فوزیہ رفیق
پنجابی دنیا کے ہر کونے میں بستے ہیں ، 125 ملین کی نفری پہ ہم دنیا کی آبادی کا ساتواں بڑ اگروپ ہیں۔ ہر جگہ ہم اپنی مادری زبان کے ساتھ ساتھ ایک دو خواہری زبانیں بھی استعمال کرتے ہیں، جیسے پاکستانی پنجاب میں صوبائی زبان پنجابی ہماری مادری زبان ہے، جبکہ قومی زبان اردو اور سرکاری زبان انگریزی ہماری خواہری زبانیں ہیں۔ ہر کسی کے رہن سہن کے مطابق ہماری مادری زبان میں خواہری زبانوں کے الفاظ اور خواہری زبانوں میں مادری زبان کے الفاظ شامل ہوتے ہیں۔ پنجاب میں ایک جانب ماں بولی میں عربی، فارسی، اردو اور انگریزی کے الفاظ شامل ہیں اور دوسری جانب ہندی، سنسکرت اور انگریزی کے۔ دونوں اطراف پنجاب کے کچھ لکھاری اردو، ہندی اور انگریزی میں بھی لکھتے ہیں۔
پنجاب سے باہر رہتے پنجابیوں کی کچھ خواہری زبانیں ان ممالک میں رہنے والے لوگوں کی مادری زبانیں ہیں اور کچھ ممالک میں نہیں۔ مثلاً جرمنی میں جرمن مقامی لوگوں کی مادری زبان ہے، مگر کینیڈا میں انگریزی اور فرانسیسی دونوں ہی مقامی لوگوں کی مادری زبانیں نہیں بلکہ یورپی سامراجیوں کی مادری زبانیں ہیں جو انہوں نے ادھر آ لاگو کیں، جیسے پنجاب اور بر صغیر میں انگریزی لاگو کی گئی۔
اس وقت بیشتر شہری پنجابیوں کا روزگار خواہری زبانوں سے جڑا ہوا ہے۔ ہر جگہ، خصوصاً پنجاب میں، پنجابی کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جو ہماری مادری زبان کو ملنا چاہیے، ادھر اب بھی سب درجات اردو، ہندی یا انگریزی کے پاس ہیں۔
اس کیفیت میں ہمارے پاس کیا چوائیس ہے؟ ہر کسی کی بولی اس انسان کی اپنی اٹھان کا نتیجہ اور اس کی ذاتی تاریخ کا ایک حصہ ہے۔ یہاں میں اپنی مثال دیتے ہوئے یہ بتانا چاہتی ہوں کہ اپنی مادری زبان کے سلسلے میں کیا پروسیس تھا جس سے میں بچپن میں گزری اور اب پنجاب کی ایک لکھاری ہوتے ہوئے میں مادری زبان اور خواہری زبانوں میں جانچ پڑتال کیسے کرتی ہوں اور کیوں کرتی ہوں۔
میری مادری زبان اور میں
بچپن میں میری زندگی پر میری مادری زبان کا راج تھا۔ ہم پتوکی کے قریب پچاس ساٹھ گھروں کے ایک گاﺅں میں رہتے تھے، ہمارے گھر کے اندر باہر سب پنجابی بولتے تھے۔ الف بے میں نے گھر کے آنگن میں اپنی ماں سے سیکھی، بعد میں ہم نے ایک قاعدہ شروع کیا اردو کا اور پھر عربی کا۔ میرے بڑے بھائی اور بہن لاہور انگریزی سکولوں میں پڑھتے تھے، انہوں نے مجھے اے بی سی سکھائی۔ گھر میں ایک ریڈیو تھاجو زیادہ تر خبریں سننے کیلئے استعمال ہوتا، اس پر اکثر لاہور، بی بی سی یا آل انڈیا ریڈیو لگے ہوتے۔ لاہور ریڈیو پہ پنجابی لوک گیت، اردو نعتیں اور دونوں زبانوں کے ڈرامے بھی لگتے۔
آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ بنیادی تعلیم میں مجھے اردو، عربی اور انگریزی پڑھائی گئی، پنجابی نہیں۔ اس وقت اس جگہ پنجابی کلچر مضبوط تھا، نہ پڑھائے جانے سے ہمیں فرق نہیں پڑا کہ پنجابی کے درس ہمیں ہمارا رہن سہن دیتا تھا۔ گاﺅں میں میری ماں کے علاوہ ایک دو اور عورتیں بھی پنجابی پڑھنا جانتی تھیں۔ لالٹین کی روشنی میں، اماں جیواں کی جھونپڑی میں یوسف زلیخا، سسی پنوں، سوہنی مہینوال اور سہتی مراد کے قصے سنتی۔ میری ماں کے پاس بلھے شاہ، بابا فرید، سلطان باہو اور شاہ حسین کے کلام تھے جو ہم اس سے بھی سنتے اور ریڈیو پر گلوکاروں سے بھی۔ گھدے ڈانس چاند راتوں میں کھیلے جانے والے ڈرامے تھے۔ موسمی تہوار، عید شبراتیں، منگنیاں بیاہ، پورے چاند کی راتیں، ہم پنجابی لوک گیت اور ٹپے گاتے، سناتے، نئے بناتے، گھدے ڈالتے، ناچتے۔
اوپر آخری جملہ کچھ ٹھیک نہیں، حقیقت یہ ہے: ہم پنجابی لوک گیت اور ٹپے گاتیں، سناتیں، نئے بناتیں، گھدے ڈالتیں، ناچتیں۔ لگتا ہے، میرے گاﺅں میں تمام فنون لطیفہ عورتوں کے ہاتھ میں تھے اور وہی ان کو ترقی دیتی تھیں۔ مرد گاتے بجاتے دیکھے جب کبھی سپیرے آتے، بین بجاتے، ڈگڈگی اور ڈھول کی لے پہ بندر نچاتے، ریچھ کا تماشہ کرتے۔ کوئی بڑی بات ہوتی تو کھسروں کی پارٹی آتی، وہ جگت بازی بھی کرتے اور ناچتے گاتے بھی۔ لڑکے اور مرد گلی ڈنڈا، کشتی اور کبڈی کھیلتے۔ ایک ہمارے سگے آتے، وہ بی اے پاس، علامہ اقبال کو اونچا جانتے اور ان کی نظمیں زبانی سناتے۔ ایک انگریزی کی کتاب سے دیکھ دیکھ کچھ لکھتے رہتے، پتہ لگا، کوئی لکھاری ہے شیکسپیئر اس کے ڈرامے اردو میں ترجمہ کرتے ہیں۔
راتوں کوباتیں ڈالنا یا ایک دوسرے کو جگ بیتی یا ہڈ بیتی سنانا روز کا کام تھا۔ ان پڑھ لوگوں کے گاﺅں میں جو کہانیاں سنا لیتی اس کی شان بن جاتی۔ میں نے گیتوں سے پہلے کہانی بنانی سیکھی، میرے پاس دو آڈینس تھیں، دوپہر اپنے ساتھ کے بچے اور رات اپنے گھر کے بڑے۔ فرق یہ ہوتا کہ بچوں کو چھوٹی کہانی سناتی جس میں بولنے والے طوطے اور جن بھوت ٹائپ چیزیں بھی ہوتیں اور بڑوں کو لمبی کہانی سناتی مگر اس میں طلسماتی چیزیں نہ ہوتیں، شاید میرا خیال تھا اصل کہانی لمبی اور حقیقت پسندہوتی ہے۔ جلد ہی میرے گھر والے کہا نی کے وقت مجھ سے کترانے لگے۔ ایک دن میرے بھائی نے کہا، آج میں تمہاری کہانی پوری سنوں گا۔ آدھی رات ہو گئی، نہ کہانی ختم ہو اور نہ مجھے نیند آئے، آخر میرے بھائی کو ہار ماننا پڑی۔
