور میڈیائی یلغار درحقیقت اس ملک کے محنت کشوں کو درپیش مسائل سے توجہ ہٹانے اور اس نظام اور لوٹ مار کو جاری رکھنے کے مختلف ہتھکنڈے ہیں۔ اس نظام کے زخموں سے چور محنت کش طبقہ وقتی طورپر کسی بڑی تحریک میں متحرک نظر نہیں آرہا ہے لیکن مختلف اداروں کے محنت کشوں کی بکھری ہوئی چھوٹی چھوٹی تحریکیں اور طالبعلموں میں پیدا ہونیوالی معمولی سیاسی ہلچل سطح کے نیچے پنپنے والے بغاوت اور انقلاب کے شعلوں کا پتہ دے رہی ہے۔ کوئی ایک واقعہ یا حادثہ اس بغاوت کو مہمیز دیتے ہوئے اس نظام اور حکمرانوں کو ’جبر کے آلے‘ سمیت خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا۔ محنت کش طبقے کے دکھوں کی نجات کا منبع و مرکز محنت کش طبقہ خود ہے، جب وہ انگڑائی لے گا تو ایک نئی صبح تراش لائے گا۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