اداریہ جدوجہد
گزشتہ ڈیڑھ سال سے کرۂ ارض کو انتہائی خطرناک وبا نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کروڑوں انسان اس وبا کی لپیٹ میں ہیں، لاکھوں انسانوں کی موت ہو چکی ہے، انسانی آبادیاں ایک سال سے زائد عرصہ سے مکمل یا جزوی محصوری کا شکار ہیں لیکن انسانی خون پر پلنے والے سرمایہ دارانہ نظام کے رکھوالے مردہ انسانوں کی ہڈیوں سے بھی سرمایہ نچوڑنے کیلئے ہر حد تک جانے کو تیار ہیں۔
پہلے پہل کورونا وائرس کو سامراجی چپقلشوں کو طوالت دینے کے بہانے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے قومی، لسانی اور علاقائی نفرت کو ابھارنے کی کوشش کی گئی۔ لاک ڈاؤن کے ذریعے ہونے والے معاشی نقصانات کے ازالہ کیلئے پالیسیاں مرتب کرتے ہوئے سرمایہ داروں کو نوازا گیا جبکہ اربوں محنت کشوں کو امدادی پیکیجوں کے نام پر انکے پہلے سے موجود معیار زندگی سے بھی کئی گنا نیچے دھکیل دیا گیا۔
وبا پر قابو پانے کیلئے ویکسین کی تیاری پر بھی حکمران طبقات اور مختلف ریاستوں کے مابین مقامی سرمایہ داروں کی وکالت اور پیٹنٹ کی ابتدائی جنگ نظر آئی، پھر ویکسین ڈپلومیسی کا سلسلہ شروع ہو گیا اور سامراجی ممالک نے ویکسین کی فراہمی کا سلسلہ بھی سامراجی مقاصد کے تحت ہی شروع کر رکھا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی فنڈنگ کو کم کیا گیا اور غریب ممالک کو ویکسین کی پہنچ سے دور کرنے اور ویکسین کے ذریعے سرمایہ داروں کو منافع کمانے کا کھلا راستہ فراہم کیا گیا۔
پاکستان اس کرۂ ارض پر ابھی تک کا واحد ملک ہے جس نے نجی شعبہ کو ویکسین درآمد کر کے فروخت کرنے کی اجازت دیکر یہ واضح اعلان کر دیا ہے کہ اس ریاست کے پاس اپنے جی ڈی پی کا محض 1 فیصد حصہ بھی انسانی زندگیوں پر صرف کرنے کیلئے موجود نہیں ہے۔ دوسری جانب سرمایہ داروں کو نوازنے کیلئے ویکسین کی قیمتیں کئی گنا زیادہ کر کے تعین کی گئی ہیں، جبکہ ریاست کی نااہلی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نجی کمپنیوں نے قیمتوں میں مزید اضافہ نہ کئے جانے کی صورت ویکسین مارکیٹ میں فراہم نہ کرنے کی دھمکی بھی لگا دی ہے۔ عالمی سطح پر 10 ڈالر فی خوراک فروخت ہونے والی روسی ویکسین سپٹنک فائیو کی قیمت ڈریپ نے 8449 مقرر کرنیکی سفارش کی ہے جو کہ 54 ڈالر کے برابر رقم بنتی ہے۔ اسی طرح چین کی ایک کمپنی کین سینو بائیو کی ویکسین کی قیمت 4225 روپے مقررکرنیکی سفارش کی گئی ہے۔ ویکسین درآمد کرنے والی کمپنیوں نے اس قیمت کو کم قرار دیتے ہوئے مزید اضافے کا مطالبہ کیا ہے، بصورت دیگر ویکسین واپس بھیجنے کی دھمکی دی گئی ہے۔ ویکسین درآمد کروانے والی کمپنیوں میں وزیراعظم کے معاون خصوصی کی سرمایہ کاری کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی 10 ڈالر کی ویکسین کی قیمت 54 ڈالر مقرر کرنے کی فیصلہ کو واپس لینے کا مطالبہ کیا اور مفت ویکسین کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) کے مطابق روسی ویکسین سپٹنک فائیو اگر حکومتی سطح پر پوری اہل آبادی کو دی جایئے تو اس پر 88 ارب روپے لاگت آئے گی جو سرکاری تعین کردہ قیمت کے مطابق نجی شعبہ کی کمائی جانیوالی دولت سے 726 ارب روپے کم لاگت ہے۔ پی آئی ڈی ای نے تجویز دی ہے کہ لاک ڈاؤن کی صورت میں مستقبل میں معیشت کو ہونے والے نقصان سے بچنے کیلئے حکومت ویکسین پروگرام کو فنڈ کرے اور سرکاری سطح پر ویکسین لگائی جائے۔