میری کہانی کبھی ختم نہ ہونے والی تھی، وہ میں نے بڑوں کی سنائی ایک کہانی، چڑی آئی اور دانہ لے گئی، کی تکنیک پہ بنائی تھی، جس کا مقصد بچے کو بور کر کے سو جانے پر مجبور کرنا ہوتا تھا۔ جیسے چڑیا ایک ایک کر کے گودام سے گندم کے سارے دانے نہیں لے جا سکتی تھی، ویسے ہی میری کہانی میں انسانی نسل ختم نہیں ہو پاتی تھی۔ ایک شاہی خاندان کی کہانی، جو شروع ہوتی تو بادشاہ، ملکہ، شہزادے، شہزادیاں، دھوپ میں چارپائی بچھا کر، بیٹھے کبھی گنے چوس رہے ہوتے اور کبھی آم، کبھی مالٹے کھا رہے ہوتے کبھی امرود، کبھی جامن اور کبھی شہتوت۔ اختتام ہمیشہ دردناک ہوتا، کوئی نہ کوئی آفت آتی، زلزلہ، سیلاب، جنگ، بغاوت، بخار، چیچک، سب مر کھپ جاتے، ایک ولی عہد بچتا، وہ بڑا ہو کر بادشاہ بنتا اور پھر وہ اپنی فیملی کے ساتھ صحن میں بیٹھا پھل فروٹ کھا رہا ہوتا۔
سن ساٹھ کی دہائی کے شروع میں، میں سات برس کی تھی جب میری فیملی لاہور آ بسی اور میں گورنمنٹ کے ایک پرائمری سکول میں داخل ہو گئی۔ وہاں پہلی بار مجھے پنجابی بولنے سے روکا گیا۔ سچی بات ہے، اس وقت مجھے پنجابی اور اردو کا فرق پتہ نہیں چلتا تھا، کچھ ماہ میں ملی جلی زبان بولتی جس پر مجھے سکول میں شرمندگی اٹھانا پڑتی۔ انہی دنوں میرے بھائی کی شادی ہوئی، میری بھابھی میاں چنوں رہتیں، ہوشیارپور کی ایک فیملی سے تھیں جو کچھ سال سے لاہور پڑھ رہی تھیں۔ وہ اردو ادب، شاعری اور موسیقی کی دلدادہ، مرزا غالب کی شیدائی، خود بھی غزلیں گاتی تھیں۔ انہوں نے گھر میں پہلی بار مجھ سے اردو بولنا شروع کی اور آہستہ آہستہ مجھے پنجابی اور اردو کا فرق سمجھ آنے لگا۔
گھر کے باہر بھی حالات بدل چکے تھے، شہر کا کلچر اور تھا۔ گاﺅں میں ہر کوئی اپنا تھا، شہر میں ہر کوئی پرایا۔ گھر سے باہر جانے پہ مزید پابندیاں۔ یوں باہر کی دنیا میں سکول میرا گھر بن گیا۔ مجھے کہانیاں سنانے سے پہلے سننے کا شوق تھا، سکول کی لائبریری میں بچوں کی کہانیوں کی اردو کتابیں ہوتیں، کچھ گھر کے راستے میں ایک کھوکھے سے بھی مل جاتیں، دو تین رسالوں کے ساتھ جیسے کھلونا، تعلیم و تربیت اوربچوں کی دنیا۔ میں اپنا جیب خرچ ادھر ہی لگاتی تھی۔ اچھے نمبر لیتی تو میرے بھائی مجھے فیروز سنز لے جاتے۔ پانچویں جماعت میں مےرے پاس بچوں کی کہانیوں کی سینکڑوں کتابیں اور رسالے تھے، بیشتر اردو، کچھ انگریزی، مگر ایک بھی پنجابی میں نہیں۔ یہ ساٹھ کی دہائی کی بات ہے، اس وقت مجھے بچوں کی کہانیوں کی پنجابی کتابیں رسالے کہیں نظر نہیں آتے تھے، نہ سکول کی لائبریری میں، نہ کھوکھے پہ اور نہ فیروز سنز۔
ہائی سکول پہنچتے مجھے محسوس ہوا جیسے زندگی میں آگے بڑھنے کیلئے مجھے اردو اور انگریزی، صوفیانہ شاعری اور روحانی ترقی کیلئے پنجابی اور دینی تعلیم کیلئے عربی پڑھنے کی ضرورت ہے۔ یا یوں کہیے پنجابی صوفیانہ شاعری کی بولی ہے، عربی قرآن کی، اردو اور انگریزی دنیا میں اپنا مقام بنانے کی۔ اس میں میری اپنی سوچ یا سمجھ شامل نہیں تھی، یہ میرے ماحول اور میری ضرورت نے مجھے سمجھایا۔
