حارث قدیر
دنیابھر میں مخیر حضرات اور خیراتی اداروں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے، سالانہ اربوں ڈالر کی خیرات (ویلفیئر) کے باوجود عدم مساوات میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت دنیا میں سب سے زیادہ خیرات دینے والے ممالک کے بڑے مخیر اداروں کے ذریعے دی جانیوالی رقم کا محض پانچواں حصہ ہی غریبوں تک پہنچتا ہے۔ خیراتی رقم کا ایک بڑا حصہ فنون لطیفہ، کھیلوں اور دیگرثقافتی سرگرمیوں کیلئے خرچ جاتا ہے اور خیراتی رقم کا نصف حصہ تعلیم اور صحت پر خرچ کیا جاتا ہے۔
’گارڈین‘میں شائع ہونیوالی ایک تفصیلی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ظاہری طورپر لگتا ہے کہ یہ رقم غربت کو ختم کرنے اورانسانیت کی فلاح کیلئے خرچ کی جاتی ہے لیکن اگر تھوڑی سی تفصیل معلوم کی جائے تو ایسا نہیں ہے۔ خیرات کے نام پر خرچ ہونے والی رقم کا مقصد عدم مساوات کا خاتمہ نہیں ہوتا بلکہ اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ ہی ہوتا ہے، ٹیکسوں میں چھوٹ حاصل کی جاتی ہے اور ریاستی فیصلہ سازی پراثر انداز ہونے سمیت دیگر اس طرح کے اقدامات کئے جاتے ہیں جس سے خیرات کی جانیوالی رقم سے کئی گنا زیادہ فائدہ حاصل کر لیا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2019ء میں تعلیم کیلئے سب سے زیادہ خرچ کی جانیوالی رقم اشرافیہ کی یونیورسٹیوں اور سکولوں کو دی گئی جہاں خود امیروں کی اولادیں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ برطانیہ میں 2010ء سے 2017ء تک کے 10سالہ دورانیے میں تمام کروڑ پتی عطیات دہندگان کی عطیہ کی گئی رقم کا 2 تہائی حصہ (4.79 ارب پاؤنڈز) بڑی یونیورسٹیوں کو دیا گیا، اس رقم میں سے نصف حصہ صرف دو جامعات آکسفورڈ اور کیمبرج کو دیا گیا۔ اسی دہائی میں برطانوی ارب پتی افراد نے فنون لطیفہ پر 1.04 ارب پاؤنڈ کی رقم عطیہ کی جبکہ غربت کے خاتمے کیلئے صرف 222 ملین پاؤنڈ دیئے گئے۔
گزشتہ دو دہائیوں میں عالمی سطح پر نجی سطح پر خیرات کرنے کے عمل میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس دوران دنیا کے تقریباً 3چوتھائی ویلفیئر ادارے (خیراتی ادارے) قائم ہوئے ہیں، جن کی تعداد 260000 بنتی ہے اوریہ 1.5 ٹریلین ڈالر سے زیادہ کی مالیت رکھتے ہیں۔ سب سے زیادہ خیرات دینے والے امریکہ میں ہیں، برطانیہ دوسرے نمبر پر ہے۔ بل گیٹس کی فاءؤنڈیشن نے اکیلے ہی 2018ء میں 5 ارب ڈالر سے زائد خیراتی کاموں میں خرچ کئے۔
رپورٹ کے مطابق یہ مخیر حضرات ریاستی معاملات میں مداخلت کیلئے بھی ان سرگرمیوں کا استعمال کرتے ہیں اور عوامی پالیسی میں رد و بدل کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ صرف امریکہ میں سالانہ 10 ارب ڈالر سے زیادہ رقم نظریاتی طور پر شہریوں کو قائل کرنے کیلئے وقف کی جاتی ہے۔
زیادہ ترمغربی حکومتیں نجی ویلفیئر کی حوصلہ افزائی کیلئے خیراتی اداروں کو ٹیکسوں میں چھوٹ دیتی ہیں۔ برطانیہ میں 2019ء میں 50 ہزار پاؤنڈ تک کمانے والے ہر شخص نے 20 فیصد انکم ٹیکس ادا کیا، 50 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈ کے درمیان کمانے والے ہر شخص نے 40 فیصد اور ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈ سے زیادہ کمانے والوں نے 45 فیصد انکم ٹیکس ادا کیا لیکن خیراتی اداروں کو حاصل ہونے والی تمام رقم ٹیکس فری تھی۔ اس طرح خیراتی مقاصد کیلئے دی جانیوالی 100 پاؤنڈ کی رقم کی اصل لاگت 80 پاؤنڈ آتی ہے اور 20 پاؤنڈ کی ادائیگی حکومت کو کرنی ہوتی ہے، لیکن سب سے زیادہ شرح والے ٹیکس دہندگان کو صرف 55 پاؤنڈ ادا کرنے ہونگے کیونکہ 45 پاؤنڈ حکومت فراہم کرے گا۔ انتہائی مالدار مخیر طبقے کی اس خیرات کا 45 فیصد حصہ حکومتی فنڈ سے جاتا ہے جو ٹیکس دہندگان سے حاصل کیا گیا ہوتا ہے۔ اس طرح اپنی دی گئی رقم ہی لوگوں کو خیرات کی شکل میں واپس دی جاتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مخیر حضرات کے ذریعے جو رقم دی جاتی ہے اسے اگر ٹیکس کے طور پر جمع کیا جائے تو منتخب حکومتیں اس سے زیادہ بہتر طریقہ سے ترجیحات کے مطابق استعمال کر سکتی ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام کے حدود میں رہتے ہوئے امیروں پر زیادہ ٹیکس لگائے جانے اور غریب محنت کشوں کے حالات زندگی کو بہتر کرنے کیلئے سرمایہ خرچ کرنے جیسے اقدامات اب ماضی کا قصہ بن چکے ہیں۔ سرمایہ دار اپنا ہر عمل منافع اور شرح منافع میں بتدریج اضافے کیلئے سستے خام مال تک رسائی کو آسان بنانے اور کم سے کم اجرت پر زیادہ سے زیادہ قوت محنت کے حصول سمیت دیگر سہولیات کیلئے قانون سازی کروانے، رائے عامہ ہموار کرنے اور ماحول کو موافق بنانے کیلئے کرتے ہیں۔
منافع اور شرح منافع انسانی قوت محنت کے استحصال کے بغیر حاصل نہیں کی جا سکتی، شرح منافع میں مسلسل اضافے کیلئے اجرتوں میں کٹوتیوں، مراعات چھیننے سمیت اس طرح کے اقدامات کئے جاتے ہیں جس سے محنت کش طبقے کے حالات زندگی مزید تنگ ہونا شروع ہوجاتے ہیں، غربت اور امارت کے مابین خلیج بڑھتی جاتی ہے اور پھر محنت کش طبقے کی لوٹی ہوئی محنت سے ہی غربت میں کمی کے نام پر خیرات کر نے جیسے اقدامات کے ذریعے ٹیکسوں میں چھوٹ سمیت ریاست سے دیگر مراعات لیکر محنت کشوں کے حق پر ڈاکہ مارا جاتا ہے۔ ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کے خاتمے اور پیداوار کے مقصد کو منافع سے انسانی ضروریات کی تکمیل کے مقصد سے بدلنے کے سوا محنت کش طبقے کے حالات زندگی کو بہترکرنے اور اس کرہ ارض کو انسانیت کا گہوارہ بنانے کا کوئی اور راستہ موجود نہیں ہے۔