پی آئی ڈی ای کے مطابق 139 ملین اہل آبادی کو قطرے پلانے کی لاگت گزشتہ سال کے مجموعی جی ڈی پی کے 0.85 فیصد سے 1.21 فیصد کے درمیان آئی گی۔ اسٹرا زینیکا ویکسین پر فی شخص 12 ڈالر یا 1920 روپے لاگت آئیگی اور مجموعی آبادی کو ویکسین لگانے کیلئے 263 ارب روپے درکار ہونگے۔ سپٹنک ویکسین کی قیمت 20 ڈالر یا 3200 روپے ہے اور اسکی کل لاگت 438 ارب روپے ہو گی۔ اگر آسٹرازینیکا اور سپٹنک ویکسین کو مشترکہ طور پر استعمال کیا جائے تو کل لاگت 351 ارب روپے تک ہو گی۔ ڈبلیو ایچ او کی طرف سے تعین کردہ قیمت کے مطابق فی شخص 4000 روپے لاگت آئے گی، اس طرح پاکستان میں کل لاگت 548 ارب روپے تک لاگت آئیگی۔ اگر نجی شعبہ سپٹنک ویکسین کی درآمد کرتا ہے اور اسے مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا ہے تو 137 ملین افراد کو 1.164 ہزار ارب روپے ادا کرنا پڑیں گے اور سرکاری درآمدات پر 438 ارب لاگت آئیگی۔
حکومت ویکسین کی خریداری کی بجائے عطیات کی تلاش میں مصروف ہے اور نجی شعبے کو ویکسین کے نام پر لوٹنے کی کھلی چھوٹ دینے کی راہ بھی ہموار کی جا رہی ہے۔ حکومت نے ابھی تک ویکسین کی خریداری کیلئے 25 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ حکومت نے لاک ڈاؤن کے نتیجے میں ہونے والے نقصان سے نمٹنے کیلئے 770 ارب روپے نقد پیکیج کا اعلان کیا تھا، گزشتہ مالی سال میں اس پیکیج کا دو تہائی حصہ یعنی 540 ارب روپے خرچ ہی نہیں ہو سکے تھے۔ رواں مالی سال میں بھی محض 116 ارب روپے کی رقم جاری کی گئی جس سے پیکیج کے مجموعی اخراجات 356 ارب روپے ہو چکے ہیں جو اس پیکیج کے نقد حصے کا صرف 46 فیصد ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مستحق ممالک کی 20 فیصد آبادی کو مفت ویکسین فراہم کرنے کے پروگرام کا بھی پاکستان حصہ ہے، چین کی جانب سے 50 سے زائد ممالک کو ویکسین فراہم کئے جانے کے پروگرام کا بھی حصہ ہے۔ اس سب کے باوجود پاکستان ویکسینیشن میں خطے کے دوسرے تمام ممالک سے پیچھے ہے۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان کے حکمران طبقات ویکسین کو منافع کمانے کی ایک جنس سے زیادہ اہمیت دینے سے گریزاں ہیں۔ ویکسین دنیا بھر میں ہر انسان کی بنیادی ضرورت اور حق ہے۔ اس وقت تک دنیا میں موجود دولت کا تمام تر ارتکاز، تمام تر ترقی اور ایجادات انسانیت کا مشترکہ ورثا ہیں۔ ویکسین کی ہر سطح پر مفت فراہمی یقینی بنانے کیلئے ہنگامی اقدامات کرتے ہوئے نسل انسانی کو اس موذی وبا کے خلاف مدافعت کی صلاحیت پیدا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