ان چار میں سے تین بولیاں میں اب تک استعمال کرتی ہوں۔ میں نے کہانیاں بنانا پنجابی میں شروع کیں، مضمون لکھنا اردو میں اور خبریں لکھنا انگریزی میں۔ پہلا ٹی وی سیریل ایک اردو ناول کی ڈرامائی تشکیل اردو میں بنام ’دستک نہ دو‘ او ر پھر ایک روسی ناولٹ کا انگریزی سے پنجابی میں بنام’ آپے رانجھا ہوئی‘۔ پہلا ناول پنجابی میں 1974ءمیں شروع کیا جو 2019ءمیں مکمل ہو کر شائع ہوا۔ کینیڈا آنے کے بعد چند کہانیاں انگریزی میں لکھیں، ناول ’سکینہ‘ انگریزی اور پنجابی میں اکٹھے لکھا اور ’ایڈونچرز آف صاحباں‘ صرف انگریزی میں۔ پہلی نظم سن ستر کی دہائی میں اردو میں لکھی، بعد ازاں شاعری ہوئی انگریزی یا پنجابی میں۔
ایک بولی سے دوسری میں جاتے مجھے کوئی پرابلم نہیں ہوتی اور نہ یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ کونسی چیز کس بولی میں ہے۔ جس چیز نے جس بولی میں آنا ہوتا ہے وہ اسی میں آتی ہے۔
تو پھر رنجش کیا ہے؟
رنجش یہ ہے کہ ایک تو پرائمری سکول میں پنجابی پڑھائی ہی نہ گئی اوپر سے پنجابی بولنا بھی سکول سسٹم کی نا فرمانی اور جہالت کی نشانی تھی۔ اس کی جگہ اگر سکول میں پڑھائی لکھائی پنجابی میں ہوتی اور میری ماں بولی کو پنجاب ہی میں ایک کمتر بلکہ نیچ بولی بنا کر نہ پیش کیا جاتا تو بیشک مجھے ہر چیز آسانی سے سمجھ آتی اور میں اور بھی خوبصورت فنون سیکھتی۔ مزید یہ کہ اس وقت مارکیٹ میں بچوں کی کہانیوں کی کتابیں اور رسالے نہیں تھے، اس سے میرے اس تصور کو جلا ملی کہ پنجابی صوفیانہ شاعری کی زبان ہے، نئی دنیا کی نہیں۔ میں سمجھتی ہوں ان دو چیزوں کی وجہ سے میری پرورش میں ایک بڑا خلا پیدا ہو گیا جس کو میں پر نہیں کر سکتی۔
یہ خلا فقط ایک بولی کو مضمون کی طرح نہ پڑھ سکنے ہی کی وجہ سے نہیں، وہ تو پھر بھی پر کیا جا سکتا تھا۔ اصل کارن یہ تھا کہ گاﺅں سے شہر پہنچتے ہی، بنا مجھے کچھ بتائے یا سمجھائے، یکدم، میرا پورا کلچر رد کر دیا گیا۔ جس بولی میں میں سوچتی تھی، کہانیاں بناتی، ٹپے جوڑتی تھی، بڑوں چھوٹوں سے گفتگو کرتی تھی، اٹھتی بیٹھتی تھی، رہتی سہتی تھی، وہ سب پینڈو کا ٹھپہ لگا کر پرے پھینک دیا گیا۔ پتہ چلا کہ اب مجھے اپنا پینڈو سیلف چھپا کر، یا مار کر، ایک شہری ذات تشکیل دینی ہے جو اردو اور انگریزی بولے، لسی کی جگہ چائے پئے، چھری سے کاٹ کر آم کھائے اور چمچے سے چاول۔
