فاروق سلہریا
4 جولائی کو بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد بیجنگ میں تھیں۔ دورے کی تین باتیں قابل ِذکر ہیں:
اول، سی پیک کی طرز پر بنگلہ دیش‘چین‘ میانمار‘ انڈیا یعنی بی سی ایم آئی(BCMI) اکنامک کاریڈور میں ڈھاکہ زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہتا ہے۔
دوم، بنگلہ دیش چین کے”ڈیجیٹل سلک روڈ“ کا حصہ بننے جا رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں چین سے ٹیکنالوجی درآمد کی جائے گی۔
سوم، روہنگیا مسلمانوں کی میانمار واپسی کے لئے چین نے مدد کا وعدہ کیا ہے۔
اس دورے پر مزید بات کرنے سے پہلے بہتر ہو گا کہ بنگلہ دیش کی معاشی اور علاقائی حقیقتوں کا جائزہ لے لیا جائے۔
جنوبی ایشیا میں اس وقت بنگلہ دیش کی معیشت سب سے زیادہ ترقی کر رہی ہے۔ اگر پچھلے مالی سال میں اسکی شرح نمو 7.3 فیصد تھی تو ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق آنے والے دو سالوں میں اس کی شرح 8 فیصد رہنے کی توقع ہے۔ اس وقت بنگلہ دیش دنیا میں کپڑے کا دوسرا بڑا برآمد کنندہ ملک ہے۔ اس کی کپڑے کی برآمدات جون کو ختم ہونے والے مالی سال تک 40 ارب ڈالر تھیں۔2024ء تک بنگلہ دیش اپنی برآمدات کو 72 ارب ڈالر تک بڑھانا چاہتا ہے۔ شیخ حسینہ واجد کے ”سونار بنگلہ“ وژن کے مطابق اگلے دس سال میں ان کا ملک عالمی سطح پر ایسے ممالک میں آ جائے گا جنہیں اوسط آمدن کا حامل ملک سمجھا جاتا ہے جبکہ اگلے بیس سال میں وہ ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونے کے خواب دیکھ رہی ہیں۔ یہ خواب کتنے حقیقت پسند ہیں اس پر تبصرہ فی الحال ممکن نہیں۔
بنگلہ دیش کی معاشی ترقی میں کپڑے کی صنعت کو ریڑھ کی ہڈی مانا جا رہا ہے۔ اس شعبے سے چالیس لاکھ مزدور (زیادہ تر خواتین) وابستہ ہیں۔ اس صنعت سے بنگلہ دیش کے جی ڈی پی کا 13 فیصد حاصل ہو رہا ہے۔ (بنگلہ دیش کی اس ترقی کا بوجھ مزدور طبقے کے کندھوں پر ہے۔ ان کا زبردست استحصال ہو رہا ہے مگر طوالت سے بچنے کے لئے یہ مضمون ان تفصیلات میں فی الحال نہیں جا رہا)
بنگلہ دیش کے گارمنٹس سیکٹر کی مصنوعات کے لئے ایک بڑی منڈی امریکہ ہے۔ ’کلون کلین‘ اور ’ہل فگر‘ جیسے امریکی برانڈ تیس فیصد تک مال بنگلہ دیش سے منگوا رہے ہیں۔ ادھر اگر چین امریکا تجارتی جنگ آگے بڑھی تو اس کا فائدہ کپڑے کی مصنوعات کی حد تک ویت نام اور بنگلہ دیش کو ہو سکتا ہے۔ بلوم برگ (Bloomberg) کے مطابق بنگلہ دیش کو اتنا کاروبار مل سکتا ہے کہ اس کے صنعتی ڈھانچے میں مانگ پوری کرنے کی سکت ہی نہیں۔
ورلڈ اکنامک فورم کے مطا بق انفراسٹرکچر کے حوالے سے بنگلہ دیش کا دنیا میں نمبر 103 ہے۔ بنگلہ دیش کو زبر دست ضرورت ہے کہ وہ سڑکوں، پلوں اور ساحلی گودیوں کا نظام تیزی سے بہتر بنائے۔
یوں ڈھاکہ کے لئے ایک پیچیدہ صورتحال سامنے آتی ہے۔ ایک طرف چین ہے تو دوسری طرف امریکہ۔ اس کا امریکی برآمدات پر زبر دست انحصار ہے۔ پھر یہ کہ امریکہ جنوبی ایشیا میں چین کے کردار کو محدود کرنا چاہتا ہے۔چین سے دوستی امریکہ کو ناراض کر سکتی ہے۔ اس پس منظر میں بنگلہ دیش کی رہنما کا دورہ بیجنگ ان کی سفارتی کامیابی ہی کہلا سکتا ہے۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ان کے دورے کے تین اہم نکات تھے: پہلا بی سی ایم آئی (BCMI) اکنامک کاریڈورمیں شراکت۔ اس طرح اس کے پس ماندہ انفرا سٹرکچر کو ترقی ملے گی۔ دوسراڈیجیٹل سلک روڈ کا حصہ بننا۔ یوں اسے چین کی ٹیکنالوجی تک رسائی ملے گی۔ تیسرا روہنگیا مسلمانوں کی واپسی میں مدد۔
اس وقت روہنگیا مسلمان سب سے بڑی خیمہ آبادی گردانے جا رہے ہیں۔ یہ پناہ گزین اس وقت بنگلہ دیش کی سیاست کا اہم موضوع ہیں۔
لیکن شیخ حسینہ کی حکومت نے امریکہ اور چین یا چین اور بھارت کو کیسے بیلنس کر رکھا ہے؟ جواب ہے: حقیقت پسندانہ اور غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی۔
روہنگیا کے مسئلے پر امریکہ نے بنگلہ دیش کو میانمار پر حملے کی شہہ دی جس کی حسینہ واجد نے کھل کر مخالفت کی۔ دورہ چین کے دوران اس بات کا بھی اعلان ہوا کہ بنگلہ دیش کا سب سے بڑا گارمنٹس گروپ ’نیو ایج‘ چین کے ساتھ مل کر ڈھاکہ کے قریب بیس ملین ڈالر کا پلانٹ لگائے گا۔ پھر یہ کہ بنگلہ دیش سترہ کروڑ والی آبادی کا ملک ہے جہاں درمیانہ طبقہ بڑھ رہا ہے۔ چین کو یہ مارکیٹ با آسانی مل جائے گی۔ اس وقت یہ منڈی بھارت کی اجارہ داری ہے۔ بھارت کو خوش رکھنے کے لئے حسینہ واجد پاکستانی کیمپ سے اجتناب کرتی آئی ہیں۔
ایک اور نکتہ جو مندرجہ بالا تجزئے سے سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ بنگلہ خارجہ پالیسی معاشی تقاضوں کی مرہون منت ہے نہ کہ تذویراتی تقاضوں کے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