مجھے اپنا آپ بدلنے میں دیر نہیں لگی کیونکہ پورا ماحول مجھے اسی طرف دھکیل رہا تھا۔ تو پھر کیا کہہ کر مجھے داد دی جاتی تھی؟ کیسی اچھی اردو بولتی ہے، پتہ ہی نہیں چلتا کہ پنجاب سے ہے۔ د ر حقیقت مجھے اپنا آپ، اپنا پنجابی سیلف، چھپانے میں بہت مسئلہ ہوتا تھا۔ اپنی اصل کون چھپا سکتا ہے، مری بکل دے وچ چور۔ پھر بچے کا ذہن، سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا خامی ہے جو چھپاو¿ں، کیسے چھپاﺅں اور کیوں۔ یہ دراڑ آج بھی میری بنیادوں میں ہے کیونکہ روح پہ لگے زخموں کی دوا کوئی نہیں۔
اور یہ فقط گاﺅں سے شہر آنے والی بچیوں ہی کی ٹریجیڈی نہیں، پنجاب کے مختلف شہروں میں رہتے بچوں کو سات سال کے ہونے سے بہت پہلے پتہ چل چکا ہوتا ہے کہ دنیا میں جگہ بنانے کے لئے پنجابی بولی اور کلچر کو خیر باد کہنا ہو گی۔ کینیڈا میں انگریز سامراجیوں نے مقامی قوموں کے بچوں کے لئے انگلش میڈیم بورڈنگ سکول بنائے ہیں جہاں بچوں کو اپنی ماں بولیاں بولنے، اپنے لباس پہننے، اپنی تقریبات کرنے، اپنے گیت گانے اور مقامی علوم جاننے کی مکمل ممانعت تھی۔ نا فرمان بچوں کو شدید سزائیں دی جاتی تھیں، جن میں فاقہ، قید تنہائی حتیٰ کہ کچھ سکولوں میں الیکٹرک چیئر بھی استعمال کی جاتی تھی۔
پنجاب میں یہ تو نہیں ہوا مگر بر صغیر کی سامراج سے آزادی کے بعدبھی ہماری ماں بولی کے ساتھ ایک متعصب رویہ جاری رکھا گیا اور اب تک رکھا جا رہا ہے۔ سوچنے کی بات ہے، جب سے پاکستان بنا ہے کتنی بچیاں اور بچے ذات کے ٹکڑے کر دینے والی اس اذیت سے نکلے ہوں گے، کتنے نکل رہے ہوں گے اور کتنے ابھی اور نکلیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ 2007ءمیں جب میں اپنا ناول’ سکینہ‘ لانچ کرنے پاکستان آئی تواس کی تقریبات میں ماں بولی کے بارے میں ایک پروگرام پیش کیا گیا جو پنجاب کے سات اور سندھ کے دو شہروں میں ساتھیوں کے سامنے رکھا گیا اور اس پر بات چیت ہوئی۔ ’سکینہ‘ کی تقریبات اس کے پبلشر امجد سلیم منہاس (سانجھ پبلیکیشنز، لاہور) نے ہر شہر کی ادبی تنظیموں کے ساتھ اور محمد تحسین (ساﺅتھ ایشیا پارٹنرشپ، پاکستان) کی مدد سے پیش کیں۔
پنجابی کے حقوق
پنجاب کے پنجابی میں لکھنے والے لکھاری دنیا میں جہاں بھی ہیں، بہن بولیاں ان کے ماحول پہ جتنا بھی حاوی ہیں، وہ اپنی تحریروں اور تنظیموں کے ذریعے ہر دم اپنی ماں بولی کا مان رکھے ہوئے ہیں۔ پچھلے دس بارہ سال میں دیکھ لیجئے دونوں پنجابوں میں بھی اور باقی دنیا میں بھی پنجابی ادبی میلوں کی تعداد بڑھ گئی ہے، ایوارڈ بڑھ گئے ہیں، پنجابی لکھاریاں کی تنظیمیں چھوٹے بڑے شہروں میں بن گئی ہیں، ماں بولی کی پالنہار تحریکوں نے زور پکڑا ہوا ہے۔
کچھ ساتھی پاکستان کی قومی بولی اردو یا سرکاری بولی انگریزی کو الزام دیتے ہیں یا انہیں سیکھنے یا استعمال کرنے پر طعنہ دیتے ہیں۔ یہ تنگ ذہنی ہے، ایک سے زیادہ زبانیں سیکھنا اور استعمال کر سکنا ایک خوبصورت گن ہے، اسے تعصب کی وجہ سے کھو دینا نہ پنجابی کی خدمت ہے نہ پنجابیوں کی۔ اور پھر یہ سوچ اس معاملے میں کنفیوژن بڑھاتی ہے، یوں لگتا ہے، ہمارے دوست صوبے اور ملک میں فرق نہیں دیکھ رہے۔ پاکستان کے چار صوبوں میں 74 بولیاں بولی جاتی ہیں، ان میں سے چار صوبائی بولیاں ہیں: پنجابی، سندھی، پشتواور بلوچی۔ ان 74 میں سے یا ان چار میں سے کوئی ایک بولی بھی قومی زبان کے طور پر چاروں صوبوں پر لاگو نہیں کی جا سکتی اور نہ کی جانی چاہیے۔
پنجابی ایک صوبے کی بولی ہے، پورے ملک کی نہیں۔ اس کا دونوں قومی بولیوں سے اپنے حقوق کے مسئلے پر تضاد تو بنتا ہے، مگردشمنی نہیں۔ دشمنی ہو اگر یہ بولیاں ایک دوسری کی جگہ لے سکتی ہوں، مگر نہ پنجابی پاکستان کی قومی زبان بن سکتی ہے اور نہ اردو یا انگریزی پنجاب کی صوبائی زبانیں بن سکتی ہیں۔
تضاد پاکستانی حکومت سے پنجابی کے صوبائی حقوق لینے کا ہے، جو اس نے قومی اور سرکاری زبانوں کو دے رکھے ہیں۔ وفاقی حکومت بےشک وفاقی اداروں اور کارروائیوں میں اردو اور انگریزی استعمال کرے پنجاب میں صوبائی حکومت کے ادارے اور ان کی کارروائیاں ہماری مادری زبان میں ہوں۔ قومی سرکاری بولیوں سے پرہیز کا پرچار کرنے کی جگہ ہمیں اپنی ماں بولی کو اس کے صوبائی حقوق دلوانے چاہئیں۔ اس سے ماں بولی میں تعلیم بڑھے گی، روزگار کے مواقع بڑھیں گے، تخلیقی کام بڑھے گا اور پنجاب میں ملک کی قومی اور سرکاری زبانیں اپنے اپنے مقام پر آ رہیں گی۔
پنجاب میں ماں بولی کے صوبائی حقوق کے بارے میں بات چیت سرائیکی بولی کے حقوق پر بات کئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ ہم وہ پنجابی ہیں جو اپنی ماں بولی کو اس کے حقوق دلوا کر اس کا مان بڑھانا چاہتے ہیں، ہمیں دوسروں کے حقوق کی بات کھلے دل اور دماغ سے سننی چاہئے اور انصاف سے نمٹانی چاہئے۔ پاکستانی پنجاب میں 70 فیصد لوگ پنجابی بولی بولتے ہیں اور 21 فیصد سرائیکی۔ انصاف یہ ہو کہ ہم پنجاب میں دو صوبائی بولیاں منوائیں، پنجابی اور سرائیکی۔ ملکی سطح پر مادری زبان بولنے والوں کا تناسب کچھ اس طرح ہے:
پنجابی: 69.67 فیصد
سرائیکی: 20.68 فیصد
اردو: 4.87 فیصد
پشتو: 1.98 فیصد
بلوچی: 0.83 فیصد
سندھی: 0.15 فیصد
یقینی بات ہے کہ پاکستانی پنجاب میں ماں بولیوں کے اس بھنور میں سے ہمیں دونوں اطراف کی ہوشمند تحریکیں بچا سکتی ہیں، جوشمند نہیں۔
سارا کاظمی اور قیصر عباس کی مہربانی جن کی فیڈبیک نے اس مضمون کو جلا دی۔